1. ہوم
  2. کالمز
  3. نصرت جاوید
  4. نت خیر منگا سوہنیا میں تیری

نت خیر منگا سوہنیا میں تیری

آپ کو بہت اخلاص کے ساتھ عید کی پیشگی مبارک دینے کے بعد یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ میں آج یہ کالم نہیں لکھنا چاہ رہا تھا۔ ارادہ یہ باندھا تھا کہ عید کی تعطیلات گزرجانے کے بعد جو اتوار آئے گا، اس کی صبح سے دوبارہ کالم شروع کروں اور یہ کالم پیر 3 جولائی کی صبح شائع ہو۔ ایک ہفتے کا وقفہ اپنے لئے ضروری سمجھا۔

مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ مجھے یہ کالم آپ تک پہنچانے کے لئے ایک نوجوان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میں ہاتھ سے تختی کی بدولت سیکھے رسم الخط سے بال پوائنٹ کے ذریعے سادہ نہیں، لائنوں والے ڈرافٹنگ پیڈکے صفحات پر جو بھی من میں آئے لکھ کر اسے بھیج دیتا ہوں۔ وہ اسے ٹائپ کرکے مجھے Whatsapp کے ذریعے پروف ریڈنگ وغیرہ کے لئے بھیجتا ہے۔ میں اس مشق سے انتہائی بددلی سے گزرنے کے بعد اسے Ok والا پیغام بھیجتا ہوں۔ اس کے بعد میرے کالم کو دفتر تک پہنچانا اور اسے چھپوانا صرف اس کی ذمہ داری ہوجاتی ہے۔

اس نوجوان نے جو عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا ہے میری ایک ہفتہ کی بریک لینے کی خواہش کو ویٹو کردیا۔ انتہائی ڈھٹائی سے مجھے یہ سمجھانے پر بضد رہا کہ عید کی تعطیلات کے دوران قاری اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کو بہت غور سے پڑھتے ہیں۔ عید یا ٹرو کے دن چھپے ہوئے کالم کو پڑھنے کے بعد وہ انٹرنیٹ کے ذریعے آپ کے وہ کالم بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے Miss کئے ہوتے ہیں۔ ”عید کے دن آپ کا کالم نہ چھپا تو بہت سارے لوگ آپ کے چند پرانے کالم بھی نہیں پڑھ پائیں گے“۔ اس نوجوان کا خیال تھا۔

انتہائی دیانت داری سے میرا رویہ اپنے اس کالم کے بارے میں ”ہم کہاں کے دانا تھے“ والا ہے۔ اس کے علاوہ مجید امجد کا وہ مصرع بھی اکثر ذہن پر سوار رہتا ہے جو بہت عاجزی سے اعتراف کرتا ہے کہ ”میں اس راہ سے“ جس پر روزانہ گزرتا ہوں کسی دن نہ گزرا تو کوئی نوٹس بھی نہیں لے گا۔ بچہ مگر بضد رہا اور میں اتوار کی صبح قلم اٹھاکر یاوہ گوئی پر مجبور ہوگیا۔

یہاں تک پہنچا تو خیال آیا کہ مجید امجد صاحب نے ”نوٹس“ والا لفظ تو یوں اپنے شعر میں استعمال نہیں کیا تھا۔ ان کے شعر کا مفہوم البتہ اس لفظ کا استعمال جائز ٹھہراتا ہے۔ سوال یہ اٹھا کہ میرے ذہن میں ”نوٹس“ کیوں آیا۔ اس کے بارے میں سوچا تو فوراََ خیال آیا کہ پوٹھوہار سے ہماری حالیہ تاریخ میں ایک بہت ہی محنتی شخص سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے اور ”چھاچھو گئے“ ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب ان کا نام ہے اور انہوں نے ایک زمانے میں ”نوٹس ملیا۔ ۔ ۔ ۔ “ کہا تھا۔

ڈاکٹر بابر اعوان صاحب 27 رمضان المبارک کے روز مبارک پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔ ”پیپلز پارٹی کی ایک اور وکٹ گرگئی“ والی سرخیوںکے ساتھ ان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی پذیرائی ہوئی ہے۔ اگرچہ میں اس دوران سوچتا یہی رہا کہ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب پیپلز پارٹی میں ”شامل“ کب ہوئے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کو میں ذاتی طورپر بہت زیادہ سراہتا ہوں۔ ان سے پہلی ملاقات میری 1980ء کی دہائی میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ ”نوائے وقت“ کے لئے ایک کالم لکھا کرتے تھے اور میں روزنامہ ”دی مسلم“ کا ایک مشقتی رپورٹر ہواکرتا تھا۔ وہ زمانہ جنرل ضیاءالحق کے پارسا اقتدار کی وجہ سے ہمارے زریں ادوار میں سے ایک زمانہ مانا جاتا۔ چند سیاستدانوں کو لیکن جنرل صاحب سے خواہ مخواہ کی پرخاش تھی۔ وہ ایم آر ڈی نامی اتحاد بناکر افغانستان میں اسلام کو روسی کمیونزم سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف مرد مجاہدِ ملت کے خلاف رضا کارانہ گرفتاریوں والی تحریک چلانا شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب سے اتفاقاََ میری پہلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے انتہائی شفقت سے مجھے سمجھایا کہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی۔ میں نے ان کی بات بہت احترام سے سنی مگر دل سے قائل نہ ہوا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کو بہت شاعرانہ الفاظ کے استعمال کے ساتھ بدستور رپورٹ کرتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب بالآخر مگر درست ثابت ہوئے۔ ایم آر ڈی پُھس ہوگئی۔

”گورنمنٹ کالج لاہور“ کے پڑھے میرے جیسے لوگ مگر بہت ہی مغرور ہوتے ہیں۔ مجھے کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ایم آر ڈی کی تحریک ناکام ہوجانے کے بعد میں ڈاکٹر بابر اعوان صاحب سے رابطہ کرتا۔ ان کے ہاتھ چومتا اور کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرتا کہ وہ درست تھے۔ میری سوچ غلط تھی۔

پھر یوں ہوا کہ ”فاروق بھائی“ نے پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت فارغ کردی۔ آصف علی زرداری لاہور کے گورنر ہاﺅس سے گرفتار ہوئے۔ امید تھی کہ ”فاروق بھائی“ انتخابات نہیں کروائیں گے۔ انتخابات کروانے سے پہلے اس ملک کی سیاست کو کرپٹ لوگوں کو عبرت ناک سزائیں دے کر پاک صاف کردیں گے۔ امریکہ نے مگر انہیں یہ مقدس فریضہ انجام تک پہنچانے نہ دیا۔ ”آئین میں دئیے90 دنوں“ میں انتخابات کروانے پر اصرار کیا۔ وہ انتخابات ہوئے تو نواز شریف ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ملکی سیاست کو ”گندے لوگوں“ سے پاک کرنے کا ذمہ اب ”احتساب الرحمن“ نے اپنے سر لے لیا۔ آصف علی زرداری ”کرپٹ“ لوگوںکی ایک اہم ترین علامت تھے۔ ان کے خلاف مقدمات کا طومار باندھ دیا گیا۔

آصف علی زرداری کی گرفتاری سے گھبرائی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک وکیل درکار تھا جو نچلی عدالتوں والی ذلت کو مزید شدت کے ساتھ ملزموں کے خلاف استعمال کرتی احتساب عدالتوں کے روبرو ان کے شوہر کا دفاع کرسکے۔ چودھری اعتزاز احسن اور اقبال حیدر مرحوم نے احتساب عدالتوں کے سامنے پیش ہونا اپنے وقار کے منافی سمجھا۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب مگر دل وجان سے آصف علی زرداری کو بچانے کے لئے ازخودآمادہ ہوگئے۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی آصف علی زرداری سے اس محبت نے انہیں پیپلز پا رٹی میں ”شامل“ بھی کر دیا۔

بالآخر آصف علی زرداری عدالتوں کی بدولت نہیں جنرل پرویز مشرف کے زیرک مشیر طارق عزیز صاحب سے طویل مذاکرات کے بعد رہا ہوگئے۔ اس کے بعد NRO بھی ہوا۔ جنرل مشرف نے آرمی کی کمان جنرل کیانی کے سپرد کی۔ نئے انتخابات ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران محترمہ کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی اس کے بعد سے ہمیشہ کے لئے یتیم ہوگئی مگرآصف صاحب اس ملک کے صدر بنے اور گیلانی وزیر اعظم۔ اس حکومت کو ”پیپلز پارٹی کی حکومت“ کہا گیا۔ ہم چپ رہے۔ ہم ہنس دئیے۔

ڈاکٹر بابر اعوان صاحب اور ڈاکٹر رحمن ملک صاحب اس حکومت کے طاقت ور ترین وزیر تھے۔ ”پیا“ کے چہیتے تھے۔ اس لئے سہاگن کہلائے۔ افتخار چوھری کو قابو میں لانے کے طریقے مگر یہ دونوں بھی ڈھونڈ نہ پائے۔ چودھری اعتزاز احسن جیسے کیمبرج پلٹ بیرسٹر کو اگرچہ ان دونوں نے راندئہ درگار بنائے رکھا۔ کئی جدی پشتی ”جیالے“ بھی ان دونوں کے خلاف حسد کی آگ میں مبتلا رہے۔ پیا جسے چاہے وہ مگر سہاگن ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب اور ڈاکٹر رحمن ملک صاحب نے گج وج کے راج کیا۔

آصف علی زرداری لیکن اب پنجابی والے کسی جوگے نہیں رہے۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہے۔ مستقبل عمران خان کا بنا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کو ان کی اور عمران خان صاحب کو ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی ضرورت تھی۔ تازہ خبر لہذا آ گئی ہے۔ ”خضر ساڈا بھائی“ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر بابراعوان صاحب تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں اور ڈاکٹر رحمن ملک صاحب بھی Whatsapp کی برکتوں سے بنائی JIT کے سامنے پیش ہوگئے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے بارے میں ”صبح گیا یا شام گیا“ والا ماحول بن چکا ہے۔

عمران خان صاحب کو یہ ماحول بنانے کا کریڈٹ جائے گا۔ اگرچہ میں جب بھی کپتان کے بارے میں سوچتا ہوں تو نجانے کیوں میرے ذہن میں ”‘ دُعا نہ کوئی ہور منگدی“ والا گانا گونجنا شروع ہو جاتا ہے۔