ہم پاکستانیوں کی حیرت اور غم وغصہ اپنی جگہ۔ امریکی صحافیوں اور مبصرین کی بے پناہ اکثریت بھی ٹرمپ کی اس تقریر کے بارے میں بہت ناراض وپریشان دکھائی دے رہی ہے جو مہینوں انتظار کروانے کے بعد اس نے افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو کسی انجام تک پہنچانے کی حکمت عملی بیان کرنے کے نام پر کی ہے۔
ان مبصرین کی یہ سوچ بالکل درست کہ مذکورہ تقریر میں ”حکمت عملی“ نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ تڑیاں ہیں۔ نشانہ جن کا محض پاکستان ہے۔ افغانستان کا واحد ہمسایہ ملک جس کے زمینی راستوں اور فضائی حدود سے گزر کر ہی نائن ا لیون کے بعد امریکہ نے اس ملک پر نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ مسلط کی اور اسے ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ بات عین ممکن ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی اداروں نے اپنے طویل المدتی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ کا اس جنگ میں غلامانہ ساتھ نہیں دیا ہوگا۔ پاکستان کے تعاون کو یقینی اور مزید موثر بنانے کے لئے مگر ان اداروں کے ساتھ نیک نیتی سے کسی مکالمے کے ذریعے ہی امریکہ افغانستان میں ”کچھ نیا“ کرنے کا سوچ سکتا تھا۔
پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے افغان جنگ میں ناکامیوں کی پوری ذمہ داری مگر پاکستان کے سر ڈال دی۔ بات محض الزام تراشی تک ہی محدود رہتی تو شاید تھوڑے احتجاج کے بعد ہم اسے نظرانداز کردیتے۔ پاکستان کو ”بندے کا پُتر“ بنانے کی خواہش میں ٹرمپ نے جس زبان اور لہجے میں بھارت کا تعاون طلب کیا وہ مزید اورانتہائی اشتعال انگیز تھا۔
امریکی صحافیوں اور مبصرین کی بے پناہ اکثریت ٹرمپ کو یہ حقیقت یاد دلارہی ہے کہ پاکستان کو اس کے ”احکامات“ پر سرجھکاکر عمل کرنے کو آمادہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسلام آباد اپنی فوجی اور اقتصادی ضروریات کے لئے قطعاََ اس کا محتاج ہوتا۔ 1965ء کی جنگ اور 1970ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان نے مگر چین کے ساتھ مل کر اپنے دفاع کو مضبوط تر بنانا شروع کردیا تھا۔ کئی برسوں تک بنیادی طورپر دفاعی شعبے تک محدود پاک -چین دوستی اب اقتصادی تعاون کے کئی نئے باب کھول رہی ہے۔ CPEC کی چھتری تلے جمع ہوئے امکانات کی بدولت امریکہ کو وہ Leverage ہرگز میسر نہیں جو کسی سپر طاقت کو اپنی شرائط منوانے کی قوت بخشتا ہے۔ اپنی تقریر کے ذریعے پاکستان کو بھڑکا کر ٹرمپ کئی حوالوں سے اپنے پاﺅں پر کلہاڑا مارتامحسوس ہوا۔
گزشتہ دو روز میں نے امریکی صحافیوں اور مبصرین کی ٹرمپ کی تقریر پر لکھے تجزیوں کو غور سے پڑھنے میں گزارے ہیں۔ پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے یہ تجزیے بہت مدلل اور عموماََ Obvious اور بنیادی حقائق کی نشان دہی پر مبنی ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے ذہن میں سوال مگر یہ بھی اٹھا کہ مجھ ایسے عامی اور بہت سوچنے اور سمجھنے کے بعد دفاعی امور پر لکھنے والے امریکی ماہرین کو جو باتیں بہت Obvious نظر آئی ہیں، ٹرمپ کے لئے نئی افغان پالیسی مرتب کرنے والوں کو کیوں نظر نہیں آئیں۔
بلاشبہ ٹرمپ سطحی اور متعصبانہ سوچ کا مالک ہے۔ ٹویٹر پر اول فول پیغامات لکھنے کے بعد بھی ان کے عواقب کے بارے میں سوچنے کا عادی نہیں۔ اپنے معاونین کے تیار کردہ بریف وہ کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیںکرتا۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی مگر اس کی مرتب کردہ نہیں ہے۔ بنیادی طورپر اسے دو امریکی جرنیلوں نے تیار کیا ہے۔ یہ دونوں بہت پڑھاکو جرنیل سمجھے جاتے ہیں۔
ان دو میں سے ایک، ان دنوں امریکہ کا وزیر دفاع ہے۔ یونانی فلسفے اور ادب کا طالب علم ہے۔ ازلی کنوارہ ہے۔ ٹی وی ہرگز نہیں دیکھتا۔ کتابوں میں کھویا رہتا ہے۔ اس جنرل Mattis ہی نے نائن الیون کے بعد بریگیڈئر جنرل ہوتے ہوئے رات کی تاریکی میں ہماری ایک بندرگاہ-پسنی- میں اپنے کمانڈواتارے اور انہیں طالبان کے مرکز قندھار تک پہنچایا۔ افغان جنگ سے جڑے تمام مسائل کو وہ اس کے شروع ہونے کے پہلے روز ہی سے خوب سمجھتا ہے۔
ٹرمپ کا دوسرا جرنیل Mc Master ہے جو ان دنوں اس کا مشیر برائے قومی سلامتی بھی ہے۔ اس جرنیل نے آج سے کئی برس پہلے بہت تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی تھی۔ Dereliction of Duty اس کا نام ہے۔ امریکہ کو ویت نام میں ذلت آمیز شکست سے کیوں دو چار ہونا پڑا؟ اس سوال کا جواب اس کتا ب کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی۔ یہ کتاب امریکہ ہی نہیں نیٹو کے چند ممالک کی فوجی اکادمیوں میں بھی نصاب کا حصہ بنائی گئی ہے۔
میں یہ بات ہضم کرنے سے بالکل قاصر ہوں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے نئی افغان پالیسی طے کرتے ہوئے ان دو جرنیلوں کو اس حقیقت کا علم نہیں ہوگا کہ ان کا ملک صرف پاکستان کے زمینی اور فضائی راستوں ہی سے افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے واشنگٹن کو اسلام آباد میں وہ Leverage بھی میسر نہیں جو ضیاءالحق اور مشرف کے ادوار میں ”امریکی امداد“ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ چین کے اس خطے میں ابھرتے ہوئے کردار سے بھی یہ دونوں جرنیل خوب واقف ہوں گے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ٹرمپ کے لئے ان دونوں جرنیلوں نے پاکستان کے خلاف ایسی جارحانہ اور اشتعال انگیز تقریر کیوں تیار کی؟ ایمانداری کی بات ہے کہ بہت غور کے باوجودمیں اس سوال کاجواب ڈھونڈ نہیں پایا ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر براجمان دفاعی امور کے ہمارے غیرت مند ماہرین تھوڑی دیر کو بڑھک بازی سے اجتناب برتتے ہوئے مجھے اس سوال کاجواب فراہم کردیں۔