1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ ایک مکروہ سازش ہے

یہ ایک مکروہ سازش ہے

دور کی کوڑیاں لانا کوئی ہم سے سیکھے۔ اس بات کا احساس کئے بغیر کہ نئے آرمی چیف کے انتخاب سے چند ہی روز قبل ان کے ایمان کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات خطرناک نوعیت کی ایک گھنائونی سازش کا حصہ تھے، چند ’’حق گو‘‘صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس کے ذمہ داروں کا ’’سراغ‘‘بھی لگا لیا ہے۔

آرمی چیف کے ایمان پر سوالات اٹھانے والی سازش کب، کہاں اور کس نے تیار کی اسے کن افراد کے ذریعے رائے عامہ کا مرتبہ دینے کی کوشش ہوئی؟ ان سب سوالات کا جواب ٹھوس شواہدکے ذریعے فراہم کرنے کا تردد ہی نہیں کیا جا رہا۔ فرض صرف اتنا کرلیا گیا ہے کہ چونکہ نواز شریف عسکری قیادت کو ہمیشہ ’’تھلے‘‘ لگانے کے جنون میں مبتلا رہے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے ایک دیرینہ حلیف ’’ساجد میر‘‘ کے ذریعے یہ سوالات اٹھوائے۔ ان سوالات نے جب اہمیت اختیار کرنا شروع کی تو ’’کٹڑ‘‘سمجھی جانے والی اس جماعت کے سربراہ کو ایک تردیدی بیان جاری کرنے پر رضا مند کرلیا گیا۔ انگریزی والا Damage مگر ہو چکا ہے۔ جنرل باجوہ نے جب کبھی Assert کرنے کی کوشش کی تو ان سوالات کو دوبارہ اٹھاتے ہوئے ان کا منہ بند کردیا جائے گا۔

نواز حکومت پر یہ تہمت ہفتے کی رات میں نے پہلی بار سنی تو مسکرا کر نظرانداز کردیا۔ اتوار کا سارا دن جب میں نے کئی بہت ہی پڑھے لکھے اور باخبر افراد کو یہی بات بہت اعتماد سے دہراتے سنا تو بھنا کر رہ گیا۔ دل کانپ اُٹھا کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی پر منڈلاتے خطرات کے سیاہ ترین بادل بھی ہمیں سازش گری سے باز نہیں رکھ پا رہے۔ ذہن فروعات میں اُلجھ چکے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں اور ذمہ داریوں کا احساس کئے بغیر ہم دور کی کوڑیاں لاتے ہوئے معاملات کو گھمبیر تر بنا رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف اس ملک کے سب سے تجربہ کار اور کئی حوالوں سے کامیاب ترین سیاست دان ہیں۔ 80ء کی دہائی میں پنجاب کے گورنر جنرل جیلانی نے انہیں اپنے پروں تلے لیا تھا۔ جیلانی صاحب نے ISI میں طویل عرصہ گزارہ تھا۔ افواہوں کی بنیاد پر مخالفین کو دیوار سے لگانے کے ہنر سے وہ خوب واقف تھے۔

جیلانی صاحب کی سرپرستی میں ایک نووارد کی حیثیت میں نواز شریف جن کے خاندان کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا، بڑی خاموشی اور یکسوئی سے اپنا مقام بلند کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جنرل ضیاء اور ان کے رفقاء نے فوجی آمریت کو جمہوری لبادہ فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ انتخاب مکمل ہوئے تو صحافیوں کی اکثریت پنجاب کے معروف سیاسی خاندانوں میں سے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اس صوبے کا وزیر اعلیٰ ڈھونڈنا شروع ہوگئی۔

سندھ کے پیر پگاڑا جنرل ضیاء کی فوجی آمریت کے اہم ترین سہولت کار تھے۔ ان ہی کی سفارش پر الٰہی بخش سومرو اور ظفر اللہ جمالی کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ پنجاب پیر پگاڑا کے بردارِ نسبتی مخدوم زادہ محسن محمود کے سپرد کردیا جائے گا۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آیا تو اٹک کے ملک اللہ یار قیاس آرائیوں کے بازار میں سب پر بازی لیتے نظر آئے۔ وزارتِ اعلیٰ بالآخر مگر نواز شریف کے حصے میں آئی۔

یہ منصب سنبھالنے کے صرف ایک برس بعد ہی لیکن پنجاب کے دو طاقت ور خاندانوں کے نوجوان نمائندے۔ یوسف رضا گیلانی اور چودھری پرویز الٰہی ان کے خلاف متحرک ہوگئے۔ پیرپگاڑا بھی ان دنوں ہر روز اسمبلی کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر پنجاب کے ’’رنجیت سنگھ‘‘ کے خلاف تبرا فرماتے رہتے۔ بلی چوہے کے کھیل کی داستانیں سناتے۔ بالآخر ایک روز ضیاء الحق لاہور پہنچ گئے اور نواز شریف کے ’’کلّے‘‘کی مضبوطی کا اعلان کردیا۔

1990ء میں قبل از وقت انتخابات کروانے والے غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے بھی طے کررکھا تھا کہ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کے حوالے کی جائے گی۔ انتخاب مکمل ہوگئے تو یہ منصب مگر نواز شریف کے حوالے کرنا پڑا۔ درباری سازشوں سے لہذا نواز شریف خوب واقف ہیں۔

چند مثالوں کے ذریعے اپنے اس اعتراف کے بعد میں یہ دعویٰ کرنے پر بھی بضد ہوں کہ نواز شریف بذاتِ خود کوئی گہری سازش تیار کرنے کے قابل نہیں موصوف اپنی ذات میں مگن ایک ضدی شخص ہیں بہت ریاضت کے بعد انہوں نے اپنے غصہ پر قابو پانا سیکھا ہے ایسا شخص سازشیں سوچنے اور ان پر عملدرآمد کی گیم لگانے کے قابل نہیں ہوتا اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر نواز شریف البتہ اپنے خلاف ہوئی سازشوں کو فی الفور بھانپ لیتے ہیں اور ان سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت بھی پاچکے ہیں۔

میرا اصرار ہے کہ آرمی چیف کے ایمان پر سوالات اٹھانے والی سازش نواز کیمپ میں تیار نہیں ہوئی اس کے ذمہ داروں کا سراغ لگانا ہماری ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اس سازش نے اپنی بھرتی کے دن سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے قمر جاوید باجوہ کی تذلیل ہی نہیں کی پاک فوج کے اس نظام کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے جہاں بھرتی سے لے کر ترقی کے مراحل سے گزرکر اعلیٰ ترین عہدوں تو پہنچنے کا طریقہ کار معیاری اعتبار سے بہت کڑا مگر شفاف ہے جنرل باجوہ ان تمام مراحل سے گزرکر ہی پاک فوج کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔ان کے ایمان کے بارے میں بے بنیاد سوالات اٹھانا ایک سفاک عمل تھا۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے۔اس سازش کے بارے میں میری پریشانی آپ کو ضرورت سے زیادہ نظر آتی محسوس ہوتو خدا کے لئے صرف افغانستان اور عراق کے معاملات پر غور کر لیجئے ان دو ممالک میں اربوں ڈالر اور کئی برسوں کے زیاں کے باوجود امریکہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے والی فوج کھڑی نہیں کرپایا تووجہ اس کی صرف اور صرف لسانی اور مسلکی تقسیم ہے پاکستان اپنے بے تحاشہ مسائل کے باوجود خلفشار اور انتشار سے اب تک بچارہا ہے تو اس کی اہم ترین وجہ ہمارے ہاں پاک فوج کی صورت ایک منظم ترین ادارے کا وجود ہے۔ اس ادارے سے وابستہ لوگوں کے ایمان پر بے بنیاد سوالات اٹھانا ایک مکروہ سازش ہے جس کی محض مذمت ہی کافی نہیں اس کے ذمہ داروں کا سراغ لگاکر گربہ کشتن روزاوّل کرنا بھی اشد ضروری ہے۔