1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. قابلِ غور چہرہ

قابلِ غور چہرہ

انسانی چہرے کے متعدد روپ ہیں یہی چہرہ بہت معصوم بھی ہے، ظالم بھی ہے، مکار بھی ہے، خُدا ترس بھی ہے، چہرہ کہیں نفرت بھی ہے تو کہیں یہ چہرہ دِلربا بھی ہے، چہرہ سامنے بھی ہے چہرہ گُم بھی ہو چکا ہے، چہرہ خیال بھی ہے، چہرہ یاد بھی ہے، چہرہ امیر غریب بھی ہے، چہرہ جھوٹ اور سچ بھی ہے، چہرہ تو چہرہ ہے بلکہ چہرہ سمندر ہے۔ ہر ایک چہرے کے ہزارہا نقاب ہوتے ہیں کوئی بھی چہرہ سکوت نہیں سب کے سب چہرے مضطرب ہیں۔ یہی چہرہ ماں سے اور طرح سے پیش آتا ہے، بیوی سے اورلہجہ ہوتا ہے، اِس چہرے کی دوستوں کی دوستی میں ایک الگ روپ ہوتا ہے، یہ چہرہ تنہائی میں اور طرح کا ہوتا ہے ہجوم میں اِس چہرے کی شناخت اور ہوتی ہے، بچوں کے ساتھ اس چہرے کا برتاؤ الگ اور بچوں کا سا چہرہ ہوتا ہے، اجنبی کے سامنے یہ چہرہ بھی اجنبی بن جاتا ہے، مسافرت کے رستوں پر یہ چہرہ بھی مسافر ہوتا ہے، کہیں یہ چہرہ بادشاہ ہوتا ہے، کہیں یہ چہرہ بیکاری کا کشکول ہوتا ہے، ہاں یہ چہرہ عابد بھی ہوتا ہے الغرض یہ چہرہ سمندر سے کم نہیں۔ ہر محفل میں یہ چہرہ الگ ہوتا ہے اِس ایک چہرے کے کئی رنگ ہیں۔ ہر ایک چہرے کی مخبری میں ہزاروں چہرے رہتے ہیں۔

بابا مجھے کہنے لگا پتر میں نے کئی برس بلکہ جوانی سے بڑھاپے تک کا سارا سفر میں نے گھوڑوں کی خدمت اور گھوڑوں کی دیکھ بھال میں لگایا ہے۔ میں گھوڑوں کی ساری نسلوں کو جانتا ہوں، میں گھوڑوں کے مختلف مزاجوں کو جانتا ہوں، میں گھوڑے کی طاقت کو جانتا ہوں، گھوڑا جب میدانِ مقابلہ میں اُترتا ہے تو میں گھوڑے کی چال ڈھال کو دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ کون سا گھوڑا میدان مارے گا۔ کس گھوڑے کی جیت ہوگی۔

کہا کہ پتر میرا اندازہ سو میں سے کبھی ایک یا دو فیصد ہی غلط ہوا ہے ہمیشہ جس گھوڑے کے متعلق میں نے جیسا کہا ویسا ہی ہوا، میں کہتا کہ فلاں گھوڑا جیتے گا وہی جیت کر دکھاتا تھا، میں کہوں کہ فلاں گھوڑا جیت تو جائے گا مگر پھر کبھی میدان میں اُترے گا نہیں یہ گھوڑے کی آخری دوڑ ہے اِس لگن اور اِس جنون کے ساتھ یہ گھوڑا دوڑے گا کہ اِس کا دِل ہی پھٹ جائے گا، جلد ہی مر جائے گا یا پھر کبھی نہیں دوڑے گا ویسا ہی ہوتا رہا ہے۔ بابا کہنے لگا کہ میں گھوڑوں کی پیشانیوں کی رگوں سے بھی گھوڑوں کی طاقت کو بھانپ لیتا تھا، گھوڑوں کے بارے میں بابا جی اپنی تحقیق کو بتاتے بتاتے بالآخر قابلِ ترس اور قابلِ افسوس چہرے سے کہنے لگے۔۔۔ میں انسانوں کے چہروں کو نہیں سمجھ سکا ہوں۔ میں انسانوں کو سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔ انسان کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ پھر ایک شعر کچھ یوں سنایا کہ۔

ظاہر میں تو سبھی بشر ہیں۔۔۔۔۔

حقیقت میں کون کیا ہے خدا جانے۔

پھر مجھے بہت سی باتیں جو کبھی کسی سے سنی تھی، پڑھی تھی سمجھ میں آنے لگی کہ واقع ظاہر میں تو سبھی چہرے ایک سے ہیں۔ سب کی دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک، ایک زبان اور ایک ہی پیشانی ہے مگر پھر بھی سب ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہیں کوئی ایک سا نہیں ہے۔ ہر شخص، ہر چہرہ۔ چاہے جو کچھ بھی ہے مگر قابلِ محبت ہے، خواہ وہ چہرہ آپ کے لیے، میرے لیے بےمعنی ہو مگر کسی کے لیے وہی چہرہ محبت بھی ہو سکتا ہے اور ضرورت بھی ہو سکتا ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ کے مطابق تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور تمام انسان برابر ہیں۔ تو پھر ہم نے کیوں تفریق کر رکھی ہے۔ عہدوں اور قبائل کے حساب سے سب چہرے بڑے چھوٹے بن گئے ہیں۔ مگر بہت سے چہروں سے تو خوف آتا ہے۔ ہم اُن کے قریب بھی نہیں جانا چاہتے ان کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر پھر بھی وہ چہرہ کسی کے لیے قابلِ رحم اور محبت ہو سکتا ہے۔ بہت سے چہروں سے ہم بات کرنے کو ترستے ہیں مگر شاید اُن تک پہنچنے کے راستے ہم کھو چُکے ہیں، ہم راستوں کو بھول چُکے ہیں یا راستوں کے نشان ہی مِٹ چُکے ہیں۔ اب وہ چہرے بس ایک احساس ہیں ہمارے لیے وہ کبھی واپس نہیں آنے والے چونکہ وہ مر چُکے ہیں یا ہمیشہ کے لئے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ مگر پھر بھی اُن سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اُن سے معافی مانگنے کو جی چاہتا ہے۔

کوئی بھی چہرہ حتیٰ کہ آپ کا اپنا چہرہ بھی ہمیشہ آپ کے ساتھ نہیں رہتا اِس کی زندہ مثال آپ خود ہیں۔ آپ اپنے بچپن اور ماضی کے چہروں کو دیکھ کر مسرت کے جہان میں چلے جاتے ہو۔ او ہو چہرہ تو آپ کا تھا مگر وہ چہرہ اب آپ کا نہ رہا۔

چہرے، آپ کے چہرے۔ آپ کے پاس سے گزر جاتے ہیں اور گزرتے ہی رہیں گے۔ سب چہروں کی تقسیم ہو چکی ہے۔ سب چہروں کی مسافرت لکھی جا چکی ہے۔ سب چہرے چھوٹے بڑے بنتے رہتے ہیں۔ سب چہرے امیر غریب ہوتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے جہان میں، چہروں کے جہان میں۔ انسانوں کی بستی میں کچھ چہرے ایسے بھی ہیں اُن چہروں کا ہمیشہ مذاق بنا ہے اور نجانے کب سے بنتا آرہا ہے۔ وہ چہرے وہی ہیں۔ اُن چہروں کو بس آپس کے چہروں میں ہی رہ کر تسلی اور سکون ملتا ہے۔ افسوس کہ چہروں کے سیلاب میں اُن مخصوص چہروں کو کبھی بھی اپنی تقدیر کو بدلنے کا موقع نہیں ملا۔

ہاں قابلِ غور چہرہ خواجہ سرا بہنوں اور بھائیوں کا۔ سب سے پہلے تو میں اپنے اِن قابلِ غور چہروں کو متوجہ کرنا چاہوں گا۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ کے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ خدا اُس قوم کی کبھی حالت کو نہیں بدلتا جس کو اپنی حالت کو بدلنے کا خود خیال نہ ہو۔ یہ بہت بڑا پیغام ہے، یہ بہت بڑی نصیحت ہے، اِس نصیحت کو لے کر آپ لوگوں کو اپنی بنیاد بنانی ہوگی، اپنی شناخت کے لیے قدم اُٹھانا ہوگا، شناخت آپ لوگوں کی موجود ہے، آپ لوگوں کے حقوق مقرر ہو چکے ہوئے ہیں مگر آپ لوگ بھول چکے ہو، یاد کرنا ہوگا دوبارہ۔ آپ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی اپنی پہچان اور اپنے منصب کو دوبارہ پانے کے لیے۔ پہلا قدم اُٹھانا مشکل ہے مگر آپ اُٹھا سکتے ہو، قدم سے قدم ملے گا تو سفر شروع گا اور ہاتھ سے ہاتھ ملتے ملتے آپ طاقت بن جاؤ گے۔

آپ لوگوں کو اپنے لوگوں میں سے ہی اپنا کوئی رہنما بنانا ہوگا جو کہ آپ کے درد کو آپ کے احساس کو قریب سے سمجھ سکے گا۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے کوئی اپنی مرضی سے اپنی تخلیق کے کام کو انجام نہیں دیتا، سب آسمانی نظامِ حکم کے تحت پیدا کیے گئے ہیں، آپ لوگوں کو قابلِ ترس ہونے کے بجائے قابل مدد چہرہ بننا ہو گا اپنے لیے، اپنے گھر والوں کے لیے، اپنے خاندان اور وطنِ عزیز کے لیے۔

خدا کے لیے اپنی ذات پر ترس کر لو۔ ورنہ لوگ تو آپ پر پہلے سے ہی ترس کھا رہے ہیں اور اپنی اپنی مرضی سے کشکول میں بھیک ڈال دیتے ہیں۔ مگر آپ کو ان حالات سے نکل کر اپنی زندگی گزارنی ہو گی۔ آپ کی ترضِ زندگی شریعت بیان کر چکی ہوئی ہے۔ آپ کو بس اپنی ترضِ زندگی کو خود جستجوں کر کے سیکھنا ہو گا اور جب آپ سیکھنے لگو گے تو انشاء اللہ راستے خودبخود کھلتے جائنگے۔

خواجہ سرا میں جو لوگ مردوں کے مشابہ ہیں اُن کو مردوں جیسی زندگی گزارنے اور جو عورتوں کے مشابہ ہیں اُن کو عورتوں جیسی زندگی گزارنے کا حکم اسلام دیتا ہےناصرف زندگی بلکہ تمام زندگی کے احکامات خوشی غمی، شادی بیااور عبادات سب کچھ مردوں سے مشابہت رکھنے والوں کو مردوں جیسی اور عورتوں سے مشابہت رکھنے والوں کو عورتوں جیسی زندگی گزارنے کا حکم ہے۔ ورنہ یاد رکھنا جنت اور جہنم کے فیصلے صرف باقی کے چہروں کے لئے نہیں ہیں بلکہ آپ کے چہرے بھی اِن میں شامل ہیں۔ غور کرنا ہوگا اور اپنے حالاتِ زندگی کو بدلنا ہو گ۔ ایسا ماحول یا ایسی اپنی پہچان بنانی ہوگی کہ آپ لوگوں کی قدر کی جائے۔ آپ کا مقام و منصب ہو۔ مُلک کی دوڑ میں آپ لوگوں کا بھی ساتھ ہو۔ آپ لوگوں کے لئے بھی پاکستان کے ترقیاتی اداروں میں باقائدہ کام ہویا کم ازکم آپ لوگوں کے لئے الگ سے کام کرنے کی پاکستان میں مخصوص جگہوں کا انتظام کیا جائے۔ جہاں پر آپ لوگ آپس میں مل جل کر پرسکون ماحول میں کام کر سکو اور عزت سے روزی روٹی کما سکو۔ ناکہ آپ لوگوں کے طبقے کو صرف بھیک مانگنے اور ناچ گانے تک ہی محدود رکھا جائے۔ اور ادھر آپ لوگ بس جسم فروشی اور دیگر گناہوں کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاؤ۔ ہر روز موت سے پہلےسسکتے سسکتے روز مرتے چلے جاؤ یہ آپ کا اپنی ذات کے ساتھ انصاف نہیں۔ کیوں معاشرے کا ہر دوسرا چہرہ آپ کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتا رہے۔ سنو اپنے حالاتِ زندگی کو بدلنے کی کوشش کرو گے تو تب حالاتِ زندگی بدلے گی۔

باقی کے تمام چہروں کے لیے بڑی معافی سے اور بڑے مودبانہ لہجے سے عرض کرتا ہوں کہ خُدا کے لئے اپنے کام سے کام رکھا کرو۔ جس کی جتنی مدد کرسکتے ہو ضرور کرو مگر کسی بھی چہرے کو حقیر اور خود سے کمتر مت سمجھا کرو خاص الخاص خواجہ سرا لوگوں کو بُرا مت سمجھو۔ اُن کے سینے میں بھی دل ہے اور جس دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ایسا تکلیف زدہ دل آپ کی خوشحال کائنات کو یکدم سے تباہ بھی کر سکتا ہے۔ سو ہر ممکن احتیاط برتی جائے۔ سب اللہ کی تخلیق ہیں کوئی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا، کسی چہرے کا مذاق اُڑانا مطلب رَبّ کی تخلیق کا مذاق اُڑانا ہے۔ اور کسی کو حقیر یا کمتر سمجھنا غرور اور تکبر کی علامت ہے اور تکبر اللہ رَبُّ لعزت کو پسند نہیں۔ اللہ اپنے حبیب ﷺ کے توصل سے اپنی ساری تخلیقات پر کرم فرمائے اور ہمیں اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت عطا فرمائے۔