1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں

از

ذلتوں کے مارے لوگوں کی مسلسل اور مستقل بے بسی کو دیکھ کر شاعر پکاراُٹھا تھا کہ ”۔ مرکیوں نہیں جاتے“۔ ہمارے سیاستدان اگرچہ اتنے بھی بے بس نہیں ہیں۔
آئین میں 18 ویں ترمیم داخل کروانے کے بعد سے ”سب پر بالادست پارلیمان“ کی گردان سنتے ہوئے ہمارے کان پک چکے ہیں۔ اس ”بالادست“ پارلیمان کا قائد- نواز شریف- مگر نومبر کی یکم تاریخ سے عدالتِ عظمیٰ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوگا کہ اس کے بیٹوں اور بیٹی کا نام پانامہ پیپرزمیں کیوں آیا۔
پاکستان کی مختصر تاریخ میں تیسری بار کوئی وزیر اعظم عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہوا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس عدالت سے موت کی سزا ملی تھی۔ پھانسی پر چڑھائے گئے۔ ان ہی کی بنائی ایک جماعت کے وزیر اعظم- یوسف رضا گیلانی- کو بھی اسی عدالت سے ایک چٹھی نہ لکھنے کی بناء پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے یوں فارغ کیا گیا جیسے آپ کسی گھریلو ملازم کو چٹکی بجاکر گھر بھیج دیا کرتے ہیں۔ باری اب نواز شریف کی ہے۔ خبر نہیں کہ ان کی بار تاریخ خود کو دہرائے گی یا نہیں۔
عمران خان اور ان کی جماعت مگر شاداں ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں ”پہلی بار“ خود کو بادشاہ سمجھنے والا کوئی وزیر اعظم سپریم کورٹ کے روبرو اپنی صفائی دینے کو مجبور ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ان کی جانب سے ”پانامہ پیپرز“ کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی کی درخواست جب سپریم کورٹ کو بھیجی گئی تو رجسٹرار نے اس میں اٹھائے نکات کو ”فروعی“ ٹھہرا کر واپس بھیج دیا تھا۔
عمران خان نے مگر ہمت نہ ہاری۔ عوامی اجتماعات میں اپنی قوت Show کردی۔ وکیل ان کے ویسے بھی بڑے نامی اور تگڑے تھے۔ ”فروعی“ والی بات واپس لیناپڑی۔ اب پیشیاں ہوں گی۔ سماعت کے دوران دلوں کو گرمانے والے Tickers چلیں گے۔
شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات قانون کی باریکیوں سے ہم جیسے جاہلوں کو آشنا کرنے میں مصروف رہیں گے۔ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو بلّے بلّے ہوجائے گی۔ انصاف مل جائے گا۔ قوم کے خزانے سے مبینہ طورپر چرائی ہوئی دولت مگر اس کے باوجود بھی ہرگز وطن واپس نہیں آئے گی۔ آصف علی زرداری سے منسوب ان ”کروڑوں ڈالروں“ کی طرح جو مبینہ طورپر سوئس بینکوں میں چھپائے گئے تھے۔ ان کی نشان دہی کے لئے یوسف رضا گیلانی کو ایک چٹھی لکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ موصوف نے انکار کردیا۔ فارغ ہوگئے۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف آئے تو تھوڑی مزاحمت کے بعد یہ چٹھی بالآخر لکھ ہی ڈالی۔ یہ چٹھی لکھنے کے بعد کیا ہوا؟ اس کی تفصیلات جاننے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ مقصد صرف آصف علی زرداری کو رسوا کرنا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی تذلیل تھی۔ یہ دونوں کام عدالتِ عظمیٰ کی بدولت ہوچکے ہیں۔ ہمارے سینوں میں ٹھنڈ پڑچکی ہے۔
اب کی بار بھی مقصد ”لوگوں کے خزانے سے لوٹی ہوئی دولت“ کو واپس لانا ہرگز نہیں ہے۔ نواز شریف اور ان کی اولاد کو رسوا کرنا ہے۔ یہ رسوائی آئندہ انتخابات میں عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو زیادہ ووٹ لینے میں مدد دے گی۔نواز شریف نااہل ہوگئے تو ان کا کام مزید آسان ہوجائے گا۔ کسی بہانے مریم نواز شریف بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہوگئیں تو پاکستان سے ”موروثی سیاست“ کا بھی ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے گا۔
پانامہ پیپرز میں لیکن صرف نواز شریف کے بچوں کے نام ہی نہیں آئے ہیں۔ 400 سے زیادہ پاکستانیوں کے نام ان دستاویزات میں موجود ہیں۔ کوئی ایک سیاستدان یا شہری مگر اس سوال پر غور کرنے کو تیار ہی نہیں ہوا کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں سرمایہ کاروں کی اتنی کثیر تعداد کسی نہ کسی بہانے Tax Evasion نہ سہی Avoidance کی عادت میں مبتلا کیوں ہوتی ہے۔ ٹیکس سے بچائی رقوم سے بیرون ملک جائیدادیں کیوں خریدی جاتی ہیں۔ اس رقم کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ بیروزگاری کا خاتمہ ہو۔ تھوڑی خوش حالی آئے۔
ان سوالات کا، جو میری نظر میں پانامہ پیپرز کے منکشف ہونے کے بعد سے ہمارے ذہنوں پر مستقل مسلط رہنا چاہتے تھے کوئی ذکر ہی نہیں ہورہا ۔ ان سب سوالات کے جوابات ڈھونڈنا ذمہ داری بنیادی طورپر ”سب پربالادست“ پارلیمان کی تھی۔ پارلیمان کو صرف جوابات ہی نہیں ڈھونڈنا تھے۔ بڑی لگن اور محنت سے بلکہ حاصل کئے جوابات کی روشنی میں ایسی قانون سازی بھی لازمی امر تھا جو سرمایہ کاروں کو Tax Evasion یا Avoidance سے روکے۔ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر ماضی کی خطاﺅں کو معاف کردیا جاتا اور اس کے بعد اس امر کو یقینی بنانا بھی کہ ایسی معافی تلافی کے بعد Tax کو Evade یا Avoid کرنے والوں کی جان بخشی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
پارلیمان اپنا فرض نبھانے میں لیکن سفاکانہ طورپر ناکام رہی۔ فیصلہ سازی کے ضمن میں زبردست خلاپیدا ہوگیا۔ سپریم کوٹ اب اس خلا کو پُر کرنے کی اپنے تئیں کوشش کرے گا۔ ہم ایسی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رونق لگ جائے گی۔Tax مگر اس کے بعد بھی Evade یا Avoid ہوتے رہیںگے۔ زیادہ سے زیادہ حاصل ہوگا تو صرف اتنا کہ سیاست کا نام سن کرٹیکس کو Evade یا Avoid کرنے والے اپنے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع ہوجائیں گے۔
ٹیکس کو Evade یا Avoid کرنے کے عادی افراد کو انتخابی عمل سے باہر نکالنے کے بعد بھی جو شخص وزیر اعظم بنے گا، اسے گھر بھیجنے کے لئے آنے والے دنوں میں دھرنے Plus عدالت میں پیش ہوئی Petition کافی ہوا کریں گی۔ ماضی میں منتخب حکومتوں کو مارشل لاءلگاکر گھر بھیجا جاتا تھا۔ مارشل لگاتے ہوئے مگر ”دُنیا ہمارے بارے میں کیا کہے گی؟“ والی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے آئین میں 8 ویں ترمیم داخل کی گئی تھی۔ اس نے صدر کو یہ اختیار دیا کہ وہ جب چاہے کسی وزیر اعظم اور اس کی اسمبلی کو ”نااہل اور بدعنوان“ ٹھہراکر گھر بھیج سکتا ہے۔
غلام اسحاق خان نے یہ اختیار حاصل کرتے ہوئے اگست 1990ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو فارغ کیا تھا۔ 1992ءکے اپریل میں یہی اقدام جب نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ 1996ءمیں لیکن جب یہی عمل سردار فاروق خان لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف روارکھا تو سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ نے اسے جائز اور منصفانہ ٹھہرادیا۔
آئین میں سے آٹھویں ترمیم نکال دی گئی تو 12 اکتوبر 1999ءوالی فوجی مداخلت ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آئین کی معطلی کو سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا۔ 12 اکتوبر 1999ءوالے عمل کو جائز قرار دینے والوں سے کبھی کسی سیاست دان کو یہ سوال پوچھنے کی جرائت نہ ہوئی کہ 1992ءکے ”تاریخی“ فیصلے کے بعد بھی ایسا کیوں ہوا۔ جنرل مشرف کے ٹیک اوور کو جائز قرار دینے والوں میں سے بلکہ ایک جج- افتخار چودھری-بعدازاں قوم کے مسیحا کی صورت بھی نظر آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ بالآخر یہ مسیحا بھی ”ارسلان کا ابو“ ہی ثابت ہوا۔ ”مسیحا“ اس کے باوجود ہم ججوں ہی میں ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔ وہ یہ کردار ادا کرنے کو تیار نظر نہ آئیں تو ”مسیحائی“ وردی والوں میں تلاش کرنے کی عادت تو ہماری ویسے ہی پرانی ہے۔
سیاست دان اپنے فرائض نبھانے میں ناکام ہوکر ”مسیحاﺅں“ کی راہ بناتے ہیں۔ اپنے فرائض نبھانے سے زیادہ فکر ان سیاستدانوں کو اپنے ”شریک کی دیوار“ گرانے کی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شریک کی دیوار جب گرجائے تو اسے گرانے کے بعد وہ خود بھی اس کے ملبے تلے دبے نظر آتے ہیں۔ ربّ کریم سے میری فریاد ہے کہ وہ عمران خان کو ایسے ملبے تلے آنے سے محفوظ رکھے۔ نواز شریف نااہل ہوجائیں تو ان کے وزیر اعظم بننے کی راہ بنے تاکہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی طرح ہمیں Tax کو Evade یا Avoid کرنے کی لغت سے نجات مل سکے۔