1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ساجدہ اشرف/
  4. جب یاد آئے بہت یاد آئے

جب یاد آئے بہت یاد آئے

سوچا تھا کہ اب سیاست پر نہیں لکھوں گی، سیاست میں کچھ نہیں رکھا، اب تعمیری ادب پر کچھ لکھوں گی۔ ایسا ادب جس سے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔ تبدیلی سے یاد آیا کہ ھمارے ملک میں بھی ایک تبدیلی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ جس نے بڑے بڑے برجوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تبدیلی آئی ہے یا لائی گئی ہے، یہ ایک الگ موضع بحث ہے۔ سیاست کے موضع کو لگ بھگ چھوڑ ہی چکی تھی کہ عمران خان صاحب کی بطور وزیرِاعظم پہلی تقریر نشرہونے کا اعلان سن کر خود کو روک نہ پائی، یہ بلکل ایسے ہی ہوا جیسے الیکشن مہم کے دوران ایک مال پر اونچی آواز میں چلنے والے مہماتی نغمے ‘ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے ‘ پر نوجوانوں کے قدم تھرکنے لگتے تھے۔ بلکل ایسے ہی میری نظریں ٹی وی پر جم گیئں۔ خطاب کا وقت ۸ بجے کی بجائے ۹ بج کر ۳۰ منٹ پر کر دیا گیا۔ کرنا بھی چاہئے تھا، ایک پلے بوائے اور وزیرِاعظم بات ھضم نہیں ہو رہی تھی۔ اسی بنا پر خطاب ریکارڈ کر کے چلایا گیا۔

خطاب کے شروع ہوتے ہی، حیرانگی کا عالم تھا، ایک پل کو پی ٹی وی کا وہ دور یاد آیا جب ڈرامہ ‘ وارث ‘ لگتا تھا اور سڑکیں اور گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ کچھ ایسا ہی سپنس عمران خان کی پہلی تقریر میں تھا۔ فواد چوہدری کے بیان کے مطابق ‘ عمران خان کا خطاب غیر روائیتی ہو گا۔ ‘ وزیرِ اعظم عمران خان کا خطاب تھا یا دھچکے پہ دھچکا۔ غیر روائیتی اور غیر معمولی۔ شستہ انگریزی زبان بولنے کے باوجود، خطاب اردو زبان میں کیا گیا، جس سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ خطاب خالصتاَ پاکستانیوں کے لئے ہی تھا کیونکہ انتہائی توجہ طلب طبقہ انگریزی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔ خطاب میں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کا موازنہ کیا کیا، مختلف امور کے لئے متوقہ کمیٹیاں بنائی گئیں، خارجہ پالیسی واضح کی گئی، ہمسائیہ ممالک سے تعلقات کے بارے میں بتایا گیا، کرپشن کے خاتمہ پر بے حد زور دیا گیا، گورننس اور اداروں کو بہتر کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ بلوچستان کے موضع پر خان صاحب نے کچھ زیادہ زور نہ دیا اور مسئلہ کشمیر کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں۔ خان صاحب کی کہی ہوئی کسی بات سے انکار ممکن نہیں، کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اس سے بھی انکار ممکن نہیں، البتہ خان صاحب نے ضرور نظر انداز کر دیا۔

انکی پہلی تقریر اس قدر جاندار اور دلگداز ہو گی اسکی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ تقریر صحیح معنوں میں ایک عام پاکستانی کی دلی آواز کی ترجمان تھی۔ قائد اعظم، محترمہ فاطمہ جناح کے بعد عوام کی بگڑی حالت کو سدھارنے اور پاکستان کی حالت کو سنوارنے کے لئے کی جانے والی تاریخی تقریر جسے موّرخین سنہری حروف میں لکھیں گے۔ خان صاحب کی تقریر کے دوران کئی بار قائدِ اعظم یاد آئے۔