1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. نواز شریف عہدے سے الگ ہو گئے تو؟

نواز شریف عہدے سے الگ ہو گئے تو؟

اس سال کے آغاز کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب ججوں نے روزانہ کی بنیاد پر پانامہ دستاویزات کے ذریعے منکشف ہوئے معاملات پر 23 فروری تک غور کیا۔سماعت مکمل ہوجانے کے بعد انہوں نے کوئی فوری فیصلہ دینے سے گریز کیا۔انہیں بہت غور کے بعد ایک ایسا فیصلہ لکھنے کے لئے وقت درکار تھا جو آئندہ کئی برسوں تک مستند نظیر بنا رہے۔ اس میں طے کردہ اصولوں پر کوئی اُنگلی نہ اُٹھاسکے۔شنید ہے کہ منصف حضرات اب وہ فیصلہ لکھنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔شاید مارچ کے آخری یا اپریل کے پہلے ہفتے میں اسے سنادیا جائے۔

منصف حضرات نے جو طے کرنا ہے اس کے بارے میںمجھے ککھ خبر نہیں۔قانون کی باریکیوں کو میں سمجھتا ہوں۔نہ ہی کسی روز سپریم کورٹ اس مقدمے کی سماعت کو دیکھنے گیا ہوں۔میرے لئے اس ضمن میں قیاس آرائی کی لہذا کوئی گنجائش نہیں۔ویسے بھی ایک پیدائشی بزدل ہوتے ہوئے عدالتی معاملات کے بارے میں قیاس آرائی سے گھبراتا ہوں۔توہینِ عدالت کا امکان استِ خیال کو لگام ڈالے رکھتا ہے۔

فراست کی نعمت سے مالا مال میرے کئی ساتھی جن میں سے چند نمایاں لوگ پانامہ کیس کی سماعت کے مشاہدہ کے لئے باقاعدگی کے ساتھ سپریم کورٹ بھی جاتے رہے ہیں،اپنا ذہن مگر بناچکے ہیں۔ان کی دانست میں فیصلہ ہوچکا ہے۔فقط اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔محتاط ترین الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے خیال میں ممکنہ فیصلہ نواز شریف کے لئے کوئی اچھی خبر ثابت نہیں ہوگا۔اس فیصلے نے انہیں صاف الفاظ میں اپنے عہدے کے لئے نااہل قرار نہ بھی دیا تو اس کی جزئیات موصوف کو ”سیاسی اور اخلاقی بنیادوں“ پر استعفیٰ دینے پر مجبور کردیں گی۔زیربحث سوال ان دنوں اسلام آباد کے ”باخبر“ڈرائنگ روموں میں یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔

مجھے بھی ”اس کے بعد کیا....“والے معاملے پر اپنی رائے دینے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔میں مگر پکڑائی نہیں دیتا۔غچہ دئیے جاتا ہوں۔کئی روز تک مہربان دوست میرے اس رویے کو میری ذات سے منسوب پھکڑپن سمجھ کر برداشت کرتے رہے۔برداشت کی مگر کوئی حد ہوتی ہے۔”اس کے بعد کیا....“والے سوال سے کنی کترانا اب ناممکن ہورہا ہے۔گوشہ نشینی ہی میں عافیت نصیب ہوتی ہے۔

اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے ہمارے معاشرے میں صحافیوں کے لئے ایک دوسرے کے مخالف گروہوں سے آزاد اور بے نیاز رہنا ممکن نہیں رہا۔ہمارے کئی لکھاری اور عوام میں ہردلعزیز اینکرخواتین وحضرات عمران خان صاحب کی بدولت”نیا پاکستان“بنتادیکھ رہے ہیں۔اپنے تئیں وہ اس تعمیر میں کپتان کی ہر ممکن معاونت کو بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔نواز کیمپ کے بارے میں لیکن سنا یہ گیا ہے کہ بہت ”فیاض“ہے۔اپنے حامی صحافیوں کو لفافوں اور مراعات سے نوازتا رہتا ہے۔عمومی طورپر نواز کیمپ کے چند نمایاں ”حامی“ بھی لیکن اشاروں کنایوں میں اب یہ لکھنا اور ٹی وی پر بیان کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ اگر کوئی ”سخت“فیصلہ آیا تو نواز شریف فوری انتخابات کا اعلان کردیں گے اور یوں ”عوام کی عدالت“ سے ”سرخرو“ہونے کی کوشش کریں گے۔

نواز شریف کے چند جانے پہچانے چہیتوں کی جانب سے ”اندر کی بات“ باہر آنے کے بعد سے میں اپنے بھائی وسیم بادامی کی طرح صرف ایک ”معصومانہ“سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔سوال یہ ہے کہ ایک ایسا وزیر اعظم اس ایوان کو ”توڑنے“ کا اعلان کس قانونی،اخلاقی یا سیاسی بنیاد پر کرسکتا ہے جس کی قیادت کے لئے وہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دے دیا جائے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔نواز شریف ممکنہ فیصلے کی وجہ سے ”نااہل“قرار پائے تو ان کے پاس سوائے گھر جانے کے اور کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔

فرض کیا وہ نااہل قرار نہ بھی پائیں مگر ممکنہ فیصلے کی بدولت ان کی ذات اور رویے پر اخلاقی اور سیاسی سوالات کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوتو وہ قومی اسمبلی کے ساتھ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم-تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والا رویہ کس بنیاد پر اختیار کرپائیں گے۔وہ ممکنہ ہر دو صورتوں سے تنگ آکر اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی راہ بھی بنانا چاہیں تو ان کی طرف سے ہوا یہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ قومی اسمبلی میں342 اراکین ہیں۔ان میں سے 272 اراکین براہِ راست انتخاب کے ذریعے آئے ہیں۔یہ انتخاب بہت مہنگا اور جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔نواز شریف سے بے پناہ محبت کرنے والے رکن کی بھی خواہش یہی ہوگی کہ اس مرحلے سے جب تک ممکن ہے گریز کی راہ ڈھونڈی جائے۔بہتر یہی ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی 5سالہ مدت پوری کرے۔یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف کے ذریعے یہی کھیل تو کھیلا گیا تھا۔نواز شریف سے بے پناہ محبت کرنے کے علاوہ جواراکین ان دنوں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کے اذہان میں فطری طورپر یہ خیال بھی آئے گا کہ وہ شریف خاندان کی پانامہ دستاویزات کی وجہ سے آئی مشکلات کی بناءپر اپنے لئے کسی فوری انتخاب کی مشقت اور ذلت کیوں بھگتیں۔

فرض کرلیتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھی نواز شریف کے پاس قبل از وقت انتخابات کروانے کی گنجائش موجود ہو تو یہ انتخابات صرف نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لئے ہوں گے۔شہباز شریف ان انتخابات کے دوران بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا عمران خان اور ان کے حامیوں کو صرف قومی اسمبلی کے لئے قبل از وقت انتخابات قابل قبول ہوں گے۔مجھے خدشہ ہے نہیں۔پیپلز پارٹی کو مراد علی شاہ کے ہوتے ہوئے شاید ایسے انتخابات اتنے بُرے نہ لگیں مگر ایسے انتخابات کے دوران پنجاب میں شہباز شریف کی موجودگی وہ بھی برداشت نہیں کر پائے گی۔

عرض مجھے صرف یہ کرنا ہے کہ صرف نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لئے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ٹھوس سیاسی بنیادوں پر تقریباََ ناممکن ہے۔نواز شریف سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے اپنے عہدے سے الگ ہوگئے تو ایک اور وزیر اعظم لانا ہوگا۔نواز کیمپ کے ”چہیتے اور وفادار“مانے صحافیوں کو مجھے اس وزیر اعظم کا نام بتانا چاہیے تاکہ بحث کو آگے بڑھایا جاسکے۔