1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ احمقانہ ضد تھی

یہ احمقانہ ضد تھی

قیامِ پاکستان سے قبل آج کی جماعتِ اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام کی بانی قیادت اور مختلف زعماءکے مسلم لیگ کی جانب سے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے لئے چلائی جانے والی تحریک کے بارے میں شدید تحفظات تھے۔ ان میں سے چند ایک کا سخت ترین الفاظ میں اظہار بھی ہوتا رہا۔ قائدِاعظم کے ”مغربی طرزِ زندگی“ کے بارے میں بھی انتہائی رکیک الفاظ استعمال کئے جاتے رہے۔

ٹھوس تاریخی حوالوں کو وقت گزرنے کے ساتھ مگر بھلا دیا گیا۔ نئے ملک کی تعمیر اور اس کی بقاءکے لئے ماضی کو بھلانا ویسے بھی ضروری تھا۔ ایک جماعت کا ماضی مگر اس ضمن میں اب تک فراموش نہیں کیا گیا۔ نام اس جماعت کا ہے عوامی نیشنل پارٹی۔ یہ کبھی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور اس سے قبل نیشنل عوامی پارٹی بھی کہلائی جاتی تھی۔NAP پر آج کے خیبرپختون خواہ سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرستوں کا غلبہ تھا جو قیامِ پاکستان سے قبل خدائی خدمت گار کہلائے جاتے تھے۔ خان عبدالغفار خان ان کے رہنما تھے۔ اے این پی کی قیادت بعدازاں ولی خان کو منتقل ہوگئی۔

1992ءمیں جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو انہیں یقین تھا کہ ولی خان پشتون قوم پرست ہونے کے ناطے ایک ”پنجابی وزیراعظم“کے خلاف اٹھائے اقدامات کی حمایت کریں گے۔ اس حمایت کو یقینی بنانے کے لئے جس پیغامبر کو استعمال کیا گیا مجھے اس کا نام بھی معلوم ہے۔ کسی ایک شخص کی لیکن بھد اُڑانا میرا اس وقت مقصد نہیں ہے۔ اصل بات آپ کو یہ بتانی ہے کہ جب ولی خان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے واضح الفاظ میں جواب دیا کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ نوازشریف پنجابی ہے یا کیا۔ اصل سوال ایک منتخب وزیراعظم کی خودمختاری ہے اور وہ اس کے اختیارات کے تحفظ کی جنگ میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

حق بات یہ بھی ہے کہ ولی خان نے یہ موقف اس سیاست دان‘ نواز شریف کی حمایت میں اختیار کیا تھا جنہوں نے ضیاءالحق کی شفقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنڈھری سے آئے اپنی ہی جماعت کے وزیر اعظم ’محمد خان جونیجو‘ کے لئے کئی مشکلات کھڑی کی تھیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو کو اسی نواز شریف نے ”سکیورٹی رسک“ کہا تھا۔ 1988ءکے انتخابات کے بعد انہیں وزیراعظم نامزد ہونے سے روکنے کے لئے ”جاگ پنجابی جاگ“ والا نعرہ بھی نوازشریف کے حامیوں نے ایجاد کیا تھا۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے وہ وزیراعظم کو پنجاب آنے پر روایتی پروٹوکول فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیتے تھے۔

وقت مگر بہت ظالم ہوتا ہے۔ کسی بھی وزیراعظم کو بالآخر مجبور کردیتا ہے کہ وہ نسلی اور صوبائی تقسیم سے بالاتر ہوکر سوچے۔ اس سوچ کو اپنانے میں جو دیر لگی اس کی وجہ سے نوازشریف کو جنرل مشرف کے دور میں جو جلاوطنی بھگتنا پڑی اس نے انہیں ”سکیورٹی رسک“ کے ساتھ ”میثاقِ جمہوریت“ طے کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجھ ایسے بدنصیب اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ شاید ہمارے قدآور سیاستدانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ ایسا ہوا مگر نظر نہیں آرہا۔

عمران خان نے 2نومبر کے دن اسلام آباد کی تالہ بندی کا جو فیصلہ کیا وہ کئی حوالوں سے نامناسب تھا۔ اس تالہ بندی کو یقینی بنانے کے لئے خیبرپختونخواہ سے آئی کمک پر انحصار بھی ایک غلط سوچ تھی۔ پنجاب انتظامیہ کو اس سوچ کی وجہ سے خیبرپختونخواہ خواہ سے آنے والے ”لشکروں“کو روکنے کے لئے امتناعی اقدامات اٹھانے کا بہانہ مل گیا۔ امتناعی اقدامات کے ٹھوس امکانات ہوتے ہوئے بھی پنجاب پولیس کے پاس مگر اس امر کا کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ خیبرپختونخواہ کو پنجاب سے ملانے والے اٹک پل پر کنٹینر لگا دے۔ اس پل کی بندش نے ٹیلی وژن سکرینوں پر پاکستان ہی کے دو صوبوں کے درمیان ایسی ”حد بندی“ دکھا دی جو دو ملکوں کے مابین نظر آیا کرتی ہے۔

زیادہ بہتر ہوتا کہ اس ”حد بندی“ کو توڑنے کے لئے عمران خان اپنے ساتھیوں سمیت بنی گالہ سے باہر آکر اٹک کے پل پر جانے کی کوشش کرتے۔ خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ کو سرکاری وسائل کے ساتھ اٹک پل ”کھلوانے“ کے لئے جارحانہ اقدامات اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

یہ سب کچھ مگر ہوچکا ہے۔ میں سانپ گزر جانے کے بعد لکیر کو پیٹ رہا ہوں۔ اپنی اناﺅں کے اسیر بنے سیاستدانوں نے میرے ملک کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔ ہمارے ہاں موجود نسلی تقسیم سے جڑے تعصبات کو اُجاگر کر دیا ہے۔ پاکستان کا ایک عام شہری ہوتے ہوئے میرا فرض ہے کہ ایسے اقدامات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کروں۔ اگرچہ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے آج کے پاکستان میں میری آواز اس طوطی کی آواز ہوگی جو نقار خانے میں لگائی جائے تو کسی کو سنائی نہیں دیتی ۔

اٹک کا پل پار کرتے ہی آپ اسلام آباد میں فوراً داخل نہیں ہوجاتے۔ دارالحکومت کے راستے میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں پنجاب پولیس مناسب انتظامات کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد آنے سے روک سکتی تھی۔ اٹک پل کو بند کرکے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے درمیان ”سرحد“ دکھانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی۔

پنجاب حکومت کی حماقت کو پرویز خٹک فراست وبردباری سے پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکتے تھے۔ اٹک کے اس پار کسی ایک مقام پر وہ دھرنا دے کر بیٹھ جاتے اور صرف اس بات پر اصرار کرتے کہ ان کے صوبے کے رہائشیوں کو خواہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہو یا نہیں پنجاب سے ”کاٹ“ دیا گیا ہے۔ ملک کو صوبائی بنیادوں پر تقسیم شدہ دکھا دیا گیا ہے۔ پرویز خٹک نے مگر یہ تاریخی موقع گنوا دیا۔ خود کو ایک ”حملہ آور لشکر“ کا سپہ سالار ثابت کرنے پر زور دیتے رہے۔ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سوچے بغیر کہ ان کی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ یہ ایک قوم پرست جماعت نہیں بلکہ نسل اور زبان سے بالاتر ایک ”نئے پاکستان“کو تعمیر کرنے کی دعوے دار ہے جہاں انصاف ہو۔ قانون اور میرٹ کی بالادستی ہو۔

خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو پنجاب پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کے سامنے لانے کا ہرگز کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ احمقانہ ضد تھی۔ ویسی ہی ضد جو پنجاب حکومت نے امتناعی اقدامات کے نام پر اپنائی تھی۔ دونوں یکساں طورپر قابلِ مذمت ہیں اور میں اس کے بارے میں پریشان ہوا کوئی اور لفظ لکھنے کی ہمت سے یکسر محروم ہوچکا ہوں۔