1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. کاٹھ کی ہنڈیا

کاٹھ کی ہنڈیا

تحریکِ انصاف کے رَہنماءبار بار کہتے رہتے ہیں کہ عمران خاں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، وہ اِس سیاسی گٹر میں محض قوم کی خاطر اُترے ہیں۔ یہی بات ہم عمران خاں کے مُنہ سے بھی کئی بار سُن چکے ہیں۔ اِن بیانات پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے تحریکِ انصاف سے سوال کہ کیا شریف اور زرداری خاندان سیاست میں داخل ہونے سے پہلے جھونپڑیوں میں رہتے تھے؟ عمران خاں نے اپنے منحنی سے لانگ مارچ کو خطاب کرتے ہوئے کہا "نوازشریف کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟"۔

آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کیا شریف خاندان میدانِ سیاست میں داخل ہونے سے پہلے ہی امیر تھا یا کپتان کی طرح بعد میں۔ جھوٹ کی آڑھت سجانے میں خان صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ عمران خاں جھوٹ اِس تواتر سے بولتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگے لیکن وہ تاریخی حقائق کو جھٹلا سکتے ہیں نہ مسخ کر سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ کہ شریف خاندان قیامِ پاکستان سے پہلے بھی کروڑپتی تھا۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو نے ہر شے نیشنلائز کی تب بھی شریف خاندان فیکٹریوں کا مالک تھا۔

1989ءمیں اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے شوکت خانم کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹرکے لیے 20 ایکڑحکومتی زمین عطیہ کی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی لاگت کا کُل تخمینہ 70 کروڑ روپے لگایا گیا جس میں سے 1989ءمیں ہی میاں نوازشریف کے والد میاں محمد شریف مرحوم نے 50 کروڑ روپے عطیہ کیے۔ اگر یقین نہ آئے تو "گوگل سرچ" سے آپ کو عمران خاں کی وہ ویڈیوز مل جائیں گی جن میں وہ میاں محمد شریف کی طرف سے 50 کروڑ عطیے کا اقرار کر رہے ہیں۔

1991ءمیں شوکت خانم ہسپتال کا سنگ بنیاد بھی وزیراعظم میاں نوازشریف نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اُن کے نام کی تختیاں اُکھاڑ کر پھینک دی گئیں۔ یقیناََ یہ احسان ناسپاسی کی انتہا ہے لیکن جو کپتان کے ماضی سے واقف ہیں اُن کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ وہ شروع سے ہی ایسے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز مرحومہ ہر سال خاموشی سے شوکت خانم ہسپتال کو ایک خطیر رقم بطور عطیہ بھیجتی رہیں اور یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہا جب کپتان میدانِ سیاست میں شریف خاندان کی شدید مخالفت کر رہا تھا۔

سبھی جانتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا تحریکِ انصاف کس طرح مذاق اُڑاتی رہی اور یہ سب کچھ عمران خاں کی ہدایت پر ہوتا رہا۔ کرکٹ کے میدانوں سے لے کر میدانِ سیاست تک عمران خاں کی احسان ناسپاسی کی اور بھی بیشمار مثالیں لیکن آگے چلیں۔

بھٹو خاندان پشتینی جاگیردار ہے اور آصف علی زرداری اُس شخص (حاکم علی زرداری) کا بیٹا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں بھی پیپلزپارٹی کے نمایاں اور صاحبِ جائیداد رَہنماؤں میں سے تھے۔ سوال مگر یہ ہے کہ لگ بھگ پانچ عشرے پہلے عمران خاں کیا تھے۔ کیا اُن کے خاندان کی کوئی شناخت بھی تھی؟ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ عمران خاں نے اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ میاں نواز شریف کو خط لکھ کر یہ استدعا کی کہ وہ "بے گھر" ہیں اِس لیے اُنہیں پلاٹ عطا کیا جائے۔ (میاں صاحب نے پلاٹ الاٹ بھی کردیا)۔ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ عمران خاں کی واحد شناخت 1992ءکا ورلڈ کپ تھی۔ اِسی ورلڈ کَپ کی بدولت شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تکمیل کا خواب پورا ہوا۔

آج یہ عظیم ہسپتال عمران خاں کی شناخت ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اِس ہسپتال کی تعمیر پر اُٹھنے والے اخراجات میں عمران خاں کا کتنا حصّہ تھا؟ یہ ہسپتال قوم کے پیسے سے تعمیر ہو ا اور آج بھی عطیات کے بَل پر چل رہا ہے۔ اِن عطیات میں عمران خاں کا کوئی حصّہ نہیں بالکل اُسی طرح جیسے 1992ءکے ورلڈ کپ میں عمران خاں کی کارکردگی پوری ٹیم سے کم تر تھی لیکن چونکہ وہ ٹیم کے کپتان تھے اِس لیے سارا ریوارڈ خود لے اُڑے۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ برقرار کہ اگر شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی بنیاد پر کپتان وزارتِ عظمیٰ کا حقدار ٹھہرتا ہے تو پھر مولانا عبدلستار ایدھی مرحوم کیوں نہیں؟ جن کی عمران خاں گردِپا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ رہی بات عمران خاں کے پاس "اللہ کا دیا سب کچھ ہے" کی تو عمران خاں آج امیر ضرور مگر اِس میں توشہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ اور القادر یونیورسٹی جیسی کرپشن کی بہت سی کہانیاں مضمر ہیں۔ یوں تو کرپشن کے سارے کیسز عدالتوں میں ہیں لیکن آثار بتاتے ہیں کہ عمران خاں بچ نہیں پائیں گے۔ وجہ یہ کہ اُن کے خلاف ثبوت ہی اتنے مضبوط اور ناقابلِ تردید ہیں جن کی دنیا کی کسی عدالت میں بھی تردید ممکن نہیں۔

جب میں عمران خاں کے ماضی قریب اور حال پر نظر ڈالتی ہوں تو یہ سوال دامن گیر ہوتا ہے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ نے کیا سوچ کر عمران خاں کو قوم پر مسلط کیا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اُس کے بلندبانگ دعووں سے متاثر ہوئی تو یہ دعوے اُس وقت دھڑام سے نیچے آن گرے جب 2013ءکے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا حکومت میں خان کی کارکردگی صفر نظر آئی اور قدم قدم پر ثابت ہوا کہ خان کی ساری سیاست اُسی کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو تب ہی اپنا بڑھا ہوا قدم پیچھے ہٹا لینا چاہیے تھا لیکن پھر بھی 2018ءکے عام انتخابات میں اُس کی بھرپور مدد کی گئی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انتخابات میں عمران خاں نہیں خود اسٹیبلشمنٹ حصّہ لے رہی ہو۔ وزارتِ عظمیٰ کا ہُما عمران خاں کے سَر پر بٹھانے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ نے قدم قدم پر عمران خاں کا ساتھ دیا لیکن آج وہ احسان ناسپاس کہتا ہے کہ وہ تو بے اختیار تھا، سب کچھ تو اسٹیبلشمنٹ ہی کر رہی تھی۔

گویا عمران خاں کے نزدیک وہ تو معصوم ہے اور پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے والی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ مومن تو ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ دوسری بار بھی ڈَسی گئی اور آج دنیا میں پاکستان کی پہچان "گھڑی چور وزیرِاعظم" بن کر رہ گئی۔ اِس لیے ہم تو اسٹیبلشمنٹ کو بصد ادب یہی کہہ سکتے ہیں"ہور چُوپو"۔ شاید اِسی لیے اتحادی حکومت کی سرگوشیاں جاری ہیں کہ جس نے یہ سارا "گَند"پھیلایا ہوا ہے، وہی اِس کو سمیٹے۔

سیانے کہہ گئے "کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی"۔ یہی کچھ آج عمران خاں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اُس کے جھوٹ کے سارے پردے چاک ہو چکے۔ اب تو معمولی فہم وشعور رکھنے والا بھی اُس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں یقین کہ عمران خاں کے پیروکار بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ اُن کے لیڈر نے کبھی سچ نہیں بولا لیکن ہم اپنی عادت سے مجبور ہیں جس کے مطابق سچ عیاں ہو جانے کے باوجود بھی ہم تسلیم کرنے سے گریزاں کیونکہ اِس میں شکست کا عنصر شامل ہے اور ہم کسی بھی صورت میں"شکست خوردہ" کہلانا پسند نہیں کرتے۔

اگر یہ سچ نہیں تو پھر کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی گود کے پالے عمران خاں نے آج تک اپنا کوئی ایک وعدہ بھی ایفا نہیں کیا۔ جو شخص اپنے جھوٹ یوٹرن کے پردے میں چھپا کر بَرملا کہتا ہو "یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور جو یوٹرن لینا نہیں جانتا اُس سے زیادہ بیوقوف لیڈر کوئی نہیں ہوتا"۔ کیا ایسے شخص پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ قائرِاعظمؒ نے تو فرمایا تھا:

"Think a hundred times before you take a decision، but once that decision is taken, stand by it as one man"۔

گویا قائد کے فرمان کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو اور جب فیصلہ کر لو تو اُس پر ڈَٹ جاو۔ دوسری طرف عمران خاں کہتا ہے کہ فیصلہ کرو اور پھر اُس پر یوٹرن لے لو۔ اب ہم فیصلہ عمران خاں کے پیروکاروں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان پر عمل کرنا چاہتے ہیں یا ضدی، ہٹ دھرم، اناپرست، جھوٹے اور نرگسیت کے شکار عمران خاں پر۔

یاد رہے کہ قائدِاعظمؒ نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیاجبکہ مطلب پرست عمران خاں کہتے ہیں کہ اگر اُنہیں وزیرِاعظم نہ بنایا گیا تو پاکستان نہ صرف دیوالیہ ہو جائے گا بلکہ اُس کے (خُدانخواستہ) تین ٹکڑے بھی ہو جائیں گے۔