1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. سوچ کے انداز

سوچ کے انداز

انسان کے دماغ پر ہمہ وقت مختلف خیالات آتے رہتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق انسان کو ایک دن میں کم و بیش ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں ان سب کے سب آنے والے خیالات پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا مگر ان سب میں سے وہ چند خیالات جن پر آپ دانستہ یا غیردانستہ توجہ دینے لگتے ہیں جب آپ کی ایسے خیالات پر توجہ بڑھنے لگتی ہے تو وہی خیالات قوی ہو جاتے ہیں اور ایسے خیالات آپکی آنکھوں کے سامنے کوئی تصویری شکل اختیار کر جاتے ہیں ایسے خیالات کو سوچ کہتے ہیں یعنی وہ کم و بیش خیالات جو آپ کے دماغ پر مسلسل یا عموماَ چلتے رہتے ہیں ایسے خیالات کو سوچ کہتے ہیں۔

اللہ نے انسان کو سوچ عطا کر کے باقی تمام مخلوقات سے اشرف بنا دیا ہے چونکہ ایک انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو سوچتی ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہیں، کچھ مخلوقات صرف اپنی متعلقہ ذمہ داری نبھا رہی ہیں کچھ کے اندر جس قدر مزاج رکھ دیا گیا وہ بس اُسی قدر اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں مثلاَ شیر کے مزاج میں شکار کرنا اور گوشت کھانا ہے۔ اِسی طرح بکری کے مزاج میں گھاس کھانا ہے ناکہ گوشت کھاناہے۔ شروع دن سے باقی کی تمام مخلوقات اپنے اپنے فریضے یا مزاج کے مطابق زندگیاں گزار رہی ہیں صرف ایک انسان ہی ہے کہ جو شروع دن سے اب تک بدلتا آرہا ہے۔ کہیں زمین کے اندر گُھس گیا کبھی سمندر کی تہہ میں چلا گیا، کبھی خلا میں اُڑ رہا، کبھی ستاروں پر ڈھیرے ڈال لیۓ۔ اس کے برعکس شیر کا مزاج وہی ہے جس مزاج کے ساتھ وہ پیدا ہوا تھا آج کے جدید دور کے شیر نے ایک پل کے لیۓ بھی نہیں سوچا کہ میں جنگل سے نکل کر کہیں شہر کی تفریح کر آوں اور جدید دور کا کوئی پیزا، برگر کھا لوں یا کم ازکم جنگل میں رہتے ہوۓ آج پھل کھا لیۓ جاۓ نا بابا نا ایسے ہی تمام مخلوقات اپنے اپنے مزاج کے مطابق چل رہی ہے بس بدلا ہے تو ہر دور میں فقط انسان بدلا ہے اور وہ بھی سوچ جیسی عظیم طاقت کو لے کر۔

سوچ سے عادات اور عادات سے سوچ بنتی ہے۔ سوچ کے انداز مختلف مختلف ہوتے ہیں یہی سوچ کسی کے دماغ سے بہت سوں کو نفع دے جاتی ہے اور یہی سوچ کسی کی کھوپڑی سے نکل کر منفی اثرات معاشرے میں دِکھا جاتی ہے۔ سوچ کے اندر بہت طاقت ہوتی ہے چونکہ اللہ کہتا ہے کہ میں بندے کے گمان کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں یعنی سوچ کے ساتھ۔ اب جیسی آپ کی سوچ ہوگی ویسی آپ تدبیر کرو گے اور تدبیر کے مطابق نتیجہ ہوگا۔ سوچ ایک باطنی نظام ہے اور اس میں اسقدر طاقت ہے کہ الله تعالی فرماتا ہے۔ مفہوماً عرض کرتا ہوں، میرا بندا جیسا سوچتا ہے ویسا بولتا ہے جیسا بولتا ہے ویسا کرتا ہے اور جیسا کرتا ہے ویسا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اب ہونا شروع ہو جاتا ہے یہ کہاں سے شروع ہوا ہے آپ کی سوچ سے چونکہ اللہ فرماتا ہے۔ مفہوماً میرا بندا جب کسی کام کو کرنے کا پکا ارادہ کر لیتا ہے مصمم ارادہ کر لیتا ہے کسی کام کو کرنے کا تو کائنات کا ذرا ذرا حرکت میں آجاتا ہے اور اِس چاہ میں لگ جاتا ہے کہ اِس بندے کا ارادہ کیسے ممکن ہو۔ اب اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی ہے آپ کی سوچ سے اور سنیں امیر غریب کوئی نہیں ہوتا جس کی سوچ بڑی ہے وہ امیر اور جس کی سوچ چھوٹی ہے وہ غریب ہے، جس کی سوچ میں اللہ کی مخلوق کے لیۓ خیر ہے، بھلائی ہے وہ نیک اور جنتی ہے جس کی سوچ میں اللہ کی مخلوق کے لیۓ شر ہے، بدی ہے وہ گناہگار شخص ہے اور جہنمی ہے۔

اللہ آپ سے اور مجھ سے ہمیشہ راضی رہے۔ ہاں جب اللہ کسی کے ساتھ بھلائی کا اردہ فرماتا ہے تو سب سے پہلے اُس کی سوچ کو بدلتا ہے اس کی سوچ کو مثبت فرما دیتا ہے اور اس کی سوچ میں ایسی تحریک پیدا کر دیتا ہے کہ اس بندے کی سوچ، فکر، گمان اور اس کے کاموں سے اللہ کی مخلوق کو نفع ہونے لگتا ہے اور سوچ کے بدلنے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ بندے کی تنہائی پاک ہونے لگتی ہے۔ جس شخص کی تنہائی جس قدر پاک ہوتی ہے اس شخص کا باطن بھی اُسی قدر پاک ہوتا جاتا ہے جب آپ کے اندر کی سوچ، آپ کے باطن کی تحریک اعلیٰ ہونے لگتی ہے، پاک ہونے لگتی ہے تو پھر آپ کی تنہائی کا باطنی نظام اللہ لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے اور آپ کی تعریف ہونے لگتی ہے، اِس سفر کا آغاز بھی آپ کی سوچ کے انداز سے ہی شروع ہوا تھا۔ میرا رَبّ آپ کی اور میری سوچ میں اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت پیدا فرما دے۔