1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. بول تو اثر رکھتے ہیں

بول تو اثر رکھتے ہیں

بول کیسے بھی ہوں محبت سے لبریز یا عداوت سے بھرے ہوں وہ اپنا کچھ نہ کچھ اثر آپ کے باطنی نظام پر ضرور چھوڑ جاتے ہیں، بولوں کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے، کوئی بھی بات، کوئی بھی بول مطلب سے خالی نہیں ہوتا حتی کہ جانوروں کے بولنے کا بھی کچھ نہ کچھ مطلب ضرور ہوتا ہے مثلا۔ کتا اگر آپ کو مخاطب کر کے بھونکتا ہے تو اس کے بھونکنے کا بھی کچھ نہ کچھ مطلب ہوگا اور اس کے بھونکنے کا آپ پر کچھ تو اثر ہوگا، زیادہ نہیں تو کم ازکم اتنا اثر ضرور ہوگا کہ آپ وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو جاؤ گے۔ اسی طرح بکری بھی اپنے بولوں سے یعنی مے مے کرکے اپنے مالک کو کوئی پیغام دے رہی ہوتی ہے جو کہ بکری کا مالک ہی سمجھ رہا ہوتا ہے، اب جانور کو چارے کی ضررت ہے اسی طرح دیگر جانوروں کے بولوں کا بھی کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے وہ الگ بات ہے کہ ہمیں اتنا شعور نہیں ہے کہ ہم ان کی آوازوں کو ان کے بولوں کو سمجھ سکیں۔

والدین کے بول بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتے ہیں، والدین اور گھر کے بڑوں کے بولوں سے ہی بچوں کی شخصیت بنتی ہے، ولی کے بولوں سے روحانیت ملتی ہے، درویش کی بات باتوں کی درویش ہوتی ہے، بزرگوں اور اساتذہ کے بولوں سے تعلیم و تربیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان چونکہ مختلف مزاجوں سے بنا ہوا ایک گھر ہے اور ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا گھر محفوظ رہے اور جونہی کوئی بول آپ کی مرضی یا مزاج کے خلاف آیا، تو گھر کی دیواریں لرزنے لگتی ہیں اور آپ ہر ممکن کوشش کر کے اپنے گھر کو بچا لیتے ہیں کیونکہ آپ کو اپنے مختلف مزاجوں سے بنے ہوئے گھر سے بہت الفت اور محبت ہوتی ہے۔ ہر انسان کا مزاج دوسرے سے الگ ہے اور ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق ہی بولتا ہے اور جب بندہ بولتا ہے تو اس کے بول سامنے والے شخص پر اثرانداز ضرور ہوتے ہیں اور سننے والا شخص جس قدر حساس ہوگا اسی قدر آپ کے بول اس کے دل و دماغ میں اپنا گھر کر جائیں گے، ہاں بندے کی حساسیت اس کی پاک دامنی، صاف گوئی اور سچائی کی علامت ہوتی ہے، جس میں یہ عناصر جس قدر زیادہ پائے جائیں گے اس کا قلب اسی قدر موم ہوتا جائے گا اور جن کا دل موم نما نرم ہوتا ہے ان پر مزاق سے بولے گئے بول بھی بہت اثر رکھتے ہیں، جو جتنا گہرا ہوگا وہ اتنی ہی گہرائی سے آپ کے بولوں کو لے گا۔

بادشاہ اپنے محل سے بہت خوش خوش باہر نکلا وزیر کہنے لگا آقا آج بڑے خوش ہیں ہاں خوش تو ہوں، وزیر، حضور ہمیں بھی بتا دیں کیا بات ہے، بادشاہ کہنے لگا، خوش تو ہوں اور آج کا سارا دن اسی طرح خوش خوش ہی گزرے گا چاہے جو بھی ہو جائے چونکہ بادشاہ کے کانوں سے کچھ ایسے بول ٹکراے تھے کہ جن بولوں نے بادشاہ کے دِل کی کیفیت کو سازگار بنا دیا تھا خیر بادشاہ بولا تم جانے دو اس بات کو اور جلدی سے میرے ساتھ چلو، ہم سفر پر جانے لگے ہیں، وزیر بادشاہ کے ساتھ سفر پر چل پڑا راستے میں بہت طریقے آزماے بات کو اگلوانے کے مگر بےسود بالآخر وزیر بولا حضور آپ نے کہا ہے، چاہے کچھ بھی ہو جائے میں آج افسردہ نہیں ہونے والا۔ اگر آپ جان کی امان دیں تو میں آپ کو افسردہ کردوں گا، بادشاہ کہنے لگا اچھا تو چلو، کر لو کوشش، راستے میں ایک ندی آئی جسے کشتی سے عبور کرنا تھا وزیر کہنےلگا بادشاہ سلامت اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم کشتی میں اور بھی چند لوگوں کو بٹھا لیتے ہیں ویسے بھی ہم خالی ہی جا رہیں ہیں کسی اور کا بھی بھلا ہو جائے گا، بادشاہ کہنے لگا ضرور، تھوڑے ہی انتظار کے بعد چند لوگ آ گئے اور ان کو بھی کشتی میں بٹھا لیا گیا جب کشتی ندی کے بالکل درمیان میں پہنچی تو وزیر بولا، حضور آپ کو معلوم ہے وہ شریف کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے یہ سننا تھا کہ بادشاہ کا رنگ یکدم سے اڑ گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر پریشانی سے رکھ لیا اور جلد ہی کشتی کنارے پر جا لگی مسافر کشتی سے اتر کر منتشر ہو گئے، وزیر بولا حضور کہا تھا کہ آپ کو میں کسی بہانے سے افسردہ کر ہی دوں گا، چلیں اب آپ پریشان مت ہوں میں نے مزاق کیا تھا شریف کی بیٹی نہیں بھاگی وہ اپنے گھر ہی ہے، بادشاہ کہنے لگا نہیں اس کی بیٹی واقعی بھاگ گئی ہے، وزیر، حضور کہا، نا آپ سے مزاق کیا تھا ایسی کوئی بات نہیں ہے، باشاہ کہنے لگا کہ تم نے بنا سوچے سمجھے بول، بول دیئے ہیں، اس کی بیٹی واقع بھاگ چکی ہے، تم کس کس کو جا کر بتاؤ گے کہ تم نے مزاق کیا تھا، تم نے بہت بڑی تہمت لگا دی ہے اپنے بولوں سے کسی کی بیٹی پر، ہر والدین اپنی بیٹیوں کے تعلق اور معاملے میں شریف ہوتے ہیں اور عورت ذات کے پاس صرف اپنی عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔

عورت کا معاملہ معاشرے میں اسقدر نازک ہے کہ نہ پوچھیں، ایک عورت اگر بدفعلی کے جرم میں نا بھی ہو، اس پر اگر بدفعلی کی تہمت ہی لگ جائے تو یہ اس عورت اور اس کے خاندان کے لیے بہت برا ہوتا ہے اب تہمت لگانے کے لئے بھی بول ہی بولے جاتے ہیں اور لوگ اس بات کو نہیں بھولتے حتی کہ یہ تو فقط بول ہی تھے مگر بولوں نے کسی کا گھر اجاڑ دیا اور وہی عورت جب تک کہ قبر میں نہ چلی جائے بلکہ لوگ پھر بھی نہیں بھولتے اور مزید تباہی کے بول بولتے ہیں کہ یاد ہے فلاں کی فلاں کا کیا معاملہ تھا، اللہ معاف فرمائے، اللہ ہر عورت کی جوانی کو بےداغ رکھے، تہمت اور بدفعلی سے محفوظ فرمائے، اس کو حیا اور پردہ داری کی دولت عطا فرمائے۔ خیر آپ کے بول اوروں پر یا اوروں کے بول آپ پر، ہم پر اثر ضرور رکھتے ہیں، میٹھے بولوں پر لوگ خود کو قربان کرنے پر بھی آجاتے ہیں اور کڑوے بولوں کے سامنے لوگ بھی زہر اگلنے لگتے ہیں آخر کیوں؟ ہیں تو فقط بول ہی، چونکہ بولوں کی تاثیر ہوتی ہے اس لئے، اور یہ بول ہی ہوتے ہیں جو دل و دماغ اور آپ کے وجود پر اثر ڈالتے ہیں، جونہی تیر کمان سے نِکلا آپ کے بولوں سے سامنے والے کا مزاج بدلنے لگتا ہے اور اِن بولوں کے عوض، آپ اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اچھا بولیں جب آپ اچھا بولنے لگو گے، آپ کو اچھا سننے کو ملنا شروع ہو جائے گا اور اچھا بولنا، میٹھا بولنا تو اخلاق کی علامت ہے اور اخلاق تو رسول اللہ ﷺ کی اعلی سنت ہے، اس سنت کے انگنت فوائد ہیں یعنی میٹھا اور اچھا بولنے والے سے لوگ محبت کرنے لگتے ہیں اور اس کا حلقہ احباب بڑھنے لگتا ہے اس کی تعریف ہونے لگتی ہے۔ میرا ایک دوست اکثر مجھے کہتا ہے کہ میری والدہ کہا کرتی ہیں، بیٹا اگر آپ کسی کو گڑ نہیں دے سکتے تو کم ازکم گڑ جیسی میٹھی بات، میٹھا بول تو دے دیا کرو، اللہ آپ کو اور مجھے اخلاق کی دولت عطا فرمائے اور وہ میٹھے بول بولنے والا بنا دے کہ جو ہمیں اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت نصیب فرما دیں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔