1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. مجھے باندھنے والے چلے گئے ہیں

مجھے باندھنے والے چلے گئے ہیں

دونوں بھائی اپنے والدین کے ساتھ خوشی خوشی رہ رہے تھے۔ والدین جو کہ عمر رسیدہ تھے انکی خواہش تھی کہ دونوں بیٹوں کی ایک ساتھ ہی شادی ہو جائے اور وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ خیر وہ وقت بھی آ ہی گیا کہ دونوں بیٹوں کی ایک ساتھ ہی شادی کروا دی گئی۔ شروع شروع میں تو معاملات بہت اچھے چل رہے تھے۔ اگر ایک بھائی کو مزدوری نہ ملتی تو دوسرے بھائی کی مزدوری سے بھی گھر کا چولہا جلتا رہتا تھا۔ مگر دونوں بھائیوں کی بیگمات کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ بات بات پر ایک دوسرے کے خلاف بولتی رہتی تھیں۔ اگر بیگمات کی وجہ سے گھر میں چھوٹی موٹی لڑائی ہو بھی جاتی تو ساس سُسر اپنی حکمتِ عملی سے ان دونوں میں محبت سے صُلح کروا دیتے تھے۔ خیر وقت گزرتا رہا بڑے بھائی کو اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں عطا کی۔ اِسی طرح چھوٹے بھائی کو بھی اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

ایک دن اچانک سے ابا کی طبیعت خراب ہوئی۔ علاج کی غرض سے شہر لے جاتے ہوئے ابا نے رستے میں ہی دَم توڑ دیا، ابا کے کفن دفن کےبعد اُنکی اماں اور زیادہ پریشان رہنے لگی ایک تو شریکِ حیات کے جانے کا غم تھا دوسرا گھر کی بےجا تُو تڑاک سے بھی تنگ آ چُکی تھی اور چھوٹے بیٹے کا کام کاج بھی بالکل نہ تھا اِس لئے بھی اماں زیادہ پریشان رہنے لگی۔ اور گھر کے شورشرابوں سے بھی تنگ سی آ چکی تھیں۔ بڑا بیٹا کام کرتا اور گھر کا نظام چلتا تھا۔ مگر اب بڑا بیٹا بھی اپنی بیوی کی باتوں میں مکمل آ چُکا تھا کہ جیسے آپ نے ہی سارے گھر کو پالنے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے جبکہ آپ کا چھوٹا بھائی مجال ہے کہ کوئی کام کرنے کو تیار ہو۔ خیر ابا کےجانے کہ بعد جلد ہی اُنکی اماں کی طبیعت بھی اچانک سے خراب ہوئی۔ درد کے آرام کی دَوا لی اور رات کو سوگئی مگر ایسی سوئی کہ پھر کبھی آنکھ ہی نہ کھولی۔

ماں کا جانا تھا کہ بڑے بھائی کی بیگم نے بات بات پر اپنے دیور کو ٹوکیں مارنا شروع کر دی اور جب دیور گھر پہ موجود نہ ہوتا تو اُسکی بیوی اور بچوں پر ظلم بھی کرنے لگی۔ چھوٹے بھائی نے دو چار دفعہ اپنے بڑے بھائی کو سمجھانے کی کوشش تو کی مگر بے فاہدہ۔ خیر ظلم بڑھتا گیا اور بالآخر چھوٹا بھائی تنگ آکر اپنے بیوی بچوں کو لیا اور گھر کو چھوڑ کر قریب ہی ایک جنگل میں چلا گیا۔ رہنے کے لیے جلدی سے ایک جھونپڑی لگا لی۔ اپنے بیٹے کو بھیجا کہ جاؤ اور جا کر لکڑیاں لے کر آؤ۔ بیٹا باپ کا حکم سنتے ہی ایک سِمت کو چل دیا اِدھر دونوں چھوٹی بیٹیوں کو کہا کہ جاؤ اور کہیں سے پانی لے آؤ۔ دونوں بیٹیاں بھی باپ کا حکم سُنتے ہی ایک سمت کو چل پڑی، بیوی قریب پڑے ہوئے بھبھڑ یعنی تنکوں کو لا لا کر اپنے میاں کو دینے لگی اور وہ خود اُن تنکوں کو باندھنے لگا کہ رات کے بِچھونے کا سامان تیار ہو سکے۔ اتنے میں ایک خوبصورت چڑیا درخت پر آ بیٹھی۔ اُس چڑیا نے کہا کہ اے بندے کیا کر رہے ہو؟ بندے نے جواباً کہا کہ میں تمہیں باندھنے کا سامان تیار کر رہا ہوں۔ چِڑیا گھبرائی اور کہنے لگی خُدا کے لیے مجھے مت باندھنا۔ فُلاں جگہ پر ایک پرندے کا گھونسلہ ہے اُس میں سونا پڑا ہوا ہے۔ آپ وہ لے لو اور مجھے باندھنے کا سامان چھوڑ دو۔ وہ شخص چڑیا کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ واقعی اُس گھونسلے میں سونا پڑا ہوا ہے۔ اُس نے وہ سونا اچھی قیمت پر فروخت کر دیا اور ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا۔ اور بیوی بچوں کو لے کر اپنے نئے گھر منتقل ہو گیا۔

اب کیا تھا کہ اُس نے اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار بھی شروع کر دیا اور دِن رات بدلتے رہے۔ بدلتے دِن راتوں کے ساتھ اُس کے حالات بھی بدلنے لگے۔ ادھر اُس کی بھابی اور بھائی کو جب خبر ہوئی کہ کیسے راتوں رات اُن کے دِن اچھے آگئے ہیں۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ جب بڑے بھائی اور بھابی نے تحقیق کی تو اُن کو سارے حالات معلوم ہو گئے۔ بڑے بھائی نے سوچا کہ ہم بھی ویسا ہی کرتے ہیں تاکہ ہم بھی امیر ہو جائیں۔ خیر بڑا بھائی بھی اُنہی راستوں پر سے چلتا ہوا اُسی جنگل میں ٹھیک اُسی مقام تک جا پہنچا۔ ایک جھونپڑی لگائی اور ویسے ہی اپنے بیٹے سے کہا کہ جاؤ اور لکڑیاں لے کر آؤ۔ بیٹے نے کہا کہ کہاں سے لاؤں مجھے تو پتہ ہی نہیں ہے۔ بیٹے کا انکار تھا کہ بیٹیوں سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور پانی لے آؤ۔ بیٹیوں نے بھی حسبِ معمول جواب دیا کہ ابا جی ہم کہا سے لائیں پانی؟ ہمیں تو پانی کی جگہ ہی معلوم نہیں۔ پھر بیوی سے کہا کہ جاؤ اور تنکے تلاش کر کے لاؤ۔ بیوی نے بھی اپنے میاں کی بات سُنی اَن سُنی کر دی۔ خیر خود ہی تنکوں کو باندھنے لگا کہ رات کے بِچھونے کا سامان تیار ہو سکے۔ اتنے میں ایک خوبصورت چڑیا شاخ پر آ بیٹھی۔ چڑیا نے کہا کہ اے شخص کیا کر رہے ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ میں تمہیں باندھنے کا سامان تیار کر رہا ہوں۔ چڑیا نے جواباً کہا کہ میاں تم پہلے اپنے گھر کو تو باندھ لو۔ پھر مجھے باندھنا۔ مجھے باندھنے والے چلے گئے ہیں۔

وہ شخص مایوس ہوا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر واپس اپنے گھر چلا گیا اور دِن رات اُسی شور میں ہی رہنے لگا۔ ادھر چھوٹے بھائی کے حالات روز بروز بہتر ہوتے رہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزارنے لگا۔ فرق کہاں تھا؟ دونوں بھائی ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے برابر تھے۔ فرق نیت کا تھا، فرق بے اتفاقی اور ادب و احترام کا تھا۔ فرق سب کچھ نظر آنے کے باوجود اندھاپن کا تھا۔ یاد رکھیں کثرت کے پیچھے مت بھاگیں بلکہ برکت کے متلاشی بنیں۔ جو تھوڑے پر شکر کرتا ہے اُسے مزید عطا کیا جاتا ہے اور جو نہ ہونے پر یا چِھن جانے پر صبر کرتا ہے اللہ اُس سے راضی رہتا ہے۔ اور اُس کے لئے رزق کا غیب سے بندوبست فرماتا ہے۔ اور وہ شخص تو کمال ہے جو صبر کے مقام پر شُکر کو پا جائے۔ واہ۔ ایسے شخص کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ صبر اور شُکر دونوں پہ اجر ہے مگر صبر کے مقام پر شُکر عجب ہے بلکہ عجب کائنات ہے، عجب منظر ہے۔ صبر کے مقام پر جس کو شُکر کے بول عطا ہو جائیں تو سمجھ جائیں کہ ولایت کی پہلی کھڑکی کُھل چکی ہے۔

خیر والدین کی بزرگوں کی، استاد اور دیگر بڑوں کی بات سُنا کریں اور ان کا کہا مانا کریں۔ ورنہ یاد رکھنا یہ کائنات مکافاتِ عمل کا نام ہے۔ جو دو گے وہی پلٹ کر واپس آئے گا۔ خوشی دو گے خوشی ملے گی۔ غم دو گے تو غم کو سہنے کے لئے تیاربھی رہنا ہوگا۔ بس یہ ایک ہی کلیہ ہے سیدھا اور آسان سا۔ جو دو گے بدلے میں وہی ملے گا۔ ہاں جو چاہئے اُس کی خدمت میں لگ جاؤ، اس سے محبت کرنے لگ جاؤ ضرور آپ پر عطا ہو گی۔ تقسیم کرنے سے، بانٹنے سے، دولت اور محبت دونوں بڑھتی ہیں۔ خوشی بھی بڑھتی ہے اور سکون بھی ملتا ہے۔ ایسا سکون کہ بس برکت ہی برکت۔ اور مِل جُل کر رہنے میں تو زیادہ اور بڑی برکت ہے۔ مِل جُل کر رہنے سے غم اور خوشی دونوں ہی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ خوشی بڑھ جاتی ہے اور غم کم ہو جاتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے والدین کا حکم اور انکی ہدایات کو سہی معنوں میں ماننے کی توفیق دے چونکہ مان لینے میں ہی خیر ہے، عافیت ہے۔ اللہ ہمیں مِل جُل کر ایک خاندان بن کر رہنے کی توفیق دے۔ ورنہ پھر وہی اِک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور باقی رہے گا۔ اور اللہ اپنی مہربانی سے ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔