1. ہوم
  2. کالمز
  3. نصرت جاوید
  4. ”زندہ ہیں اس طرح سے، مگر زندگی نہیں“

”زندہ ہیں اس طرح سے، مگر زندگی نہیں“

محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے دس برس گزر گئے۔ صبح اٹھا ہوں تو ای میل اور ٹویٹر کے ذریعے بہت دوستوں کی یہ خواہش پڑھنے کو ملی کہ ان کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ دوستوں کا احترام سرآنکھوں پر لیکن فرمائشی کالم مجھے لکھنے کی عادت نہیں۔ ”دل سے جو بات نکلتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ “والی بات پر یقین رکھتا ہوں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔

یہ بات درست ہے کہ میرا بطور صحافی محترمہ سے بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ اس تعلق کا آغاز 1978 کے ان دنوں میں ہوا جب بیگم نصرت بھٹو کو اسلام آباد میں ڈاکٹر ظفر نیازی مرحوم کے گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ ان کی عدم موجودگی میں صحافیوں سے رابطہ برقرار رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائے مقدمے کی روداد بتانے کی ذمہ داری انہیں لینا پڑی۔ صحافیوں کے ساتھ اپنے پہلے اور تفصیلی Interaction کے لئے جو نوٹس انہوں نے تیار کررکھے تھے انہیں مجھے دکھاکر رائے بھی طلب کی تھی۔

اس کے بعد جو ہوا وہ ایک طویل داستان ہے۔ اس میں کئی تاریخی مقامات آتے ہیں۔ میں ریکارڈ کا حصہ بنے ایسے بے تحاشہ واقعات کے پسِ منظر کا بھی عینی شاہد ہوں۔ ان میں سے چند ایک کو وقتاََ فوقتاََ اس کالم میں کسی نہ کسی حوالے سے بیان بھی کیا ہے اور شاید آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے۔

ربّ نے توفیق اور ہنر دئے ہوتے تو شاید ان کی ذات اور سیاسی جدوجہد کے بارے میں ٹھوس حقائق پر مبنی ایک کتاب لکھتا۔ وقت مگر بہت ستم گر ہے۔ روزمرہّ کے جھمیلوں میں خرچ ہوچکا ہوں۔ تخلیقی توانائی کو نچوڑتی ذمہ داریاں اور مصروفیات وغیرہ۔

محترمہ کی برسی کے روز میرے کئی ساتھی اگرچہ شرلک ہومزبن کر ان کے قتل کا معمہ نام نہاد Investigative Reporting کی بدولت ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی کوشش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ چند نیک نیت ساتھیوں کے سوا ہمارے بیشتر ”صحافتی تفتیش کاروں“ کا اصل مقصد مگر یہ نظر آتا ہے کہ صاف انداز میں کہے بغیر اشاروں کنایوں میں یہ پیغام دیا جائے کہ محترمہ کے چند ساتھی جو درحقیقت آصف علی زرداری کے قریب تھے ان کے قتل میں اگر براہِ راست ملوث نہیں تو کم از کم دانستہ یا نادانستہ انداز میں اس قتل کے Obvious ”سہولت کار“ ضرور تھے۔ ان ”سہولت کاروں“ ہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی محترمہ کے قتل کے صدقے میں ملی پانچ سالہ حکومت کے دوران ان کے قاتلوں کا سراغ لگاکر انہیں کیفرکردار تک نہ پہنچاپائی۔

مجھے ایسی ”تفتیش“ سے بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ محترمہ کے قتل کے روز جن افراد کے ”مشکوک“کردار کا اکثر ذکر ہوتا ہے ان میں سے کئی مجھے ذاتی طورپر سخت ناپسند ہیں۔ محض ذاتی ناپسند کی وجہ سے لیکن انہیں بے بنیاد الزامات کا نشانہ بنانا نہایت نامناسب بات ہے۔

منطقی ذہن سے ذرا Big Picture پر نگاہ ڈالیں تو محترمہ کے قتل کے حوالے سے ہوئی بیشتر ”صحافتی“ تحقیق وتفتیش ایک سفاکانہ Diversion تخلیق کرتی نظر آتی ہے۔ 27 دسمبر کے دن ہوئے قتل کو نومبر2007 میں کراچی میں محترمہ کے استقبال کے لئے جمع ہوئے اجتماع پر کئے دہشت گرد حملے سے جدا کرکے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ نومبر اور دسمبر کے دوران ہوئے یہ حملے کسی ایک ہی گروہ نے کروائے تھے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 27 دسمبر کے قتل کا سراغ لگانے کی کوششوں میں مصروف ا فراد، نومبر والی دہشت گردی کا ذکر تک نہیں کرتے۔

محترمہ کی طویل جلاوطنی کے بعد نومبر2007 میں پاکستان واپسی یقینا ایک Grand Bargain کی بدولت ممکن ہوئی تھی۔ مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے باہم مل کر یہ Deal کی تھی۔ واحد مقصد اس Deal کا پاکستان پر مسلط دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے ہماری Establishment کو ایک Populist چہرہ فراہم کرنا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وہ واحد سیاست دان تھیں جو عوام کے لئے قابل قبول ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے سکتی تھیں جو دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے والی سوچ کا بھرپور مقابلہ کرسکے۔ انہیں قتل کرنا لہذا دین اسلام کی من گھڑت تشریح کی بدولت اس ملک میں دہشت گردی پھیلانے والوں کے لئے Now or Neverوالا ہدف تھا۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا جو بھی ہے محض فروعات ہیں۔ ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپانا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ 80 کی دہائی سے پاکستان پر بتدریج ایک Mindset مسلط کردیا گیا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بنائے پاکستان کو جسے قائد اعظم جمہوری عمل کے ذریعے ایک جدید اور ترقی پذیر ملک کی صورت دینا چاہتے تھے، ”اسلام کا قلعہ“ بنانے کے نام پر یہاں بسے مسلمانوں ہی میں سے ”کافر“ ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے۔

ہمیں گماں ہے کہ پشاور کے APS پر دسمبر 2014 میں ہوئے حملے کے بعد اس Mindset کے خلاف حتمی جنگ لڑنے کافیصلہ ہوا۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہم یہ جنگ تقریباََ جیت چکے ہیں۔ ان دنوں ”اِکا دُکا“وارداتوں کے ذریعے ”آخری راﺅنڈ“ چل رہا ہے۔

محترمہ کی دسویں برسی کی صبح ان کے قتل سے جڑے واقعات کو یکجا کرکے کوئی تفتیشی کہانی گھڑنے کے بجائے میں فریاد فقط یہ کروں گا کہ چند ہی روز قبل راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک میں جوکچھ ہوا اسے یاد رکھا جائے۔ ”نیا پاکستان“ اب علامہ خادم حسین رضوی کا ہے۔ حکم یہاں اب پیر حمید اللہ سیالوی کا چلے گا۔ ٹی وی سکرینوں پر گرجتے برستے باقی سب سیاستدان اپنی کشش اور اثر کھوبیٹھے ہیں۔ زندہ ہیں اس طرح سے مگر زندگی نہیں۔