ایوب بیگ دانش کا تعلق چکبالاپور سے ہے اسی لیے اپنے نام کے ساتھ چکبالاپوری لکھتے ہیں۔ اردو ادب کے ایک کہنہ مشق شاعر، نثرنگار اور سنجیدہ فکر ادیب کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ نہ صرف اردو شاعری میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں بلکہ نثر، تنقید اور افسانچوں میں بھی ایک مضبوط مقام کے حامل ہیں۔ ان کے اشعار میں فکری گہرائی، عصری مسائل کی جھلک اور زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ ایک دانشورانہ انداز نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
ایک انٹرویو میں ایوب بیگ دانش نے اپنے بارے میں یوں کہا کہ "میرا نام ایوب بیگ ہے اور قلمی نام دانش ہے۔ ادبی دنیا میں ایوب بیگ دانش چکبالاپوری کے نام سے پہچانا جاتا ہوں۔ عمر پچاس برس سے تجاوز کر چکی ہے۔ تعلیم صرف اتنی ہے جو ایک انسان کو انسان بنا سکے۔ پیشہ خیاطی ہے، لیکن دل کا رشتہ ادب و شاعری سے گہرا ہے۔ پڑھنے اور لکھنے کا شوق خصوصاً شاعری میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ مجھے وہی شاعر پسند ہے جو اپنی شاعری کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، امانت میں خیانت، گالی گلوچ اور شاعری کے نام پر ذہنی عیاشی سے نفرت ہے۔
میرے قلم سے 300 غزلیں، 40 رباعیات، 50 قطعات، 30 حمدیں، 15 نعتیں، 15 افسانے اور 75 افسانچے وجود میں آ چکے ہیں۔ افسانچوں کا مجموعہ سوزِ خامہ اور رباعیات کا مجموعہ رباعیاتِ دانش کے عنوان سے میں شائع ہو چکے ہیں اور ہر خاص و عام میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں، جب کہ غزلوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہے اور ان شاء اللہ جلد منظر عام پر آئے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین"۔
ایوب بیگ دانش کا ادبی مزاج سنجیدہ اور اصلاحی نوعیت کا لگ رہا ہے۔ ان کے خیالات میں روایت اور جدیدیت کے امتزاج کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت پسندانہ نظر بھی موجود ہے۔ وہ اپنے فن کو محض تفریح کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ سماجی، اخلاقی اور فکری مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے انٹرویوز اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک نظریاتی انسان ہیں جو ادب کو ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کی شاعری میں غزل، نظم، حمد، نعت اور رباعیات سبھی اصناف موجود ہیں۔ ان کے کلام کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ عصری مسائل کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید اسلوب بھی نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں فطری سادگی اور معنوی گیرائی دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
ان کی غزل کا یہ مصرع "کیا ہوا جو امن یوں رخصت ہوا گلزار سے" ایک عصری صداقت کی بہترین ترجمان ہے۔ اس میں دنیا میں بڑھتے ہوئے تشدد، انسانی اقدار کی پامالی اور امن کے زوال پر ایک بھرپور احتجاج موجود ہے مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
کیا ہوا جو امن یوں رخصت ہوا گلزار سے
جسم پھولوں کے بھی اب کٹنے لگے ہیں خار سے
یہاں شاعر نے استعاروں کے ذریعے اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کے دور میں معصوم لوگ بھی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔
یہ شعر دیکھیئے:
ہاتھ میں موبائل آیا گویا مٹھی میں جہاں
لد گئے خط کے زمانے تار ٹوٹے تار سے
یہ شعر جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اور نقصانات دونوں پر ایک گہرا طنز ہے۔ ماضی میں خط و کتابت میں جو جذباتی ربط تھا، وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ ایک اور شعر ملاحظہ کیجیئے:
سختیوں سے کچھ نہ ہوگا نرمیوں کی بات کر
دیکھ دانش کٹ گئے پتھر بھی بہتی دھار سے
اس شعر میں شاعر نے ایک عمیق حکمت کی بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ سختی ہمیشہ حل نہیں ہوتی بلکہ محبت اور نرمی میں بھی بڑی قوت ہوتی ہے۔
ایوب بیگ دانش کی حمد "رات کو سونے سے پہلے حمد اللہ کی کریں" میں ایک دینی اور روحانی پیغام موجود ہے۔ شاعر تمام مخلوقات کو خدا کی حمد کی دعوت دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس سے ان کے مذہبی عقائد کا گہرا پن ظاہر ہوتا ہے۔
اسی طرح ان کی نعت "خاتم الانبیاء مرحبا مرحبا" ایک مدحیہ نظم ہے جو عقیدت و محبت سے لبریز ہے۔ اس میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اوصاف حمیدہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کی آزاد نظم "META" بھی خوبصورت ہے۔ یہ نظم عصری ترقی، ٹیکنالوجی اور اس کے اثرات پر ایک طنزیہ اظہار ہے۔ شاعر اس بات پر فکر مند ہیں کہ سوشل میڈیا اور جدید ورچوئل دنیا انسان کو اس کی اصل زندگی سے دور لے جا رہی ہے۔ نظم میں مصنوعی تعلقات، دجالی فتنوں اور مذہبی شعائر کے زوال پر ایک تنقید موجود ہے۔
شاعر نے نثر اور افسانچہ نگاری پر بھی کام کیا ہے۔ ایوب بیگ دانش کے افسانچے مختصر مگر معنویت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کا افسانچہ "کہ ہر خواہش پہ۔۔ " ایک نفسیاتی اور سماجی مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں جدید سماج کی ایک تلخ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ بظاہر خوشحال زندگی بھی بعض اوقات اندرونی اضطراب کا شکار ہو سکتی ہے، جو ایک فرد کو انتہائی اقدام (خودکشی) کی طرف لے جا سکتی ہے۔
ایوب بیگ دانش نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے اردو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی دو کتابیں "رباعیاتِ دانش" اور "سوزِ خامہ" پاک و ہند کے اردو ادب کے قارئین میں مقبول ہو چکی ہیں۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو معاشرتی، سیاسی اور مذہبی موضوعات کو انتہائی نپے تلے انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ایوب بیگ دانش کی شاعری، نثر اور فکر سبھی میں ایک اصلاحی، دانشورانہ اور عصری شعور پایا جاتا ہے۔ ان کا فن روایتی شاعری سے ہٹ کر ایک منفرد اسلوب پر مبنی ہے جو قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا سبب بنے گا۔ ان کی تخلیقات اردو ادب کے سرمایے میں ایک قیمتی اضافہ ہیں۔ میں شاعر کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔