1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. کامیابی کی ضامِن

کامیابی کی ضامِن

انسان اگر آسمان پر چھلانگ لگانے کی کوشش کرے تو کم ازکم چھت تک ضرور پہنچ ہی جاتا ہے اور چھت یا دیوار پر کھڑا شخص زمین پر کھڑے لوگوں کی نسبت زیادہ دیکھ سکتا ہے۔ زمین پر کھڑے لوگوں کو دیوار کے اُس پار کچھ نظر نہیں آتا جبکہ دیوار یا چھت پہ کھڑا شخص بہت کچھ دیکھ سکتا ہے اور اب یہ اُوپر والا شخص مان لیں کہ باقی لوگوں سے بڑا ہے کیونکہ وہ اپنی محنت، جدوجہد اور اپنی عادات کے زیرِ اثر سے ہی یہاں تک پہنچا ہے۔ دراصل انسان کی محنت اور اُسکی اچھی عادات ہی اُسے بڑا شخص بناتی ہیں اور بڑا یا کامیاب وہ شخص ہوتا ہے جس کی سوچ بڑی ہو۔ جس کی سوچ میں اپنے لیے اور اوروں کے لیے خیر ہو اس کے علاوہ کامیاب یا بڑے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر یہ تین عادات پائی جاتی ہوں۔ حوصلہ یا ہمت، عہد و قول، اور جذبہ یا خود اعتمادی۔

بڑے لوگوں یا کامیاب لوگوں کے اندر سب سے پہلی جو خصلت پائی جاتی ہے وہ کسی بھی کام کو کر گزرنے کی ہمت یا حوصلہ کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی پایا جاتا ہے کہ میں یہ کام کر لوں گا۔ وہ کوئی بھی کام ہو سکتا ہے اسکول، کالج کی فتح حاصل کرنا ہو سکتی ہے۔ کسی کاروبار کا سوچ لیا اب اُس کاروبار کو شروع کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے۔ المختصر کوئی بھی ارادہ ہوسکتا ہے۔ ایسے لوگ جب بھی کوئی ارادہ کر لیتے ہیں تو وہ ارادے کو ممکن بنانے کے لیے پختہ یقین بھی کر لیتے ہیں، پختہ یقین ایک ایسی دولت ہے کہ جس کے پاس یہ دولت ہو اُس کی منزل خود اُسے چیخ چیخ کر پکارتی ہے کہ تم مجھے حاصل کر سکتے ہو اور اگر یقین میں کمی ہو تو منزل ریت کا پہاڑ ہوتی ہے جونہی تیز آندھی طوفان چلا تو اُس کی منزل نگاہوں سے اوجھل، اگر یقین پختہ ہو تو راہوں کی دشواریاں بھی منزل کا پتہ دیتی ہیں پھر وہ اپنی راہ پر لگا رہتا ہے اُسے صبح شام کی خبر نہیں رہتی ہے اُسے منزل پر پہنچ کے ہی دَم لینا ہوتا ہے۔

دوسری خوبی کامیاب لوگوں کے اندر یہ ہوتی ہے کہ جب انہوں نے کسی شخص کے ساتھ کوئی زبان یا کوئی معاملہ طے کر لیا ہوتا ہے وہ اپنی زبان، وقت اور تاریخ کے پکے ہوتے ہیں انہوں نے ہر صورت کی گئی زبان یا عہد کو پورا کرنا ہے یہ عہد لوگوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اللہ کے ساتھ بھی اور اپنے ساتھ خود بھی ہو سکتا ہے مثلاً جب وہ کوئی ہدف بنا لیتے ہیں یا کچھ کر گزرنے کا سوچ لیتے ہیں اب اُن کو ہر ممکنہ کوشش سے وہ ہدف مکمل کرنا ہوتا ہے وہ جب تک اُس متعلقہ ہدف کو پہنچ نہیں لیتے اُن کو آرام یا سکون حاصل نہیں ہوتا ایسے لوگ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دَم لیتے ہیں۔

اگر تیسری خوبی کی بات کی جائے یعنی خود اعتمادی کی، یہ خودی انسان میں تب ہی داخل ہو سکتی ہے جب اُس میں مندرجہ بالا دو خصوصیات پائی جاتی ہوں مثلاََ حوصلہ اور عہد و قول کا پکا ہونا۔ جب یہ دو خوبیاں انسان میں ہوں۔ تو تب یہ تیسری خوبی، خودبخود انسان میں داخل ہو جاتی ہے اور خود اعتمادی تعلیم و تربیت کا اثر ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو ایک جیسے ہی کام سے بار بار حتی کہ سو بار سے بھی زیادہ بار گزارتا ہے تب خود اعتمادی کا پرندہ بڑا ہونے لگتا ہے اپنی پرواز کے قابل ہونے لگتا ہے، اب کام کو بار بار دہرانا کسی کے حکم پر نہ ہو کسی مجبوری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اپنے شوق سے، اپنی تڑپ، لگن اور دلچسپی سے ہو نہ کہ کسی کے خوف اور ڈر سے، ورنہ خود اعتمادی کے پرندے میں اُڑنے کا شعور بیدار نہیں ہوگا اور اگر آپ نے نقل کر کے مجبوری کے باعث اُڑنا سیکھ بھی لیا تو آپ کی پرواز دیر پا نہیں ہو گی آپ زیادہ اُنچا نہیں اُڑ سکو گے جلد ہی آپ تھک جاؤ گے، ہار جاؤ گے، خود اعتمادی کے لیے شوق اور دلچسپی کا ہونا ضروری ہے، دھیان یا توجہ ضروری ہے اور بار بار کی مشق ضروری ہے، جب بھی، کسی بھی کام کو کرنے سیکھنے کے لیے آپ اُس کام کو فالتوں وقت دینے لگتے ہو اپنی خوشی سے اور جب آپ اُس کام میں کھانے پینے اور دیگر ضروری کاموں کو بھولنے لگتے ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ آپ کے شوق اور دلچسپی کی علامت ہے اور جب شوق پیدا ہو جائے تو دھیان اور توجہ خود بخود بڑھنے لگتی ہے اور یونہی کرتے کرتے آپ اُس کام میں مکمل شعور کو پا لیتے ہو اور بڑا جذبہ یا بڑی خوداعتمادی، بڑی کامیابی کی ضامِن ہوتی ہے۔