1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. موم کی طرح

موم کی طرح

جب میں نے ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا، جب میں نے بیماری سے لڑتے ہوئے شخص کو دیکھا، جب میں نے دولت مندی سے غربت کی جانب سفر کو دیکھا، جب میں نے قیمتی شے کے کھو جانے کو دیکھا، جب میں نے حاکم کو محکوم بنتے دیکھا، جب میں نے طاقت کے باوجود کمزوری کو دیکھا، جب میں نے خوشیوں کے موسموں کو غم میں بدلتے دیکھا، جب میں نے لمبی منصوبہ بندی کرنے کے باوجود کندھوں پر اٹھتے ہوئے شخص کو دیکھا، جب میں نے اچانک سے خوشی کے لفافے میں غم کی لہر کو دیکھا، جب میں نے محبت کو نفرت میں بدلتے دیکھا، اس کے علاوہ کئی اور دیگر امور کو دیکھا جس میں انتہا پستی کی جانب لوٹتی ہے تو تب جا کر ایک انسان کی صحیح معنی میں آنکھ کھلتی ہے پھر اس شخص کا دل موم کی طرح نرم ہو جاتا ہے، ایسے شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ میری ذات سے کسی بشر تو کیا جانور کو بھی تکلیف نہ پہنچے اور جس قدر آسانیاں ممکن ہوں میری وجہ سے اوروں کو ملیں کیونکہ جب آنکھ کھلتی ہے تو یہ راز بھی کھل جاتا ہے کہ کل کی خبر نہیں پل کی خبر نہیں، کبھی عروج تو کبھی ذوال یہی زندگی کی اصل ہے، حقیقت سے آشنا ہونا یہی بڑی کامیابی ہے، ایسے لوگ جو جان جاتے ہیں، جو سمجھ جاتے ہیں انکی مثال ندی نالے، سمندر یا جھیل کے کنارے سے ملنے والے اس پتھر کی طرح ہوتی ہے۔ جن سے لوگ محبت کرتے ہیں اور لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے پتھروں کو وہ اٹھا کر اپنے ساتھ گھر لیں جائیں۔

جب اس پتھر سے کسی نے پوچھا کہ میاں آخر آپ میں ایسی کیا بات ہے کہ لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں لوگ اٹھا اٹھا کر آپ کو اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں، اس پتھر نے جواب دیا کہ بات دراصل یہ ہے، میں ایک نوکیلے پہاڑ کا حصہ تھا اور لوگ مجھ سے اپنے دامن کو بچا بچا کر چلتے تھے اتفاق سے میں ایک دن ٹوٹ گیا اور وہاں سے پیروں کے تلے کچلتےکچلتے ایک دریا میں جا گرا اور دریا میں پھر مجھے مزید دھکے لگتے رھے، پھر میں ایک چھوٹی ندی میں جا گرا اور بالآخر پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلتے چلتے میں ندی کے کنارے پر جب پہنچا تو میرے وجود پر جو نوکیلے اور خاردار اثرات تھے وہ سب کے سب مٹ چکے اور دھکے لگ لگ کر میرے وجود سے تکبر کی ساری نشانیاں نکل چکی اور میں آج اسقدر نرم ہو چکا ہوں کہ موم کی طرح، اب مجھ سے لوگ محبت کرنے لگے ہیں ہاں مجھے ملنے والی اس محبت کے پیچھے اک لمبا سفر ہے جو مجھ پہ بیتا ہے اورہر لگنے والے دھکے کے بدلے، میں بہتر ہوتا چلا گیا ہوں۔ انسان کا حسن بھی یہی ہے کہ جب اسے راہ سے کانٹا چبھتا ہے تو وہ درد کی کیفیت کو لے کر راہوں کو، رستوں کو صاف کرنے لگ جاتا ہے کہ چبھنے والا کانٹا اب کسی اور کو نا چبھے اور یہی اسلام کا حسن ہے جو ہمیں ہمارے آقا و رسول ﷺ نے سکھایا ہے۔ یاد رکھیں جو عمل بھی آپ فرشی نظام پر کرتے ہو خیر کا ہو یا شر کا ہو وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتا، اس کا صلہ آپ کو ضرور مل کر رہتا ہے چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ کا صلہ اس قدرت والے رب نے آپ کو دینا ہے اور ہاں صبر، شکر اور توبہ ان دونوں نظاموں کے اندر بھی بہت طاقت ہے۔ توبہ آپ کو پاک صاف کر دتی ہے اور موم کی طرح نرم بنا دیتی ہے اور صبر، شکر کی کیفیت آپ کو مذید اللہ تعالی کے قریب کرتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ انسان جب بھی بدحال ہوا یا جب بھی انسان کو تکلیف پہنچی ہے تو اس کے پیچھے بنیادی دو ہی وجوہات ہمیشہ بنی ہیں ایک یہ کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی ہو سکتی ہے اور یہ جو اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اس کا سفر لمبا ہوتا ہے اگر سفر مختصر بھی ہو تو بدنامی کا داغ مٹنے کو نہیں آتا اور ایسے شخص کو دوبارہ اس کا کھویا ہوا مقام نہیں ملتا وہ اپنے تعارف کو لوگوں کی زبانوں پر ڈھونڈتا پھرتا ہے مگر بےسود، جب تک کہ وہ سچے دل سے معافی نہ مانگ لے اور توبہ نہ کر لے، بات نہیں بننے والی ہے ورنہ پھر وہی اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ہو گا۔ دوسری وجہ تکلیف کی یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی آزمائش ہے بندے پر اور آزمائش جب بھی انسان کو آتی ہے ایسی حالت میں انسان گو کہ تکلیف کے دور سے گزرتا ہے مگر اندر ہی اندر ایک سکون کی لہر بھی متواتر چلتی رہتی ہے کہ یہ تکلیف کا دور جلد ختم ہو جائے گا اور جب بندے کی یہ تکلیف یا آزمائش ختم ہوتی ہے تو اس کے لیےبعد کی راہیں بہت ہموار اور آسان ہوجاتی ہیں اور ایسا شخص بعد کے دور میں پہلے سے زیادہ عظیم اور بڑا بن جاتا ہے۔

اس کے برعکس عام معمولاتِ ذندگی میں جب انسان انتہا کو پہنچ چکا ہوتا ہے تو وہ الگ تھلگ زندگی گزار رہا ہوتا ہے اسے اپنے قریب کے لوگوں کی پریشانیاں نظر نہیں آتی اگر نظر آ بھی جائیں تو وہ توجہ دینے کی زحمت نہیں کرتا وہ اپنی ہی صبح اپنی ہی شام میں رہتا ہے، تب اللہ ایسے شخص کی ڈور کو ہلکا سا کھینچتا ہے تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اس کو اپنی انتہا، پستی کی جانب لوٹتی نظر آتی ہے ایسا شخص پھر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں صبر شکر کی کیفیت میں ہی رہنا چاہیے، کیونکہ یہی سچ ہے، یہی حقیقت ہے پھر ایسا سورج انتہا کو پہنچ کر، ایسا شخص صحتیابی میں رہ کر، دولت اور قیمتی شے کے ہوتے ہوۓ بھی المختصر ہر عروج کے ہوتے ہوۓ بھی وہ اپنی اصل اوقات میں ہی رہتا ہے کہ میں مٹی ہوں اور بلآخر مجھے مٹی ہی ہونا ہے اسکا مزاج موم کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور جب دماغ میں ایسا خیال چل رہا ہو تو زندگی بڑے سکون سے گزرتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو میرا ہے وہ حقیقت میں میرا نہیں آپ کا ہے، دوسرے کا ہے کسی اور کا ہے اور مجھ پر بس یہ ایک امتحان ہے۔ اللہ آپ کو اور مجھے اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت نصیب عطا فرمائے۔