1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کا ”کریڈٹ“

سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کا ”کریڈٹ“

پاکستان کا اصل بحران ان دنوں میری ناقص رائے میں نااہل حکومت نہیں ہماری بہت ہی نکمّی اپوزیشن ہے۔ اس اپوزیشن کے ذہنی افلاس کا ناقابلِ برداشت مظاہرہ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران کمال ڈھٹائی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

دُنیا بھر میں جہاں بھی پارلیمانی نظام حکومت لاگو ہے، وہاں کی حکومتیں پارلیمان میں بے تحاشہ اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود اپنا سالانہ بجٹ پاس کروانے کے دنوں میں حواس باختہ ہوجاتی ہیں۔ پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت ویسے بھی کئی حوالوں سے دیوار کے ساتھ لگ چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس نے اپنی پانچ سالہ معیادِ حکومت کا آخری بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ کی بھاری بھر کم دستاویزات کو ذرا غور سے کنگھالنے کے بعد مجھ ایسا معاشی امور کے بارے میں قطعاََ جاہل شخص بھی بآسانی دریافت کر سکتا ہے کہ ”بات نہیں بنی“۔

”کشکول“ توڑ دینے کے دعوﺅں کے ساتھ اقتدار میں آنے والوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں ریاست کا کاروبار چلانے کے لئے ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے ریکارڈ قرضے لئے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں لئے قرضوں کو موجودہ دور میں لئے قرضوں کے ساتھ ملانے کے بعد سود کی صورت میں سالانہ جو رقم ادا کرنا ہے اس کی مالیت مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص ہوئی رقوم سے کہیں زیادہ ہے۔ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا والا معاملہ ہوگیا ہے۔

قرض لے کر ریاست کا کاروبار چلانا اپنے تئیں شاید کوئی اتنی پریشان کن بات نہیں ہوتی۔ دیکھنا مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ ”قرض کی مے“ سے ملک میں نئے کارخانے لگائے جارہے ہیں یا نہیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کریںاور عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات بیچ کر ریاست کے غیر ملکی کرنسی میں جمع ہوئے ذخائر میں اضافہ کریں۔

شریف خاندان کو ہماری سیاست پر 1985 سے مسلط کرنے والی نام نہاد Establishment نے انہیں مارکیٹ کرنے کے لئے چورن یہ بیچا تھا کہ لاہور کے ایک کامیاب صنعتی اداروں سے تعلق رکھنے والے شریف برادرن بہت اچھے ”منیجرز“ ہیں۔ انہیں کاروبار کی بہت سمجھ ہے۔ اپنی Managerial اور کاروباری صلاحیتوں کے ساتھ ریاستی دھندا چلاتے ہوئے وہ پاکستان کو ایک جدید ترین صنعتی ملک بنا سکتے ہیں۔

بہت تجربہ کار بتائے ان منیجروں نے مگر اپنی تیسری حکومت کے پانچ سالوں میں ٹیکسٹائل جیسے شعبے کا بھی بیڑا غرق کردیا ہے جو کئی برسوں تک ہمارے ملک کے لئے زرمبادلہ لانے والی مصنوعات کی پیداوار میں سرِ فہرست ہوا کرتا تھا۔ کپاس کی پیداوار میرے ملک میں اس سال بھی ربّ کے کرم سے بہت شانداردکھائی دی ہے۔ کپاس کو کھیت سے اُٹھاکر بنایا جاتا ہے دھاگہ۔ اس دھاگے سے پھر بنائی جاتی ہیں مختلف النوع مصنوعات جن کی کھپت عالمی منڈی میں بے تحاشہ ہے۔

ہمارے ساتھ مگر ظلم یہ ہوا کہ بجائے Finished Products کے فیصل آباد کی لومز میں تیار ہوا دھاگہ گزشتہ کئی برسوں سے چین اور بنگلہ دیش کی فیکٹریوں میں کپڑا بنانے کے لئے استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ لومز والوں کے لئے ”چاندنی“ مگر ”چاردن“ ہی رہی۔ غیر ملکی سیٹھ اب کھیت سے اُٹھی کپاس کی فصل کو مناسب ادائیگی کے بعد اپنے ملکوں میں لے جانا شروع ہوگئے ہیں اور فیصل آباد کی لومز جو متوسط طبقے کے ہزاروں خاندانوں کی خوشحالی کا باعث ہوا کرتی تھیں ان دنوں کھنڈروں کی صورت نظر آرہی ہے۔

امریکہ کے بہت سارے کارخانوں کےساتھ بھی گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایسا ہی ہوا تھا۔ بند ہوئے کارخانوں والے شہروں پر مشتمل علاقوں کو Rustic State کا خطاب ملا۔ ٹرمپ نے ان علاقوں میں بے روزگار اور کاروباری امکانات سے محروم ہوئے لوگوں کے دلوں میں اُبلتے غصے کو بھڑکایا اور وائٹ ہاﺅس پہنچ گیا۔

پاکستان میں ڈھنگ کی اپوزیشن ہوتی تو حکومت کو قومی اسمبلی کا کم از کم ایک اجلاس فقط ٹیکسٹائل بحران پر بحث کے لئے مختص کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اس دن فیصل آباد جیسے شہروں سے خود کو معاشی طورپر بدحال محسوس کرتے ہزاروں لوگ بھی اسلام آباد میں جمع کئے جاسکتے تھے تاکہ اس موضوع پر کماحقہ بحث کے بعد حکومت سے ٹیکسٹائل کے شعبے میں توانائی بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات لینے کا تقاضہ کیا جاسکے۔ ہمارے کسی رہ نما نے مگر تردد ہی نہ کیا۔

کالم کی تنگ دامنی نے مجھے صرف ایک شعبے پر توجہ مبذول رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ بجٹ کی بھاری بھر کم دستاویزات میں، مجھے پورا یقین ہے، ہماری معیشت کے تقریبا سب شعبوں کے بارے میں ایسے اعدادوشمار موجود ہیں جنہیں آسان الفاظ میں سمجھا یا جائے تو دل دہل جائیں گے۔

قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کی اصل پریشانی مگر یہ رہی کہ حکومت ان کی تقریر کو PTV پر Live دکھانے کو تیار نہیں ہوئی۔ سید خورشید شاہ کا گلہ اپنی جگہ برحق۔ 2017ء میں پارلیمانی کارروائی کو پاکستان کے 24/7 چینلوں کے لئے نوگوایریابنانا ایک ناقابلِ معافی فیصلہ نہیں سنگین جرم ہے۔ یہ فیصلہ مگر اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ”اچھے منیجروں“ کی نام نہاد حکومت حواس باختہ ہوچکی ہے۔ حکومت کی اس حواس باختگی کا مگر قومی اسمبلی سے بائیکاٹ کرنے کے ذریعے کوئی فائدہ بھی تو نہیں اٹھایا جاسکتا۔ وزیر خزانہ تو دل ہی دل میں بلکہ یہ جان کر مطمئن ہو رہے ہوں گے کہ ”جان چھٹی“۔

منافقانہ حیلوں بہانوں سے اپوزیشن کو ایوان میںواپس لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مگر گزشتہ ہفتے پیش کئے بجٹ کو بغیر کسی تفصیلی اور جان دار مباحثے کے ”ریکارڈ مدت“ میں Fast Track کا سہارا لیتے ہوئے پاس کروالیا جائے گا۔ میرے اورآپ جیسے علمِ معاشیات سے نابلد سادہ لوحوں کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ ڈار صاحب نے اپنے پانچویں بجٹ میں ہمارے ساتھ ”ہاتھ“ کیا کیا ہے۔

خدارا میری اس بات کا اعتبار کیجئے کہ اپنے تیسرے دورِ حکومت میں نواز شریف، شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے باہم مل کر ریاستی کاروبار کو چلانے کے لئے جو گیم لگائی ہے اسے سمجھنے میں آئندہ انتخابات کے بعد کسی اور جماعت کی بنائی حکومت کو کم از کم دو سال گزرجائیں گے۔ اس حکومت کے تیار کئے گورکھ دھندے کو جان لینے کے بعد اس سے نبردآزما ہونے کے لئے جو اقدامات سوچے جائیں گے انہیں عملی صورت دینے میں مزید دو سال صرف ہوجائیں گے۔

اس دوران پریشان ہوئی خلقِ خدا نواز شریف کے ”سنہری دور“ اور شہباز صاب کی آنیاں جانیاں یاد کرنا شروع ہوجائے گی۔ آئندہ انتخابات کے بعد کسی اور جماعت کی بنائی حکومت کے ساتھ، معاشی پالیسیوں کے حوالے سے، یقین مانیے وہی ہوگا جو پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے ساتھ 2008ء سے 2013ء کے درمیان ہوا تھا۔ شریف برادران بتدریج اپنے لئے ”تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا“ والا ماحول بنانے میں مکمل طورپر کامیاب ہو چکے ہیں۔

اس کامیابی کا اصل کریڈٹ مگر Live Coverage کے محتاج سید خورشید شاہ کو جاتا ہے اور ہماری اصلی تے وڈی بنی اپوزیشن -تحریک انصاف- کو جس نے خلقِ خدا کی ساری توجہ پارلیمان سے ہٹاکر سپریم کورٹ کی جانب مبذول کروادی ہے۔