1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. پاکستان اور افغانستان میں درد کا رشتہ مجھے بہت عزیز ہے

پاکستان اور افغانستان میں درد کا رشتہ مجھے بہت عزیز ہے

کامیاب سفارت کاری کے لئے پتہ مارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس عمل میں نہ چاہتے ہوئے بھی اکثر سرجھکانا پڑتا ہے۔ دوسروں کے لگائے بے بنیاد الزامات کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ سن کر مناسب جواب تیار کرنا ہوتا ہے۔

یہ سب اصول مانتے ہوئے بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بدھ کے روز افغان حکومت کی واضح طورپر نظر آنے والی پشت پناہی سے افغان میڈیا میں پاکستان کے بارے میں جو کہانیاں بتائی گئیں وہ ہرگز مناسب نہیں تھیں۔ پاکستان کو ریاستی سطح پر اسے جھٹلانے کے لئے انگریزی محاورے والاFirm But Polite رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ نظر بظاہر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ”اندر خانے“ کیا ہوا؟ اس کے بارے میں مجھ ایسے عام شہری کو غرض نہیں۔

اپنی بات آگے بڑھانے سے قبل میں پوری دیانت داری سے اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے خطے میں دائمی امن اور خوش حالی پاکستان اور افغانستان کے مابین پُرخلوص دوستی قائم کئے بغیر ممکن ہی نہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کو زندگی کے ہر شعبے میں یکجا ہوکر طویل المدتی ترقی کے سفر پر روانہ ہونا ہوگا۔

یہ حقیقت تسلیم کرنے کے بعد مجھے یہ بات کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کے درآنے کے بعد سے ہماری اشرافیہ کے کئی طاقت ور حلقوں نے افغانستان کو اپنے بنائے ہوئے Road Map پر چلانا چاہا۔ افغانوں کے ساتھ ایسا رویہ ہرگزمناسب نہیں تھا۔ اس رویے کے منفی اثرات کا مگر اب ہماری اشرافیہ کے طاقت ور حلقوں کو خوب اندازہ ہوچکا ہے اور وہ اسے بدلنے پر آمادہ ہیں۔ اس آمادگی کو مگر عملی صورت دینے کے راستے افغان حکومت اور عوام ہی کو بناناہوں گے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران افغانستان کے دارالحکومت میں دہشت گردی کی پے در پے تین بڑی وارداتیں ہوئیں۔ ان میں سے سب سے سفاک وہ واردات تھی جس میں ایک ایمبولینس کو تباہ کن بارودی مواد سے بھر کر کابل کے ایک معروف ترین چوراہے میں لاکر دھماکے سے اڑادیا گیا۔ اس دھماکے سے افغان ریاست یا اس کی سرپرست سمجھی جانے والی حکومتوں سے وابستہ افراد یا عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچا۔ روزمرہّ زندگی کی ضرورتوں میں مصروف سو سے زیادہ بے گناہ شہری اس کا نشانہ بنے۔

کابل کے تمام رہائشی اس واردات کے بعد سے غم وغصے سے بوکھلاگئے ہیں تو صرف پاکستانی ہی ان کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے اپنے شہر بھی کئی برسوں تک ایسی ہی سفاکانہ وارداتوں کا شکاررہے ہیں۔ ہمارے اورافغانوں کے درمیان لہذا اس ضمن میں درد کا رشتہ ہے اور فیض احمد فیض نے درد کے رشتے کو سب سے بڑا رشتہ ٹھہرایا تھا۔

بدھ کے روز مگر افغان میڈیا میں انتہائی رعونت کے ساتھ یہ خبر پھیلائی گئی کہ صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیر اعظم کا وہ فون لینے سے انکار کردیا جس کے ذریعے شاہد خاقان عباسی ان کے ساتھ کابل میں ہوئی ہلاکتوں کے بارے میں افسوس کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم کا فون لینے سے انکار والی ”خبر“ کے بعد اطلاع یہ بھی دی گئی کہ افغان صدر نے اپنے وزیر داخلہ اور انٹیلی جنس چیف کو اسلام آباد روانہ کردیا ہے۔ وہ دونوں پاکستان کے آرمی چیف اور ISI کے سربراہ کے ساتھ ملاقات کریں گے اور انہیں وہ ”ثبوت“ فراہم کریں گے جو نشان دہی کرتے ہیں کہ کابل میں ہوئے دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں استعمال ہوا اسلحہ ”پاکستان سے آیا تھا“۔

اسلام آباد میں مقیم افغان سفیر نے اس ”خبر“ کی ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے تردید کردی۔ افغان میڈیا میں پھیلائی ”خبر“ کا ماخذ مگر افغانی ایوانِ صدر کے ایک ”ذریعہ“ کو بتایا گیا تھا۔ اس تناظر میں یہ ضروری تھا کہ افغان صدر کے سرکاری ترجمان اپنے نام کے ساتھ مذکورہ ”خبر“ کی مناسب الفاظ میں تردید جاری کرتے۔

اس متوقع تردید کے بغیر ہماری حکومت کے لئے ضروری تھا کہ افغان وزیر داخلہ اور وہاں کے انٹیلی جنس چیف کی ملاقات فقط ہماری وزارتِ داخلہ میں ہمارے وزیر داخلہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ہوتی۔ ان دونوں کی جانب سے فراہم کردہ ”ثبوت“ یا اطلاعات کو ٹھنڈے دل سے سناجاتا۔ یہ وعدہ کرنے کے بعد ملاقات ختم ہوجاتی کہ حکومتِ پاکستان پرخلوص انداز میں ان کی فراہم کردہ معلومات کی چھان بین کرے گی۔

افغان وفد کو مگر وزیر اعظم ہاﺅس بلوالیا گیا۔ ان سے بات چیت کے دوران ہماری اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت بھی وہاں موجود نظر آئی۔ سفارت کاری اور میڈیا مینجمنٹ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں بضد ہوں کہ افغان میڈیا میں چلائی ایک رعونت بھری ”خبر“ کے بعد افغان وفد کی پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کے دفتر میں پذیرائی ہرگز مناسب نہیں تھی۔

مجھے اپنے وزیر اعظم سے ہزار ہاشکایتیں ہوسکتی ہیں۔ ان ہی کالموں میں کئی موضوعات پر میں اکثر انتہائی سخت الفاظ میں شاہد خاقان عباسی پر تنقید کرتا رہا ہوں۔ یہ حقیقت اس کے باوجود اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ ”اُمت مسلمہ کی واحدایٹمی قوت“ کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ وہ ایک بھرپور سیاسی عمل سے کئی برسوں سے گزرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ان کا تعلق ایک طاقتور سیاسی جماعت سے ہے جو اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری سیاست میں ایک موثر قوت رہی ہے اور شاید آئندہ کئی برسوں تک بھی رہے گی۔

افغان صدارتی محل کے ایک بے نام ”ذریعہ“ کا حوالہ دے کر یہ خبر چلانا ہمارے وزیر اعظم کے منصب کی قطعی تذلیل تھی کہ صدر اشرف غنی نے ان کا کابل میں ہوئی ہلاکتوں کے بارے میں فون کال کے ذریعے اظہار افسوس وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اشرف غنی کامبینہ”انکار“ نہ صرف ہمارے منتخب وزیر اعظم کے منصب کی توہین تھی بلکہ ہماری ثقافت اور خاص کر پشتون روایات کی رعونت بھری تذلیل بھی تھی۔

غم وغصے کا موجودہ ماحول مجھے مجبور کررہا ہے کہ فی الوقت میں اس حقیقت کو نظرانداز کردوں کہ اپنی عمر کے کئی برس ورلڈ بینک کے لئے بطور ایک ”ٹیکنوکریٹ“ کام کرنے والے ڈاکٹر اشرف غنی کتنے ”سیاسی“ ہیں اور ان کا ”انتخاب“ کیسے ہوا تھا۔ پاکستان ا ور افغانستان کے درمیان درد کا رشتہ اس وقت بھی مجھے بہت عزیز ہے۔ میں اس کی لاج برقرار کھنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ بہت تکلیف مجھے اس بات پر بھی ہوئی کہ افغان میڈیا میں شاہد خاقان عباسی کا فون نہ لینے والی ”خبر“ چلنے کے چند گھنٹے بعد صدر اشرف غنی نے اپنے ٹویٹر پیغام کے ذریعے بذاتِ خود اطلاع یہ بھی دی کہ بھارتی وزیر اعظم نے انہیں فون کیا ہے اور کابل میں دہشت گردی کی وجہ سے حال ہی میں ہوئی ہلاکتوں کے بارے میں گہرے غم وغصے کا اظہار کیا۔