1. ہوم
  2. کالمز
  3. نصرت جاوید
  4. قبرستان والی خاموشی میں تحقیق وتفتیش نہیں ہوتی

قبرستان والی خاموشی میں تحقیق وتفتیش نہیں ہوتی

خود سے اتنی گھن آرہی ہے کہ مرجانے کو جی چاہتاہے۔ موت کا لیکن ایک دن معین ہے اور نیند رات بھر نہیں آتی۔ مجھ ایسے پیدائشی بزدلوں کے لئے زندہ رہنے کا اگرچہ ایک اہم بلکہ بنیادی بہانہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دینِ مبین میں خودکشی حرام ہے۔ لہٰذا زندہ ہوں مگر زندہ ہوں اس طرح سے کہ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔

وقت نے حسین ستم یہ کیا ہے کہ 1985 سے ملکی سیاست پر چھائے شریف خاندان کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی بنائی اور ہمارے ریاستی اداروں سے Whatsapp کی سہولت سے چُنے تفتیشی افسروں کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنی بے تحاشہ دولت اور اثاثوں کو ”حلال“ ثابت کرنے پر مجبور کردیاہے۔ اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تاریخی موقع پر میں نے شریف خاندان کی بابت 1985 سے جو کچھ لکھا اور یہ سب لکھنے کی مناسب سزا بھی بھگتی، اس کے ایک ایک لفظ کو یاد رکھتا۔

اہم واقعات کا ایک ذخیرہ ہے۔ ان سب واقعات کو ان دنوں چن چن کر بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ وقت جو قریب آپہنچا ہے اس تک Fast Track کے ذریعے جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ بدقسمتی مگر یہ ہوگئی کہ دلِ مضطر نے اچانک JIT کے Whatsapp کے ذریعے چناﺅ اور رویے پر چند سوالات اٹھادئیے۔ یہ سوالات اٹھائے تو دریافت ہوا کہ JIT کے اراکین صرف شریف خاندان کی ”حرام“ کمائی پر ہی نظر نہیں رکھے ہوئے۔ پاکستان کے ”آزاد“ اور ”بے باک“ 24/7 چینلوں پر شام سات بجے سے رات ایک بجے تک ”نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز“ کے نام پر برپا ہر ایک Talk Showکو بھی دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے ہر اخبار کے لئے لکھا ہر ایک کالم بھی ان کی نگاہ میں رہتا ہے۔

Whatsapp کی برکتوں سے چُنی JIT کے اراکین کا خیال ہے کہ Idiot Box پر نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز پر ”عالمانہ بحث“ کے نام پر رچائی نوٹنکیوںمیں حصہ لینے والے چند افرا د ان کی ساکھ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ 110 صفحات پر مشتمل ایک شکایت لہذا سپریم کورٹ کے روبرو رکھی گئی ہے۔ اس شکایت میں محترمہ JIT کی حرمت پر سوالات اٹھانے والے افراد میں مجھ بدنصیب کا نام سرِفہرست ہے۔ اس کالم کے دو نمونے بھی یہ الزامات ثابت کرنے کے لئے ڈھونڈلئے گئے ہیں۔ JIT کا دعویٰ ہے کہ یہ کالم اس کی حرمت پر سوالات اٹھاتے ہوئے ”انصاف کی راہ میں روڑے اٹکا“ رہے ہیں۔ JIT کو چونکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس ملک میں ”پہلی بار“ لاہور سے اُٹھے ایک ”مافیا خاندان“ کے طریقہ واردات کی نشان دہی کے لئے چنا ہے اس لئے اس کے ”کام میں رکاوٹ ڈالنے“ کی کوشش درحقیقت سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف سمجھی جانا چاہیے۔ مجھ ایسے لوگوں کو توہینِ عدالت کے جرم میں گرفتار کرکے جیل بھیج دینا چاہیے۔ آزادی¿ اظہار کے بنیادی حق سے محروم ہوا مجھ ایسا بدکلام جیل کے ایک کونے میں بٹھا دیا جائے تب ہی JIT ہماری تاریخ میں ”پہلی بار“ شریف کہلاتے ”مافیا“ کو بھرپور لگن اور توجہ سے بے نقاب کرسکتی ہے۔

مختصر لفظوں میں رپٹ درج ہوچکی ہے۔ اب محض گرفتاری کا منتظر ہوں۔ JIT کی جانب سے لکھوائی رپٹ اور میری گرفتاری کے درمیان جو وقفہ ہے وہ فروغِ پارسائی کے مشن میں مبتلا ہمارے چند نامی گرامی صالحین کو ہضم نہیں ہورہا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ”شریف مافیا“ سے لفافے لے کر JIT کی حرمت پر سوالات اٹھانے والے مجھ ایسے جرائم اور رشوت ستانی کے سہولت کار ابھی تک آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ ان کا ٹینٹوا دبایا کیوں نہیں گیا۔ ان کے قلم ابھی تک کیوں رواں ہیں۔ JIT کی حرمت پر سوالات اٹھانے والے کالم چھپنے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے۔

میری سادہ لوح اور اَن پڑھ ماں اکثر پنجابی کا ایک محاورہ استعمال کرتی تھی۔ اس محاورے میں چھلنی اور چھاج کے درمیان سوراخوں کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ”شریف مافیا“ کو عبرت کا نشان بنانے کے جنون میں مبتلا ہوئے صالحین میں ایک لکھاری بھی ہے جو کبھی پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا معزز رکن ہوا کرتا تھا اور یہ وہی دن تھے جب میری بیوی اپنی دو بیٹیوں کو لے کر، جن میں سے ایک شیرخوار تھی، گھر سے نکل کر کہیں جاتی تو دو سفید ٹیوٹا کرولا گاڑیوں میں بیٹھے 8 مشٹنڈے اس کا تعاقب کرتے۔ تعلق ان مشٹنڈوں کا FIA سے تھا۔ 5 فروری 1999 کی صبح بالآخر زچ ہوکر میں نے اس تعاقب کی داستان لکھ ڈالی۔

ربّ بھلا کرے مشاہد حسین سید کا۔ وہ ان دنوں نواز شریف کے وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ پریشان ہوکر انہوں نے مجھے فون کیا۔ وزیر اعظم کو میرا لکھا کالم پڑھنے پر مجبور کیا۔ بالآخر وزیر اعظم کے دفتر سے ان کے ADC کا فون آیا۔ مجھے حکم ملا کہ فون رکھ کر اپنے گھر سے باہر جاﺅں۔ اس امرکی تصدیق کروں کہ اس کے باہر تعینات گاڑیاں وہاں موجود ہیں یا نہیں۔ گاڑیاں غائب ہوچکی تھیں۔ میں نے حقیقت بیان کردی اور کچھ سکون میسر ہوگیا۔

نواز شریف صاحب کی گزشتہ حکومتوں میں سو طرح کے عذاب بھگتے ہیں۔ ان کے ادوارمیں The Nation کے اسلام آباد بیورو کا چیف تھا۔ مجید نظامی صاحب سے روزانہ شکایتیں لگائی جاتیں۔ ان کا صرف ایک فقرہ میرے روزگار کا محافظ رہا اور وہ یہ تھا :”نصرت صاب نے خبر غلط کیڑی دِتی اے؟“ یعنی اس گنہگار کی لکھی اور The Nation کی چھاپی کونسی خبرغلط اور بے بنیاد ہے۔

میرے خلاف آتی شکایتوں سے تنگ آکر نظامی صاحب نے مرحوم عباس اطہر کے ساتھ مل کر ایک ”سازش“ یہ بھی کی کہ میرے The Nation کے لئے لکھے کالم اور خبریں اُردو میں ترجمہ کرکے نوائے وقت کے صفحہ اوّل پر بھی چھاپ دئیے جاتے۔ "Moreover" شروع ہوگیا۔

”شریف مافیا“کو کئی برسوں تک بھگتنے کے بعد ان دنوں خود کو اس خاندان کے وظیفہ خوار محافظوں کی فہرست میں دیکھ کر بہت حیرت ہوئی ہے۔ زیادہ پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب ایک نہیں دو مرتبہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھے ”آزاد اور غیر جانبدار“ لکھاری بھی آپ کی دیانت پر اُنگلی اٹھاتے پائے جاتے ہیں۔

امام خمینی کے لائے انقلاب کے بعد ایران میں ”ولایت فقہیہ“ کا دفتر قائم ہوا تھا۔ ہمارے ہاں انقلاب تو ابھی تک نہیں آیا۔ سپریم کورٹ نے عمران خان صاحب کے لاک ڈاﺅن سے پریشان ہوکر پانامہ دستاویزات کاجائزہ ضرورلیا۔ اس کی بدولت دو معزز ججوں نے شریف خاندان کو ”گاڈ فادر“ کا خاندان کہا۔ ان دنوں اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، جس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس خاندان کے ”طریقہ واردات“ کو ایک 6 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی معاونت سے سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ میری اپنے ربّ سے درد مندانہ فریاد ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ JIT اپنا کام اطمینان سے جاری رکھے مگر میں بھی صحافی کے طورپر اپنا بنیادی فریضہ-یعنی سوالات اٹھانا- بھی جاری رکھنے پر مجبور ہوں۔ ۔ صرف گِدھوں کی طرح مردار کو نوچا جاتا ہے۔