گھمنڈ واقعتاً بُرا ہوتا ہے اور مجھے اپنی قوتِ یادداشت پر بہت مان رہا ہے۔ کئی برسوں تک متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے کبھی نوٹس نہیں لئے۔ جن کے بارے میں رپورٹنگ کی وہ ناخوش ہوئے تو سو طرح کے الزامات لگا کر میرے کام کو بدنیتی یا سازش کا اظہار بتایا۔ یہ الزام کبھی نہیں لگا کہ فلاں فلاں کو Misquote کیا جو بات اس نے کہی نہیں تھی اس سے منسوب کر ڈالی۔ بڑھاپا اب مگر تیزی سے نازل ہورہا ہے۔ یہ میرے قوی کو مضمحل بناتے ہوئے اب قوتِ یادداشت کو کھانے لگا ہے۔ پیر کی صبح ”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے“ کے عنوان سے جو کالم شائع ہوا تھا اس میں گبرائیل گارسیامارکوئز کا ذکر تھا۔ اس کے ایک ناول کا حوالہ تھا اور نام اس کا Chronicle of a Death Foretold بتایا گیا۔ جو کہانی اور کردار میں نے لکھے وہ اس ناول سے نہیں بلکہ گارسیا ہی کے ایک اور ناول In Evil Hour سے متعلق تھے۔ چُوک ہوگئی‘ شرمندگی کے سوا اور کیا محسوس کرتا۔ یہ جان کر البتہ بہت خوشی ہوئی کہ میرے قارئین کی ایک مناسب تعداد عالمی ادب سے بخوبی واقف ہے۔ میرا یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ سوشل میڈیا کے فروغ نے ذہنوں کو فیس بک اور ٹویٹر تک محدود کردیا ہے۔ محسوس ہوا کہ سوچنے سمجھنے والے دردمند انسان ان دنوں بھی عالمی ادب سے مستقل رجوع کررہے ہیں۔
اپنی خطا کا جواز پیش نہیں کررہا۔ مسئلہ مگر بنیادی یہ تھا کہ ”پہلے سے بتا دی گئی موت“ اور اس کا جدول مرتب کرنا مجھے کئی برسوں سے Haunt کررہا ہے۔ برادرم سہیل وڑائچ نے Beginning of the End والا کالم لکھا تو یہ عنوان کہیں سے لپک کر ذہن پہ چھا گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اس ملک میں متعارف کروائی ”جمہوریت“ کی موت کے جو ساماں نظر آرہے ہیں وہ مگر In Evil Hour میں بیان کردہ واقعات اور کرداروں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اس عنوان کا ترجمہ شاید ”ساعتِ بد میں“ بھی ہوسکتا ہے۔ ”ساعتِ بد“ کے موسم قوموں پر اکثر نازل ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایسا ایک طویل موسم بلھے شاہ کے دور میں بھی آیا تھا۔ اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کو جنوبی ہند تک پھیلانے کی ضد میں مبتلا تھا مگر دلّی کے پچھواڑے والے علاقوں میں سکھ ایک گوریلا تحریک کی صورت منظم ہورہے تھے۔ افغانوں کو آپا دھاپی کے اس موسم میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے کئی مواقع بھی نصیب ہوئے۔ ”کھلا درحشرعذاب دا“ اور ”بُراحال“ ہوگیا پنجاب کا۔ انتشار اور بے ثباتی کے اس موسم کو بلھے شاہ نے ”شک شبے دا ویلا“بھی کہا۔ ”شک شبے“ کی یہی کیفیت محسور کردینے والی نثر میں گارسیامارکوئز نے In Evil Hour میں بیان کی ہے۔ اس کے بتائے شہر کے چوکوں میں اچانک نمودار ہونے والے پوسٹرز جو وہاں کے معتبر باسیوں کی ذاتی زندگیوں سے جڑے شرمناک واقعات بیان کردیتے۔ ان کے اکسائے غصے، خجالت اور شرمندگی کی وجہ سے خودکشیاں اور Honor Killings ہونا شروع ہوگئیں۔
قصور میں جنسی درندگی کے حالیہ واقعات نے ہمارے اوپر نازل ہوئی ”ساعتِ بد“ کو بے نقاب کیا ہے۔ ریاست کی بے بسی ہمیں اس سے قبل راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22 دنوں تک کراہتی نظر آئی اور اب باری ہے کینیڈا سے آئے ”شیخ السلام“ کی۔ ”سانحہ ماڈل ٹاﺅن“ 2014ء میں ہوا تھا۔ موصوف اس کا ”قصاص“ یقینی بنانے اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے۔ سو سے زیادہ دنوں تک یہاں بیٹھے رہے۔ ان کے جاں نثاروں نے کفن اوڑھ لئے۔ قبریں کھودلی گئیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ حضرت اپنا خیمہ سمیٹ کر کینیڈا روانہ ہوگئے۔ ان کے حواری اور پرستاریہ جواز پیش کرسکتے ہیں کہ اپنی تحریک کو موثر طریقے سے کامیاب بنانے کے لئے انہیں مناسب وقت کا انتظار تھا۔ ”انقلابی“ اپنی طویل جدوجہد کے دوران اکثر ایک قدم آگے بڑھا کر دوقدم پیچھے ہٹتے بھی نظر آتے ہیں۔
”شیخ الاسلام“ کا کینیڈا چلے جانا درحقیقت ویسا ہی ایک عمل تھا‘ شاطرانہ Tactics کا حصہ۔ ان کا دشمن یعنی شہباز شریف اب ”ایک دھکا اور دو“ والے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بڑے بھائی شہباز صاحب کے عمران خان کی محنت شاقہ کی بدولت سپریم کورٹ کے ذریعے وزیر اعظم کے دفتر سے ”نااہل“ ہوکر فارغ ہوئے۔ ان کی فراغت کے بعد سے نون کے حلقے والی مسلم لیگ ابتر ہوتی نظر آرہی ہے۔ پرویز رشید اور چودھری نثار علی خان بھی ایک دوسرے کو برسرعام طعنے دینا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے زاہد حامد کی قربانی دے کر اپنی حکومت بچائی تھی۔ شہباز شریف ان کی مدد کرنے کے بجائے زاہد حامد کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے نظر آئے۔ اب قربانی ان کی اور رانا ثناءاللہ کی درکار ہے۔ غالباََ ایک دھرنے کی مار ہیں۔ کینیڈا سے آئے ”شیخ الاسلام“ نے ا پنے اہداف کے حصول کے لئے جو گیم لگائی ہے اس سے متفق ہوئے بغیر بھی اسے سیاسی حرکیات کے اصولوں کے اطلاق سے سمجھاجاسکتا ہے۔ سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ شہبازشریف اور رانا ثنااللہ کا دھرنے کی وجہ سے استعفیٰ مل بھی جائے تو کیا پنجاب میں بھی کوئی شاہد خاقان عباسی نمودار ہوکر وہاں کی حکومت کو بروقت انتخابات تک لے جاسکتا ہے؟ اس سوال کا تشفی بخش جواب میسر نہیں ہے۔ اس لئے سہیل وڑائچ نے Beginning of the End لکھا۔ مجھے گبرائیل گارسیامارکوئز یاد آگیا اور اسلام آباد میں ایک بار پھر پھیلی وہ سرگوشیاں بھی جو زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے ”ہیرے“ قرار پائے لوگوں پر مشتمل ایک ایسی حکومت کا ذکر کررہی ہیں جو منتخب ہوئے بغیر پاکستان کے لئے وہ سب کچھ کردے گی جو ابھی تک کوئی ایک جمہوری یا فوجی حکومت بھی حاصل نہیں کرپائی ہے۔
سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر ”شیخ الاسلام“ لاہور والی محفل ”ٹیکنوکریٹ حکومت“ کے استقبال کے لئے سجارہے ہیں تو عمران خان ان کے ساتھ شامل ہونے کو تیار کیوںہوئے۔ انہیں تو فوری انتخابات درکار ہیں تاکہ ان کی حکومت جلد از جلد قائم ہوکر اس ملک میں ”تبدیلی“ لاسکے۔ آصف علی زرداری کو بھی اس حکومت سے کیا ملے گا؟ ان تمام سوالات کا میرے کند ذہن کے پاس کوئی جواب ہرگز موجود نہیں ہے۔ اگرچہ مجھے کچھ جیالوں نے بتایا ہے کہ ”سب پہ بھاری نے“ بلوچستان کے بعد پنجاب کے لئے بھی کوئی ”قدوس بزنجو“ ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ دعویٰ اگرچہ میرے شکی ذہن کے لئے قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ ذہن میں اُٹھے سوالات کے جواب نہ ملیں تو دل وحشی ”ساعتِ بد“ کا ذکر کرنے پرمجبور ہوجاتا ہے اور چونکہ ذہن میں ”پہلے سے بتادی گئی موت“ والا فقرہ گونج رہا تھا اس لئے پریشانی میں یادداشت کی قوت لٹ جانے کا احساس تک نہ ہوا۔