1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. تین راستے

تین راستے

جب انسان کسی منزل پر پہنچنے کا اِرادہ کر لیتا ہے تو اُس منتخب کی ہوئی منزل تک پہنچنے کے کئی راستے ہو سکتےہیں۔ آسان راستہ، دشوار راستہ، لمبا راستہ، بیچ کا راستہ المختصر منزل تک پہنچنے کے کئی راستے ممکن ہو سکتے ہیں اور متعلقہ منزل تک پہنچنے کے لئے منزل کے اعتبار سے ہی سازو سامان کا بھی بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ کبھی کوشش یہ بھی کی جاتی ہے کہ کوئی اچھا ہمسفر مل جائے تاکہ سفر خوشگوار اور یادگار بن سکے۔ مگر جب منزل اندر کی ہو تو پھر کیسے پہنچو گے؟ ہاں اندر کی منزل یعنی باطنی سفراور یہ سفر ایسا سفر ہے کہ جس کے تم اکیلے مسافر ہو، کوئی ساتھی نہیں، کوئی ہمسفر نہیں۔ ہاں جو لوگ اِس راستے کے مسافر ہیں یا جولوگ باطن کی منزلوں کے مکین ہیں اُن سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ یہ منزل ہر منزل سے بڑی منزل ہےحتیٰ کہ دنیا کی آخری بظاہر بڑی منزل سے بھی بڑی منزل ہے۔ اِس منزل تک پہنچنے کے تین راستے ہیں۔ پہلے ہم اِس منزل کو دیکھ لیتے ہیں کہ آخر یہ منزل کیا ہے؟

یہ اندر کی کائنات کی منزل ہے اور اِس منزل کا نام باطن ہے۔ باطن کیا ہے؟ دل کے ارادوں کا نام باطن ہے، دل کی کیفیت کا نام باطن ہے، انسان کے اندر چلنے والی تحریک کا نام باطن ہے۔ دل کی رگوں کا نام باطن ہے بلکہ ان رگوں پر چلنے والی باتوں اور باتوں کے پیچھے کی دنیا کا نام باطن ہے۔ دماغ پر آنے جانے والے خیال کے سبب سے جو عکس دماغ کے خوشوں پر باقی رہ جاتا ہے اس عکس اور عکس کے عکس کا نام باطن ہے۔ اس سارے باطنی نظام کو ہم سافٹویئر بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ کے سافٹ ویئر پر حتمی قدرت آپکی اور رَبِّ کائنات کی ہے۔ یہ فطری نظام ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ خود چاہتے نہ چاہتے باتیں کرتا رہتا ہے یعنی باطنی نظام ہر شخص پر ہمہ وقت چل رہا ہوتا ہے۔ خواہ وہ آخری درجے کا پاگل شخص ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک آنکھیں کھلی ہیں اور وقت چل رہا ہےیا جب تک جسم میں روح باقی ہے باطن کی تحریک چلتی رہے گی۔ باطن کی تحریک کا سب سے بڑا سبب آنکھیں ہیں پھر کان، ناک، آواز اور دیگر وجود اور غیر وجود کے زرائع ہیں۔ خدانخواستہ اگر آنکھوں کی بینائی سِرے سے نہ ہو یا بینائی کسی مرض یا حادثہ کے سبب زائل ہو جائے تب بھی باطنی تحریک رُکتی نہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ آپ کے باطن میں چل کیا رہا ہے۔ خیر ہے یا شر ہے یعنی باطن میں اصل محبت کس کی ہے غیر کی ہے یا سرکارِ دو عالمﷺ کی ہے۔ یا وہی محدود ماضی کی دُھندلی یادیں ہیں جو کسی کے لیے کچھ بھی نہیں یعنی نہ نفع نہ نقصان۔ بس اُسی شخص کے لیے جینے کا سبب یہ پرانی یادیں ایک لطف کی طرح ہو سکتی ہیں۔

ماحول کا اثر آپ کے ظاہر پر ہو نہ ہو پھر بھی ہوتا ہے وہ الگ بات ہے کہ آپ پر وہ اثر کتنا رنگ چھوڑتا ہے۔ مگر باطن پر ضرور بِالضرور اثر ہوتا ہے۔ جیسے کہ پہاڑوں کی صحبت یا ماحول میں رہنے والوں کے دِل پتھر نما ہوتے ہیں، پکے اور مضبوط دل ہوتے ہیں یہ ان پر مضبوط پتھروں اور پہاڑوں کا اثر ہے یعنی ماحول کا اثر ہے۔ جیسے ایک شکاری پر اُسکا مشغلہ اثرانداز ہوتا ہے۔ شکاری غفلت میں ڈوب جاتا ہے۔ اُسے گھربار، بیوی بچوں کی فکر نہیں رہتی وہ فرائض اور حقوق کی دنیا سے غافل ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک نشہ آور شخص کو دیکھ لیں اُس پر اُس کا ماحول، اسکی صحبت اثرانداز ہوتی ہے بلکہ نشئی شخص کے بارے کیا کہنا وہ تو پہلے ہی باغی ہو چکا ہے اور ہر طرح کے فرائض و واجبات کی دنیا سے غفلت پا چکا ہے۔

باطن یعنی سافٹ ویئر پر جو بھی کام کرتا ہے اُسے بڑا فائدہ اور بڑا نفع ملتا ہے۔ سافٹ ویئر خواہ دنیا کے کام کاج کے لحاظ سے ہو یعنی کمپیوٹر، موبائل سافٹ ویئر ہو یا بندہ خود اپنے سافٹ ویئر یعنی باطن پر کام کرے تب تو بڑا اور حقیقی فائدہ ملتا ہے۔ اپنے سافٹ ویئر یعنی باطن پر کام کرنے کا مطلب بندہ اپنے باطن کو غسل دے۔ اپنے باطن کا وضو کرے اور اندر سے پاک ہو جائے۔ اندر سے پاک ہونے کا مطلب آپ کے دل میں۔ اللہ کی مخلوق کے لئے میل کچیل نہ ہو، آپ کے دل میں کسی کے لئے نفرت کا بیج نہ ہو، بس ہر دَم اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور سزاوار کو معافی دینے کا جذبہٰ عروج پر ہو۔ آپ کے اندر کی پاکی کی سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ آپ ہمہ وقت سکون میں رہو گے حال خواہ کیسا بھی ہو۔ آپ ہر حال میں ہی راضی رہو گے اور آپ اخلاص کی دولت سے مالامال ہی رہو گے۔

پہلا راستہ، باطنی نظام کی پاکی کو پہنچنے کا ایک راستہ روح کی خوراک ہے۔ باطن کی پاکی روح کو خوراک دینے سے مُیسر ہوتی ہے اور وہ بھی توجہ سے۔ روح کی خوراک اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کا ذکر ہےیعنی اللہ اور اللہ کے رسولِ مقبول ﷺ پر درود و سلام ہے۔ ایسا کرنے سے اللہ اور اللہ کا رسول، جانِ مصطفیٰ ﷺ آپ سے راضی ہو جائیں گے۔ آپ کا باطن روشن ہو جائے گا اور آپ ایک پُرامن اور پاکیزہ زندگی گزارنے لگو گے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ چونکہ یہ وحدت ہے اور آپ فقط اپنی ذات تک ہی محدود ہو۔ گو کہ آپ مقبول بھی ہو چکےاور باقی لوگوں سے زیادہ پاک دامن بھی۔ مگر اللہ کو خالص اپنی عبادت ہی مقصود ہوتی تو وہ انسان کو پیدا ہی کیوں کرتا؟ پہلے سے ہی نوری اور دیگر بیشمار مخلوقات اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں۔ اگر رَبِّ کعبہ کو مزید اپنی عبادت مقصود ہوتی تو وہ کسی اور طرح کی مخلوق کی تخلیق کر کے اپنی عبادت کروا لیتا یا انسان کی ہی تخلیق کے بعد اِس سے نفس کو نکال دیتا تو پھر اللہ ہوتا اور اللہ کی عبادت ہی عبادت ہوتی۔ کیوں اللہ نے انسان کو نفس دے کر آزمائش میں ڈال رکھا ہے؟

بات دراصل اور ہے اللہ نے اپنے حبیبﷺ کی تخلیق سب سے پہلے کی ہے اور آپﷺ کو آخری نبی اور رسولﷺ بنا کر بھیجا ہے۔ آقاﷺ سے پہلے جِتنے نبی، رسول، پیغمبرؑ اور دیگر جتنے انسان بھیجے۔ تب بھی آقاﷺ کا تذکرہ رہا اور آقاﷺ کے بعد بھی آقاﷺ کا ہی نام ِمبارک ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آقاﷺ کا تذکرہ ہی رہے گا۔ واہ۔ یہ تذکرہ بھی کتنا انمول تذکرہ ہے کہ جب جب آقاﷺ کو یاد کیا جائے پہلے سے زیادہ لطف آتا ہے بلکہ لطف بڑھتا ہی جاتا ہے۔ آقاﷺ کو اللہ نے انسان بنا کر بھیجا ہے بلکہ کائنات کا عظیم انسان اور اِسی ایک عظیم انسان یعنی آقاﷺ کے لئے ہی ساری کائنات بنائی گئی ہے۔ آقاﷺ نے اول انسانیت اور پھر دیگر مخلوقات سے محبت بھی کی اور خدمت بھی اور اِسی محبت اور خدمت کے کام میں آقاﷺ انسانیت کا پیکر اور رحمتَ للعالمین بنے ہیں۔ آقاﷺ کا عمل ہی ہمارے لئے غور کا مقام ہے۔ اب ہمیں باطن اور باطن تک پہنچنے کا سہی مطلب سمجھ میں آئے گا۔

دوسرا راستہ، اصل باطنی نظام کو پروان چڑھانے کا ایک راستہ اور بھی ہے یعنی دوسرا راستہ اور یہی اصل اور حقیقی راستہ ہے۔ جو کہ سرکارﷺ کا بتایا ہوا راستہ ہے یعنی اللہ کی مخلوق کے ساتھ محبت، اللہ کی مخلوق کو نفع دینا، اللہ کی مخلوق کو آسانیاں دینا، اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا، انسانوں کی خدمت اور وہ بھی اپنی ذات اور اپنے منصب کی نفی کر کے کرنا اور پھر چپکے چپکے سے اللہ اللہ کرتے رہنا اور آقاﷺ کو یاد کرتے رہنا درود و سلام کے نذرانے بھیج بھیج کر۔ تب جا کر آپ باطن کے راز کو پاؤ گے، تب آپ کے دل کی رگیں کھلے گی، تب چمن میں چمن مہکے گا، تب ریگستان کے دل میں بھی پھول لگے گیں۔ تب ہریالی لہلہائے گی، تب جا کر سمندر سے حیات کا پیغام ملے گا اور ریگستان کے کے آخری ذرے کے دل کی دھڑکنیں بھی سننے کو ملے گی۔ تب کائنات اور کائنات کے نظاروں کے نظارے ہونگے۔ بندوں کی خدمت کے سِوا رَبّ کی اصل بندگی ہو ہی نہیں سکتی۔ چونکہ پیغمبرﷺ کو انسان بنا کر بھیجا گیاہے اور پیغمبر ﷺ نے انسانوں سے محبت کا ہی درس دیا ہے۔ انسانوں سے محبت کر کے دِکھائی بھی ہے بلکہ دشمنوں کو بھی اپنا بنا کر دِکھایا ہے صرف محبت کر کے۔ آقاﷺ نے بدلہ لینے کے بجائے درگزر کرنے اور معافی دینے کو ترجیح دی ہے۔ اتنے شفیق اور مہربان آقاﷺ ہیں کہ انسانیت اور دیگر مخلوقات کے ساتھ محبت، مہربانی، شفقت اور معافی دے دینے والا ہی آپﷺ نے ہمیشہ مزاج رکھا ہے۔ یہی غور کا مقام ہے۔

تیسرا راستہ، باطن کی پاکی کا آخری راستہ یعنی تیسرا راستہ نصیب ہے، دعا ہے۔ باطن کی پاکی بڑے نصیب کی بات ہے اور بڑے نصیب سے ہی ملتی ہے۔ نصیب اللہ کے حبیبﷺ سے محبت کرنے سے بنتا ہے۔ محبت اطاعت کا نام ہے۔ اور اطاعت میں ہی خیر ہے۔ اطاعت کا اصل معنیٰ اللہ کی بندگی اور رسولِ مقبول ﷺ کی پیروی ہی تو ہے۔ باطن کی پاکی تک پہنچنے کے تینوں راستے خوب ہیں مگر کام تو فقط دو راستوں پر ہی ممکن ہے۔ اب انتخاب آپ کا ہے کہ آپ کس راستے کو چنتے ہیں۔ چونکہ تیسرا راستہ نصیب ہےاور نصیب تو ہے ہی بڑے نصیب کی بات۔ یہ تو نگاہِ کرم کی بات ہے کہ کب ہوتی ہے۔ کب نصیب جاگتا ہے۔ کب دعا اپنی تاثیر دِکھاتی ہے۔ نصیب کے فیصلے تو عرشوں پر ہوتے ہیں مگر فرشی نظام کو دیکھتے ہوئےیعنی باطن کی دنیا کو دیکھتے ہوئے۔ اِس کے علاوہ رَبّ کا ایک خاص الخاص کرم ہے کہ وہ۔ فقط اپنی شان کو دیکھ کر آپ پر توجہ فرما دے اور آپ کے دل کی دنیا کو یعنی آپ کے باطن کو پاک کر دے، روشن کر دے اور آپ سے اپنی مخلوق کے لئے کوئی بڑا کام لے لے۔

باطن کی پاکی ظاہر کو پاک رکھنے اور تنہائی کو پاک رکھنے سے جلد ممکن ہوتی ہے۔ خیر جب بھی جیسے بھی آپ کا باطن روشن ہونے لگتا ہے۔ تو آپ۔ اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کے ہاں مقرب ہونے لگتے ہو۔ جو بندہ مقرب ہو گیا، چُنا گیا، دوست ہو گیا ایسے شخص کے تعارف کو یعنی ایسے شخص کے باطن کو اللہ لوگوں پر ظاہر کر کے اُسے تعریف کے قابل بناتا ہے۔ چونکہ جس کا باطن پاک ہو گیا وہ اللہ اور اللہ کے حبیبﷺ کے حوالے ہوگیا۔ باطن کی پاکی حاصل کر چُکنے والے لوگ کبھی بھی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے۔ وہ ہر کام کو کرنے کے لئے حکم کے پابند ہوتے ہیں۔ ہاں ایسے لوگوں کا ایک ہی کام ہوتا ہے۔ کائنات کے نظاروں کے نظارے لینااور یہی بڑا انعام ہے۔ اللہ اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی مہربانی سے ہم پر نظرِکرم فرمائے اور ہمارے نصیب کو چار چاند لگا دے، ہمارے باطن کو پاک کردے، اور ہمیں اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت میں ہی ہمیشہ سرشار رکھے۔ آمین۔