اس کالم کے توسط سے ”پانامہ-پانامہ“ کے شوروغوغا کے عین درمیان بھی یہ بدنصیب بارہا اپنے پڑھنے والوں کو متنبہ کرتا رہا کہ ٹرمپ جیسے دیوانے مگر انتہائی متعصب شخص کا امریکی ایوانِ صدر پہنچ جانا ہمارے لئے خیر کی خبر نہیں ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ شخص ”سب سے پہلے امریکہ“ کا نعرہ لگاتے ہوئے امریکی سفید فام اکثریت کے دلوں میں کئی دہائیوں سے موجود تعصبات کو ہوا دیتا رہا۔ نظر بظاہر وہ ان کی معاشی مشکلات کے بارے میں بہت فکر مند تھا اور ان معاشی مشکلات کا ذمہ دار اس نے امریکہ میں موجود تارکین وطن اور Globalisation کی وجہ سے امریکی سرمایے کی دیگر ممالک، خاص طورپر چین میں صنعتیں وغیرہ قائم کرنے کے عمل کو ٹھہرایا۔
اصل تکلیف اسے مگر اس حقیقت کی وجہ سے رہی کہ صدر اوبامہ کی محتاط اور نسبتاََ صلح جوپالیسیوں کی وجہ سے امریکہ اب دنیا کی واحد سپرطاقت کے طورپر عالمی تھانے دار کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ چین اپنی اقتصادی قوت اور روس اپنی فوجی طاقت کی بنا پر عالمی سطح پر ابھرتے ”طاقت کے خلائ“کو پُر کرتے نظر آرہے تھے۔ اپنے ملک کا حیران کن انداز میں صدر منتخب ہوجانے کے بعد لہذا اس کی پہلی ترجیح یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح دُنیا میں بحران کے مارے کسی ایک ملک پربھرپور توجہ دیتے ہوئے امریکہ کی فوجی قوت کو وحشیانہ انداز میں دُنیا کے سامنے ایک بار پھر بڑی گج وج کے ساتھ نمایاں کیا جائے۔
80ء کی دہائی سے عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ بنا افغانستان اس حوالے سے اس کا منطقی انتخاب ہونا چاہیے تھا۔ نائن الیون کے بعد سے اس ملک پر امریکہ نے گزشتہ 16 برسوں سے ایک بھرپور جنگ مسلط کررکھی ہے۔ کھربوں ڈالر کے زیاں، جدید ترین اسلحے کے استعمال اور ہزاروں امریکی فوجیوں کی جانیں گنوانے کے بعد بھی لیکن افغانستان ایک ”مستحکم“ ملک نہیں بن پایا ہے۔
ہمارے جنرل مشرف نے اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد امریکہ کو وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ برپا کرنے کے لئے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ تعاون کے اس دعوے نے ہماری اشرافیہ کے کاروبار میں بہت رونق لگائی۔ عام پاکستانیوں کو مگر جوابی دہشت گردی کی صورت میں خودکش حملہ آور ملے جنہوں نے ہمارے تمام بڑے شہروں کو خوف میں محصور ہوئے قلعوں کی صورت دکھانا شروع کردیا۔
جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد سے ہمیں گماں تھا کہ عوام کے منتخب کردہ رہ نما ہمیں خوف کی اس حالت سے نجات دلانے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ ایسا مگر ہونہیں پایا۔ ریاست کے دائمی اداروں نے سیاسی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہم عطار کے انہی لونڈوں سے اپنے لئے شفا ڈھونڈتے رہے جو80ء کی دہائی سے افغانستان-افغانستان والا کھیل چلارہے تھے۔
ہمیں ان کھلاڑیوں پر شایداب بھی اندھا اعتماد ہے۔ ستمبر2007ء سے امریکی پالیسی ساز مگر انہیں Double Game کھیلنے والے کہنا شروع ہوگئے ہیں۔ امداد کے نام پر پاکستاان کو ادا ہوئے ”بلین ڈالرز“ کا ذکر کرتے ہوئے جن کا میری اور آپ کی روزمرہّ زندگی میں کوئی اثرنظر نہیں آتا، ہم سے Do More کے تقاضے جاری رہے۔ یہ تقاضے پورے نہ ہوئے تو دہشت گردوں کی پاکستان میں مبینہ طورپر ”محفوظ پناہ گاہوں“ کو امریکہ ازخود ڈرون طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا۔
ٹرمپ کی آمد کے بعد مگر تواتر سے Enough is Enough والے پیغامات آنا شروع ہوگئے۔ ہم نے ان کی طرف کماحقہ توجہ ہی نہ دی۔ پانامہ-پانامہ کے ہنگامے میں مصروف رہے۔ اس ہنگامی دور میں ہم نے کبھی اس امرپر توجہ بھی نہ دی کہ ٹرمپ نے امریکی قانون اور روایت کونظرانداز کرتے ہوئے Gen Mattis کو اپنا وزیر دفاع مقرر کیا ہے۔ یہ پڑھاکو اور ازلی کنوارے جرنیل بہت ہی Task Driven شمار ہوتا ہے۔ جنگیں اس کی نظر میں صرف جیتنے کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ Mattis کے ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ نے ایک اور جرنیل Mc Master کو اپنا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کردیا۔ ان دونوں کو صدر ٹرمپ نے مکمل اختیارات دیتے ہوئے افغانستان کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔
مشکلات میں گھری افواج کے جرنیل عموماََ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سرتھونپے کے عادی ہوتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی مشکلات کا ذمہ دار لہذا اس خطے کی ”لسی آسامی“ پاکستان کے کاندھوں پر کاملاََ ڈالنے کا کھیل شروع ہوگیا۔ پاکستان میں آج منگل کی جو صبح ہوئی ہے اس صبح اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے جرنیلوں کا تیار کردہ Blame Pakistan نسخہ مکمل طورپر اپنا لیا ہے۔
بہت ہی واضح اور سفارت کاری کے تناظر میں غیر معمولی طورپر سخت الفاظ میں ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس کے ملک سے اربوں ڈالر کی مدد لینے کے باوجود بھی ہمارے ہاں ”دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں“ موجود ہیں۔ انہیں اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ناک کو سیدھی طرح پکڑیں یا ہاتھ گھماکر۔ ٹرمپ کی منگل کی صبح ہوئی تقریر کئی حوالوں سے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اس اعلان جنگ میں ہمارے لئے مزید تکلیف دہ بات یہ بھی ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہمیں موردالزام ٹھہراتے ہوئے امریکی صدر نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اپنا حلیف کہا۔ یہ عہد کیا کہ بھارت اور امریکہ باہمی اشتراک سے افغانستان سے چین کے سمندر تک پھیلے خطے میں ”دہشت گردی کے
خاتمے اور امن کے قیام“ کو ممکن بنائیں گے۔
امریکی صدر کی تقریر یقینا بہت جارحانہ اور مخاصمانہ تھی۔ اپنے کمزور ایمان کے باوجود لیکن مجھے اب بھی پورا یقین ہے کہ ہماری ریاست کے تمام ادارے نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ سچ اور صرف سچ بولتے ہوئے اس تقریر کے مضمرات کے بارے میں ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد مزاحمت کی کئی راہیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ سچ اور صرف سچ بولتے ہوئے ہمارے عسکری اور سیاسی اداروں نے کوئی قابلِ عمل فارمولے تلاش کرلئے تو ہماری ترجیح ان پرعمل پیرا ہونے کے لئے قومی یکجہتی کا قیام ہونا چاہیے۔ ٹرمپ کی تقریر کو اپنے تمام ترخدشات کے باوجود میں اس حوالے سے خوش آئند سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعے دئیے گئے چیلنج ہمیں متحد ہوکر آفتوں کے موجودہ دور سے گزرکر چین وخوش حالی کے زمانوں کی طرف لے جاسکتے ہیں۔