1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. مجھے اس ”گھونسے“ سے ڈر لگتا ہے

مجھے اس ”گھونسے“ سے ڈر لگتا ہے

یہ کالم پڑھنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ میں صرف سیاست پرلکھوں۔ پیر کی صبح یہ کالم لکھنے کے بعد مجھے خود بھی اپنا ٹی وی کھولنا ہوگا۔ پانامہ دستاویزات کی بتائی داستان آج سے سپریم کورٹ کے روبرو ہوگی۔ نواز شریف کے بچوں نے ثابت یہ کرنا ہے کہ لندن میں خریدے فلیٹس انہوں نے اپنے والد کے سیاسی اثر کی بدولت جمع ہوئی رقوم سے نہیں خریدے تھے۔ نواز مخالفین کو ان رقوم کا تعلق کسی نوعیت کی بدعنوانی یا کک بیکس سے جوڑنا ہے۔ رقوم صاف ستھرے ذرائع سے بھی جمع ہوئی ہوں تو سوال اُٹھے گا کہ انہیں پاکستان سے باہر کیسے منتقل کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کے الزامات اور ساتھ ہی ساتھ اس سوال کا جواب بھی کہ 2013ء میں انتخابی عمل کے لئے لازمی قرار دئیے گئے گوشواروں میں نواز شریف نے ان رقوم کا ذکر کیوں نہیں کیا تھا۔

نواز شریف پر لگے الزامات کی حقیقت کچھ بھی رہی ہو، سب سے اہم بات میری ناقص رائے میں یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں تیسری بار ایک منتخب وزیر اعظم سپریم کورٹ کو جواب دے رہا ہے۔ کہانی ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مشتاق نے 1974ء میں ہوئے ایک قتل کا ذمہ دار انہیں 1978ء میں ٹھہرا کر پھانسی کا حکم صادر کیا۔ وہ جان بخشی کے لئے سپریم کورٹ گئے تو یہ فیصلہ برقرار رہا۔ 4 اپریل 1979ء کی صبح ذوالفقار علی بھٹو کو تارا مسیح نے پھانسی کا پھندا ڈال کر اس دُنیا سے رخصت کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد باری آئی پیپلز پارٹی ہی کے یوسف رضا گیلانی کی۔ افتخار چودھری کے سپریم کورٹ کا اصرار تھا کہ وہ بطور وزیر اعظم پاکستان سوئس حکومت کو ایک سرکاری خط لکھیں۔ اس خط کے ذریعے اس حکومت سے دریافت یہ کرنا تھا کہ ان دنوں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ”رشوت اور کک بیکس“کے ذریعے مبینہ طورپر جمع کئے ڈالر کونسے بینکوں سے چھپارکھے ہیں۔ گیلانی کا اصرار رہا کہ پاکستان کا آئین انہیں اپنے ملک کے صدر کے خلاف کسی دوسرے ملک کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں دیتا۔ افتخارچودھری کے سپریم کورٹ نے گیلانی کے فراہم کردہ جواز کو رد کردیا۔

ہمیں بتایا گیا کہ آئین اور قوانین بناتے تو عوام کے منتخب کردہ سیاست دان ہیں مگر ان کی تشریح اور اطلاق صرف عدالتوں کا حق اور ذمہ داری ہیں۔ گیلانی اپنی بات پر ڈٹے رہے تو توہینِ عدالت کے مجرم قرار پائے۔ ان کی جگہ وزیراعظم بنے راجہ پرویز اشرف نے تھوڑی لیت ولعل کے بعد وہ چھٹی بالآخر لکھ ہی ڈالی۔ ہم بدنصیب پاکستانیوں کو لیکن سوئس حکومت نے آج تک باقاعدہ طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ مجموعی طورپر کتنے ڈالر آصف علی زرداری نے اس ملک کے بینکوں میں چھپارکھے تھے۔ ان ڈالروں کو قومی خزانے میں واپس لانا تو بہت دور کی بات ہے۔

سوالات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ہم دلچسپی نہیں رکھتے۔ تماش بین قوم ہیں۔ طاقت ور لوگوں کی ذلت ہماری محرومیوں کا مداوا نہیں۔ طاقت ور لوگوں کی اذیت ورسوائی مگر ہمیں تھوڑا لطف اور کافی سکون فراہم کردیتی ہے۔ ایک نوعیت کا کھلونا جسے منصف حضرات ہمارے ہاتھوں میں دے کر دلوں کو بہلانے کا سامان فراہم کردیتے ہیں۔

نواز شریف ایسی ذلت ورسوائی سے ابھی تک محفوظ رہے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ انہیں 1997ء میں یوسف رضا گیلانی بنانے پر تلے بیٹھے تھے۔ ان کے ”برادرجج“ مگر ان کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ شاہ صاحب کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔ رخصت ہوتے ہوئے وہ سردار فاروق خان لغاری کو ایوان صدر سے نکالنے کا بندوبست بھی کرگئے۔ دیکھنا ہوگا کہ خوش بختی اب کی بار بھی نواز شریف پر اپنی شفقت برقرار رکھتی ہے یا نہیں۔

نظر بظاہر خوش بختی اگرچہ ان دنوں عمران خان کا مقدر ہوئی نظر آرہی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کی ”تلاشی“ کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو رجسٹرار نے ان کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو ”فروعی“ ٹھہراکر لوٹا دیا۔ عمران خان مگر اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ سپریم کورٹ کے لئے یہ ”فروعی“ درخواست سننا ضروری ہوگیا۔ یہ درخواست نہ سنی جاتی تو شہر شہر دھرنے ہوتے۔ اسلام آباد کی تالہ بندی ہوجاتی۔ عمران خان کو قلعہ بنی گالہ کی فصیل پر پش اپس لگاکر اپنی قوت کئی روز تک دکھانا پڑتی۔ ان کے متوالے فصیلِ بنی گالہ کے باہر پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کا نشانہ بنے رہتے۔پش اپس لگا کر عمران خان نواز شریف کے خلاف معاملات سپریم کورٹ تک پہنچا تو دیتے ہیں مگر ”چار حلقوں والا“ سوال پھر بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ ”35 پنکچرز“ والی کہانی بھی ثابت نہیں ہوپائی۔ رونق مگر خوب لگی رہی۔ نواز شریف اور نجم سیٹھی کی بدنامی بھی کئی روز تک جاری رہی۔ دیکھتے ہیںاب کی بار کیا برآمد ہوتاہے۔ بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کے بعد اگرچہ ایک اور وزیر اعظم بھی ”مجرم“ قرار پایا تو مزا آجائے گا۔ دُنیا کو ہم دکھادیں گے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک آئین ہوتا ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ طاقت ور اشرافیہ کے لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

یہ کالم پڑھنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ میں سیاست پر لکھوں۔سپریم کورٹ کے ہاتھوں ایک اور وزیر اعظم کی دھنائی کا ذکر شروع کیا تو خیال آگیا کہ وہ آئین جس کی بالادستی کا بڑی شدت سے ذکر ہورہا ہے،1999ء سے 2002ء تک معطل بھی تو رہا تھا۔ اس معطلی کے دوران اس آئین کو تبدیل کرکے ایک ایسے صدر کی گنجائش نکالی گئی جو ریفرنڈم کے ذریعے ”منتخب“ ہوا اور فوجی وردی سمیت ایوانِ صدر میں حتمی اختیارات کے ساتھ 9 برس تک بیٹھا رہا۔

آئین کی ایسی معطلی پر تبدیلی کو یہ آئین ہی اپنے ایک آرٹیکل کے ذریعے جس کا نمبر شاید 6 ہے”غداری“ قرار دیتا ہے۔نواز شریف نے کوشش کی تھی کہ 1999ء سے 2002ء تک رہی آئین کی اس معطلی اور تبدیلی کے بار ے میں بھی عدالت کے روبرو کچھ سوالات پوچھے جائیں۔ جن صاحب سے یہ سوال پوچھنا تھے ان کی کمر میں لیکن درد شروع ہوگیا۔

اس درد کا علاج عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے کسی ہسپتال میں دریافت نہیں ہوپایا۔ موصوف غیر ملک جانے پر مجبور ہوئے۔ اللہ کرے جلد صحت یاب ہوجائیں۔ ان کی مہربانی ہوگی کہ کمردرست کروانے کے بعد وطن واپس تشریف نہ لائیں۔ وہ یہاں موجود ہوں گے تو مجھ ایسے بدبخت لوگ کبھی کبھار پوچھ لیا کریں گے کہ ”اس مقدمے“کا کیا ہوا۔ آئین اور قانون کی بالادستی کے ڈھول بجانے والوں کی سبکی ہوگی۔ وہ ناراض ہوجائیں گے۔

پنجابی کا ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ طاقت ور کا گھونسا ربّ سے بھی پہلے آپ تک پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس گھونسے سے ڈرلگتا ہے،مگر میرے قارئین چاہتے ہیں کہ میں سیاست پر لکھوں۔ مسلسل جھوٹ یاآدھا سچ بیان کرتے ہوئے میں تھک گیا ہوں۔ مجھے معاف کردیں۔ دُعا کریں کہ میں سیاست کے علاوہ کسی اور موضوع پر لکھ کر اپنا رزق کمانے کے قابل ہوپاﺅں۔