1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. سائل اور سائل (2)

سائل اور سائل (2)

عموماً بھکاری کو سائل کہتے ہیں۔ اللہ کے نزدید سب سے بدتر کام مانگنا ہے، بھکاری بننا ہے۔ چونکہ بھیک مانگنا حرام ہے۔ حرام کا ایک لقمہ بھی اگر وجود کے اندر جاتا ہے تو ایسا حرام اپنی تاثیر نسلوں تک نہیں چھوڑتا۔ پھر بھکاریوں کی نسلیں بھی بھکاری ہی بنتی ہیں۔ اِس لئے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔ سخی کے دَر کو چھوڑ کر اُس کے بندوں سے مانگا جائے۔ تمام بندے اللہ سے مانگتے ہیں اور خود مانگنے والوں سے آپ مانگنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔

چین دنیا کے قدیم ممالک میں سے ہے۔ چین کے لوگوں کے بارے ایک کہاوت مشہور ہے۔ چینی لوگ مچھلی کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتے بلکہ مچھلی کا شکار کرنا سکھاتے ہیں۔ جاؤ اور خود شکار کر کے کھاؤ۔ یہ کہاوت سننے کے بعد معلوم ہوا کہ چین کی ترقی کے رازوں میں سے یہ بھی ان کی ترقی کا ایک راز ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو محنت کے قابِل بناتےہیں۔ ادھر جنابِ مصطفیٰ ﷺ کی بات سنی تو اِس سے بھی زیادہ اچھا لگا۔ رسولِ مقبول ﷺ کے پاس ایک صحابی آیا، عرض کی۔ یارسول اللہ ﷺ میں اور میرے بیوی بچے بھوکے ہیں۔ اللہ کے حبیب ﷺ نے پوچھا، گھر پر کیا ایسا موجود ہے جسے تم فروخت کر سکتے ہو۔ کہا کہ ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں اور ایک چادر ہے اِس کے سِوا کچھ نہیں۔ رسول ﷺ نے فرمایا جاؤ اور چادر لے آؤ۔ آقا ﷺ نے اعلان کیا، کون ہے جو چادر خریدنا چاہتا ہے؟ ایک صحابی نے ایک درھم لگایا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا، کون ہے جواِس چادر کو خریدنا چاہتا ہے؟ پھر اُس چادر کے دو درھم لگے۔ چادر کو فروخت کر دیا گیا۔ آقا ﷺ نے فرمایا کہ ایک درھم سے گھر میں بیوی بچوں کے لئے کچھ کھانے کو لے جانا۔ باقی کے ایک درھم سے آقا ﷺ نے خود ایک لکڑی کا دستہ، اور کلہاڑی کا لوہے والا حصہ خریدا۔ پھر آپ ﷺ خود اُسے کلہاڑی تیار کر کے دی اور فرمایا کہ جاؤ اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچوں۔ یہ ہے سبق محنت کے بارے جو ہمیں رسول ﷺ نے دیا ہے۔ کچھ عرصے بعد اُسی صحابیِ رسول ؐ سے جب ملاقات ہوئی تو۔ صحابی رسول ؐ نے فرمایا کہ یارسول اللہ ﷺ اب حالات بہت اچھے چل رہے ہیں۔

اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ نے ہمیشہ مانگنے کے بجائے محنت و مشقت کرنے کو فوقیت دی ہے۔ بندے کی عزت بھی اِسی میں ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو لوگوں کے سامنے پھیلانے کے بجائے اُنہی ہاتھوں سے حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اپنے خاندان کو بھی کھلائے۔ بھیک مانگنے والا سائل بروز ِحشر اِس حالت میں اُٹھے گا۔ اُس کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا بلکہ صرف چہرے کی ہڈیا ہونگی۔ یہی ایک بری پہچان ہوگی بھیک مانگنے والے سائل کی۔ لہذا سائل اگر بننا ہے۔ تو اللہ کے در کے سائل بن کر رہو جہاں ہر طرح کے سائل اور سائل کی اُمنگوں کابرہم رکھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں دو قِسم کے سائل پائے جاتے ہیں۔ ایک پیشہ وار، دوسرے حقدار۔ حقدار کی عزتِ نفس آڑے آ جاتی ہے جو اُسے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ ہم چلتے پھرتے انجانے میں پیشہ وار کی مدد کر کے بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ گداگری کے پیشے سے منسلک لوگوں کا ہر علاقے میں ایک جال ہوتا ہے۔ یہ لوگ مکمل منصوبہ بندی کے تحت کام پر نکلتے ہیں۔ ہم لوگ اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ کبھی ہم نے سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ اِس کا نقصان یہ ہوا۔ معاشرہ پیشہ وار سائلوں سے بھر گیا ہے۔ پیشہ وار بھکاری اسقدر معاشرے میں اپنی جڑ پکڑ چکے ہیں کہ مستحق لوگوں کی پہچان ہی مر چکی ہے۔ اگر کوئی مستحق مل بھی جائے تو ہم اُسے بھی پیشہ وار ہی تصور کر کے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پیشہ وار بھکاریوں کے مکمل ٹولے ہیں۔ مخصوص جگہیں منتخب کیں ہوئی ہیں۔ سب الگ الگ گلی کوچوں، بازاروں، مزاروں، مساجد اور دیگر مخصوص جگہوں پر گھوم پھر کر اچھی خاصی دیہاڑی لگاتے ہیں۔

خاتمُ نبیین محمد ﷺ نے فرمایا۔ بھیک مانگنا حرام ہے۔ لحاظہ جو حرام کمانے والے کے کام میں مدد کا باعِث بنے گا۔ پیشہ واربھکاریوں کے ساتھ تعاون کر کے ان کی دلجوئی کرے گا ایسا شخص گنہگار ہے۔ بھکاری کے برعکس دیہاڑی دار مزدور سخت موسموں کی شدت کے میں کام کرتا ہے اور بالآخر ایک چھوٹا سا گھر بنانے کے لائق ہو جاتا ہے۔ مگر بھکاری ہمیشہ بھکاری ہی رہتا ہے۔ بھکاری سدا منگتا ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ بھکاریوں کی نصلیں بھی بھیک مانگنے سے نہیں بچ سکتیں۔ چونکہ وہ حرام سے نہیں بچتے۔

اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو پیشہ وار گداگروں کی پہچان ممکن ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ بہت سے بھکاری نشئی ہیں جو اپنی حالتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

دیگر بھکاری ایک مخصوص اور سکھلائے گئے انداز میں آپ سے مخاطب ہونگے۔

آپ کے احساس کو مجروح کرنے والے چند بول بولے گے۔

قسمیں کھائیں گے اور آپ کو واسطے دیں گے۔

بلخصوص واسطے دیتے وقت ان کی کوشش ہوتی ہے۔ بندے کی کسی کمزوری کو پکڑ لیں مثلاً کسی کا بہت قریبی کوئی رشتہ فوت ہو گیا۔ ان کو معلوم ہونے کی دیر ہے۔ چند روپیوں کی خاطر، بندے کے احساس سے کھیل جاتے ہیں۔

اگر غور کریں تو یہی مخصوص لوگ آپ کو مختلف مقامات پر نظر آئیں گے مثلاً دورانِ سفر۔ مسافر بسوں، مسافرخانوں اور دیگر گلی کوچوں میں۔ سو اِن سے احتیاط برتی جائے۔ حیرت ہے آپ جن کی مدد کرتے ہو وہ بھوک کی شکایت کرتے ہیں۔ آپ روٹی دیتے ہو وہ کہتا ہے۔ نہیں صاحب مجھے پیسے چاہیے۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ پیسے کھلے نہیں ہیں۔ سائل آپ کی جیب سے بھی زیادہ پیسے نکال کر آپ کو دکھاتا اور کھلے پیسے دیتا ہے۔ سائل اتنے لاڈلے بن چکے ہیں۔ اول تو ہمیں شرم آتی ہے دو چار روپے دیتے ہوئے۔ چونکہ سائل دس روپے سے کم لیتے ہی نہیں۔ ہم نے خود ان کی عادات کو بگاڑ رکھا ہے۔ اِس لئے برائے کرم اپنی حلال کی کمائی کو سوچ سمجھ کر بہتر جگہ استعمال کیا جائے۔

یاد رکھیں حقدار تک اس کا حق پہنچانا آپ کی زمہ داری ہے۔ پہلے اپنے کنبے کی زمہ داریوں کو احسن طریق سے پورا کرو، پھر پڑوسیوں کی خبر لو۔ پھر باہر جو کام کاج کے قابل نہیں آپاہج ہیں، سخت ضرورتمند ہیں۔ اُن کی احسن طریقہ سے مدد کی جائے۔ ناکہ پیشہ وار کو دو پیسے دے کر مطلب زمہ داری پوری۔