1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. پتلی تماشوں کے پاٹے خاں

پتلی تماشوں کے پاٹے خاں

مبالغہ آرائی کی عادت ہماری فطرت کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اسی لئے تو حقائق تک رسائی نہیں ہوپاتی۔سماجی علوم کے بارے میں تقریباََ جاہل ہوتے ہوئے بھی اپنی جان کی امان پاتے ہوئے میں اس شبے کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ حقائق کو مبالغہ آرائی کے ذریعے چھپانے کی عادت ہمارے ہاں ایران اور فارسی زبان سے جڑی روایات کی بدولت آئی ہے۔استعارہ،مبالغے کا ایک دلفریب ذریعہ ہی تو ہے۔

شاعر کسی شخص کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ لوگوں کو اس کاحالِ دل معلوم نہ ہو۔انہیں یہ علم نہ ہوپائے کہ اس کے دل کو کس خاص شخص نے بے چین کررکھا ہے۔اس شخص کی پہچان کو وہ ہر صورت استعاروں کے بھرپور استعمال کے ذریعے چھپانا چاہتا ہے۔اسی لئے تو محبوب کے منہ میں دانت نہیں موتی ہوتے ہیں۔ابروکمان اور چال ایک کڑی کمان سے نکلاتیر۔وغیرہ وغیرہ۔

محبوب کی شناخت اوراس کے بارے میں اپنے جذبات کو چھپانے کی فکر ہی نے ہمارے لوگوں کو انتہائی جابر سلطانوں اور شہنشاہوں کے ادوار میں کوئی احتجاج کئے بغیر سرجھکائے زندگی بتانے کا چلن سکھایا۔غالب اُردو کا پہلا شاعر تھا جس نے انتہائی سنجیدگی سے ”تنگنائے غزل“کو دریافت کیا۔شاید اسی لئے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس نے خطوط کے ذریعے اپنی تلخ زندگی سے جڑی انتہائی بنیادی حقیقتوں کو بیان کرنے کی طرح ڈالی۔اس کے دوست اور مداح اس سے کسی نئی غزل کا تقاضہ کرتے تو یہ شاعربے مثل ا پنے بے پناہ زرخیز ذہن کے بڑھاپے اور غربت کے ہاتھوں بانجھ ہوجانے کا عذر تراش لیتا۔ اسے بخوبیِ علم تھا کہ اس کی شاعری کو تحریک دینے والا جو دور اورماحول تھا وہ ختم ہوا۔اب بھاپ سے ریل کار چلائی جارہی ہے۔انگریز ایک قطعاََ نیا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جس کے تقاضے بھی نئے ہوں گے اور انہیں بیان کرنے کے انداز بھی جدا۔”کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے“والی کش مکش میں مبتلا رہا۔

شہروں اور درباروں سے کہیں دور بسی خلقِ خدا کو مگر استعاروں کے چونچلے پالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ اپنی زندگی ”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے“والی لاتعلقی اور بے نیازی کے ساتھ گزارتے ہیں۔اپنی خواہشات کو ”آسینے نال لگ جا ٹھاہ کرکے“والی بے ساختگی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔یہ بے ساختگی”مہذب“ اذہان کولچراور بازاری محسوس ہوتی ہے۔اس ”لچراور بازاری“رویے ہی نے مگر ظالم سلطانوں کے خلاف مزاحمت کی کوئی نہ کوئی صورت برقرار رکھی۔

میرے بچپن میں دریائے راوی کے کناروں پر سرکنڈوں کے بنائے گھروں میں رہنے والے جوخانہ بدوش ہوتے تھے،ان کی عورتیں بہار کا موسم آتے ہی ہمارے محلوں میں آکر اپنا پتلی تماشہ دکھانے کے لئے وقت مانگتیں۔محلے کے چند لوگ مل کر فرصت کی کسی شام پر اتفاق کرلیتے۔تماشہ دکھانے والوں کو ”نیگ“کی کچھ رقم دے کر اس کی ایک پتلی بطور ”ضمانت“رکھ لی جاتی۔مقررہ شام کو وہ لوگ کسی کشادہ گھر کے آنگن میں-جسے ہم ”ویہڑا“بولتے تھے-آکر اپنا "Set"لگانا شروع ہوجاتے۔اس ”سیٹ“کے لئے صرف ایک بڑی چارپائی درکار ہوتی۔اسے چوڑائی کے سہارے کھڑا کرکے پتلیوں کو نچانے والے ایک دو افراد اس کے پیچھے چلے جاتے۔ ایک خاتون ”راوی“ بن کر ڈھولک سمیت اس چارپائی کے سامنے بیٹھ جاتی۔پتلیوں والے کرداروں کی Lighting کے لئے ہمارے بیٹھنے کوبچھائی دری کے سامنے تین یا چار لالٹینوں کی ایک لمبی قطار لگادی جاتی اور تماشہ شروع ہوجاتا۔

پچھلے کئی برسوں سے میری بہت خواہش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اسلام آباد والے گھر کے ویہڑے میں پتلیوں کا تماشہ دکھانے والے کسی طائفے کو مدعو کرسکوں۔بہت تلاش کے باوجود ان کا سراغ اس شہر کے نواحی علاقوں میں لگانہیں پایا۔خانہ بدوشوں کی بستیاں اگرچہ موجود ہیں۔ان میں رہنے والوں کی اکثریت مگر افغان ہے۔مرد وہاں کے اسلام آباد کے پہاڑوں اور جنگلات کو کاٹ کر تعمیر ہوتی”ہاﺅسنگ سوسائٹیوں“ کی مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔عورتیں پردہ کرتی ہیں اور بچے بھیڑوں کے ریوڑلئے پہاڑوں پر سبزہ ڈھونڈتے رہتے ہیں جو بہت تیزی کے ساتھ اسلام آباد میں ختم ہورہا ہے۔سیمنٹ کی عمارتوں پر مشتمل نئے جنگلوں کی تعمیر کے لئے۔

اپنے بچپن کے پتلی تماشے کی لذت کے ادعا کا ذریعے اب فقط یادداشت رہ گئی ہے جو عمر کے ساتھ کمزور ہورہی ہے۔بہرحال کل رات گیان کی مشق کا سہارا لیا اور اپنے ذہن کی سکرین پر اس تماشے کو یاد کرنے کی کوشش کی۔یادوں کا دریچہ کھلاتو اچانک خیال آگیا کہ اس پتلی تماشے کا Locale ہمیشہ کسی بادشاہ کا دربار ہوا کرتا تھا۔بادشاہ اور ملکہ کا باہمی تعلق،مصاحبین کی ریشہ دوانیاں اور دشمنوں کے ساتھ جنگیں لڑنے والے دلاور اس تماشے کی کہانی اور کردار ہوا کرتے تھے۔ان سب سے ہٹ کر مگر اہم ترین کردار ”پاٹے خان“ تھا۔

اپنی چال ڈھال اورلباس سے یہ پاٹے خان بہت بانکا دکھائی دیتا تھا۔خود کو بہت دلاور بتاتا یہ کردار بالآخر محض ایک کھوکھلا کردار ثابت ہوتا اور اس کی بھرے دربار میں کسی بہت ہی ڈرامائی موقعہ پر بھاری آواز کے ساتھ ہوا خارج ہوجایا کرتی تھی۔یہ موقع ہم بچوں کے لئے تفریح پہنچانے کے حوالے سے تقریباََ Climax ہوا کرتا تھا۔

اپنے ”جدید “ذہن کے ساتھ پتلی تماشے سے جڑی یادوں کا تجزیہ کیا تو خیال آیا کہ سرکنڈوں سے بنے گھروں میں رہنے والے خانہ بدوش درحقیقت درباروں کی چکاچوند اور شان وشوکت کے عادی اور قیدی ہوئے بادشاہوں اور ان کے دلاوروں کی سطحیت اور کھوکھلے پن کو بیان کرتے تھے۔

پتلی تماشے کے ”تخلیقی مواد“ کا تجزیہ کرتے ہوئے بالآخرخیال یہ بھی آیا کہ ہماری ٹی وی سکرینوں پر شام سات بجے سے رات 12 بجے تک جاری رہنے والے ”ٹاک شوز“ درحقیقت اس زمانے کے پتلی تماشے ہیں۔ان کا”اینکر“ مگر چارپائی کے پیچھے نہیں چھپاہوتا۔وہ سرکنڈوں سے بنے کسی گھر میں نہیں رہتا۔برانڈڈسوٹ پہنتا اور شوخ ٹائی لگاتا ہے۔اس کے مہمان پتلیاں نہیں انسان ہوتے ہیں جو خود کو بہت دانشور اور دلاور سمجھتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ سکرین پر دکھائی دینے والے یہ ”پاٹے خان“ تفریح فراہم نہیں کرتے۔ان کی ”ہوا“کبھی خارج نہیں ہوتی۔