1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. منہ کا ذائقہ کسیلا اور ذہن بند ہے

منہ کا ذائقہ کسیلا اور ذہن بند ہے

ذہن میرا مائوف ہے۔ دل بیٹھ رہا ہے۔ آنکھیں آنسوئوں کے ذریعے اس میں جمع ہوتے بوجھ کو ہلکاکرنا چاہ رہی ہیں۔ غلام بنے ذہنوں کے دل مگر بالآخر پتھر ہوجایا کرتے ہیں۔ صحافی کا کام ان دنوں ویسے بھی سوالات اٹھانا نہیں ہے۔ بھاشن دینا ہے۔ مسخرہ پن کرنا ہے۔

رات کو سونے سے قبل دل بہت پُرجوش تھا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی کوششوں کی وجہ سے بالآخر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ایک بار پھر ’’رشتہ‘‘ قائم ہوگیا تھا۔ ارادہ باندھ لیا کہ صبح اُٹھتے ہی اس ’’رشتے‘‘ کی بدولت اس ممکنہ رونق کے بار ے میں خوشی سے بغلیں بجاتا کالم لکھوں گا جو نومبر کے دوسرے دن سے ہماری ٹی وی سکرینوں پر نظر آئے گی۔

عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کا دارالحکومت اس روز انقلاب کے نرغے میں آچکا ہوگا۔ 2016ء کے بہادر شاہ ظفر اپنے تحفظ کے لئے دائیں بائیں فون گھمارہے ہوں گے۔ ان کی ’’لائن‘‘ مگر کٹ چکی ہوگی۔ اسلام آباد کے شہریوں کو انقلابی قافلے میں شامل ہوکر ہی اپنی جانوں کا تحفظ کرنا ہوگا۔ لوگ اس کی وجہ سے اس ہجوم اور جوش وجذبے کو بھول جائیں گے جو 1979ء کی فروری میں امام خمینی کی تہران آمد کے بعد ایران میں نظر آیا تھا۔ جنوبی ایشیاء کے امام اب طاہر القادری قرار پائیں گے۔ عمران خان کیا ہوں گے؟ صرف اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مقصود تھا۔

بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ سونے کے لئے گھر کے دروازے بند کرنے کے بعد تھوڑی دیر کو ٹی وی لگالیا کہ ’’تازہ ترین‘‘ جان لیا جائے۔ جس چینل کی سکرین نمودار ہوئی اس پر ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ کے نام پر طوطا فالیں نکالی جا رہی تھیں۔ مگر نیچے ایک ٹِکرچل رہا تھا۔ یک سطری خبر جس نے انکشاف کیا کہ کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور قائم ہوئے ایک پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہوا ہے۔ کچھ دہشت گرد اس کے اندر گھس آئے ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم زیر تربیت افراد کو Hostage بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔

پریشانی میں ریموٹ کے بٹن دبانا شروع ہوگیا۔ ہر سکرین پر معمول کے پروگرام جاری تھے۔ تقریباََ ہر پروگرام کے اینکر کو یقین تھا کہ عمران خان کی جانب سے شیخ السلام سے رجوع کرلینے کے بعد نومبر کے مہینے میں نواز حکومت کا بچنا اب ناممکن ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کو اسلام کے نام پر جان دینے کو ہر وقت تیار رضاکاروں کی کمک یقینی بنادی گئی ہے۔ ایمان کی قوت سے مالامال رضا کاروں کا ریاستی خزانے پر پالے’’گلوبٹ‘‘ مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ اب سوال یہ زیر بحث تھا کہ ’’گلوبٹ‘‘ 2016ء کے بہادر شاہ ظفر کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تو پاکستان کے سب سے منظم اور طاقت ور ادارے سے مدد کی فریاد کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے سپہ سالارِ انقلاب مگر ایک اینکر کو یقین دلارہے تھے کہ ’’وہ‘‘ غیر جانبدار رہیں گے۔ مقابلہ ’’ہمارے‘‘ اور ’’نواز‘‘ کے درمیان ہے۔ کوئی تیسرا کیوں آئے؟!!

کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور قائم ہوئے پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہوئے حملے کی مزید تفصیلات صرف Tickers کے ذریعے ہی فراہم ہوتی رہیں۔ کم از کم میرے ٹیلی وژن بند کرنے تک کسی ایک چینل نے بھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ معمول کے پروگرام کو روک کر بلوچستان میں مقیم اپنے کسی نمائندے کو براہِ راست ٹیلی فون پر لے اور تفصیلات معلوم کرے۔

پریشانی میں لیپ ٹاپ کھول کر سوشل میڈیا کو دیکھا تو کوئٹہ کا ذکر وہاں نہ ہونے کے برابر تھا۔ جھلاکر لیپ ٹاپ بند کردیا۔ بتیاں بجھادیں۔ کمرے میں آکر سونے کی کوشش شروع کر دی۔ دل مگر بے چین رہا۔ فکر اور تجسس نے مجبور کردیا کہ بتی جلاکر کوئٹہ میں مقیم اپنے ساتھیوں کے ٹیلی فون نمبرز ڈھونڈ کر ان سے رابطے کئے جائیں۔ تین سے چار افراد کے نمبر دبائے تو وہ مصروف ملے۔ خیال آگیا کہ وہ بے چار تو خود ’’تازہ ترین‘‘ جاننے کو بے چین ہوں گے۔ ان کے کام میں رکاوٹ کیوں ڈالی جائے۔ دل کو اگرچہ قرار نہیں آیا۔ رات دو بجے تک مسلسل کروٹیں بدلتا رہا۔ نیند لانے کے لئے ایک اور گولی بھی لینا پڑی۔ اس کی وجہ سے سوتو گیا مگر صبح اُٹھا ہوں تو منہ کا ذائقہ کسیلا ہے۔ ذہن بند ہے۔

یہ کالم لکھتے وقت تک کوئٹہ سے چند کلومیٹر دور واقع پولیس ٹریننگ سینٹر میں شہادتوں کی تعداد 50 سے تجاوز کرچکی تھی۔ شہید ہونے والے بدنصیب بلوچستان کے مختلف قصبوں سے آئے تھے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری ان قصبوں میں وحشت ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس بے روزگاری نے غصے کو فروغ دیا۔ علیحدگی پسندی کے جذبات پیدا کئے۔ مذہبی انتہا پسندوں کے لئے خودکشی کو تیار رضا کار بھی۔ اب یہ نوجوان باعزت روزگار کی فراہمی کے بعد Mainstream ہونے کے بجائے لاشوں کی صورت اپنے قصبوں میں واپس لوٹیں گے۔

ابتدائی اطلاعات اور شواہد کے مطابق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم کے دہشت گرد کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور واقع اس پولیس ٹریننگ سینٹر میں گھس آئے تھے۔ مسلسل ہدایات ان دہشت گردوں کو افغانستان کے کسی مقام سے بذریعہ ٹیلی فون مل رہی تھیں۔ منگل کو علی الصبح فضا گویا تیار کردی گئی ہے کہ بقیہ پورا دن لوگوں کو یہ سمجھانے میں لگایا جائے کہ CPEC ایک Game Changer ہوگا۔ پاکستان کے ازلی دشمنوں کو یہ منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دہشت گردی کے واقعات رچائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی راء نے دہشت گردی کے ایسے واقعات رچانے کے لئے افغان حکومت کی معاونت سے وہاں کچھ بھٹکے ہوئے اور غدار نوجوانوں کی ٹریننگ وغیرہ شروع کررکھی ہے۔ انہیں پیسہ اور ہتھیار دے کر بلوچستان میں لانچ کر دیا جاتا ہے۔ فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ ہماری ریاست نے عزم کر رکھا ہے کہ CPEC ہر صورت بنائی جائے گی۔ دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو ہر صورت کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔

ہم سے کوئی ایک صحافی بھی مگر یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کرے گا کہ چند ہفتے قبل اسی شہر کوئٹہ میں وکلاء پر بھی تو ایک دہشت زدہ کرنے والا حملہ ہوا تھا۔ اس واقعے کے ذمہ داروں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے بارے میں ’’تازہ ترین‘‘ کیا ہے؟۔ ہم خاموش رہیں گے کیونکہ غلام بنے ذہن سوال نہیں اٹھایا کرتے۔ ان کے آقاء جو بتائیں انہیں آمناََ وصدقناََ کہہ کر مان لیتے ہیں اور اپنا دل بہلانے کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ہوئے ’’رجوع‘‘ جیسے واقعات کے بارے میں خوشی سے بغلیں بجانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حیف ہے اس قوم پر جس نے مجھ ایسے ’’صحافی‘‘ پیدا کئے ہیں۔