1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ساجدہ اشرف/
  4. اخلاقیات اور سیاسیات

اخلاقیات اور سیاسیات

عوام کی بہتری کے لئے کام کرنا اور ملکی نظام کو بہترین طریقے سے چلا نے کو سیا ست کہا جاتا ہے۔ مگر موجودہ سیاست کی حالت دگرگوں ہےـ افسوس، صد افسوس ـ آج سے دس سال قبل کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو اتنی سنسنی نہ تھی جتنی اب ہے ـ عوام کسی حد تک پر سکون تھی۔ گو کہ سکون ظاہری ہی تھا مگر ذہنی انتشار کی اتنی بلند سطح نہ تھی جو آج ہے۔ اسکا ایک سبب سوشل میڈیا بھی ہے، جو ایک ہی خبر کو آواز کے اتار چڑھاوْ کے پیچ و خم کی آمیزش کے ساتھ تکرار سے پیش کرتے ہیں۔ اِس سے نہ صرف شور کی آلودگی میں اِضافہ ہوتا ہے بلکہ لا شعوری طور پر نفسیاتی مسائل میں بھی اِضافے کا سبب بنتا ہیں۔

موجودہ سیاست میں اخلاقی اور غیر اخلاقی حدود متعین نہیں۔ کیا غلط ہے اور کیا دُرست اِس سے بھی کسی کو کوئی غرض نہیں۔ کرسی کے حصول کے لئے سیاست دانوں کی حالت بائی ہک اور بائی کرووک کی سی ہے۔ مریم نواز صا حبہ نے درست فرمایا، ‘ آج کی سیاست ۸۰ کی دہائی کی سیاست جیسی نہیں، آج کی سیاست سوشل میڈیا کی سیاست ہے۔

کیا سوشل میڈیا پر نشر کیا جانے والا مواد اخلاقی طور پر درست ہے؟ الیکشن کی مہم کی شروعات سے ہی یہ سوال میرے دل و دماغ پر تیرِ نشتر کی طرح چبھ رہا ہے۔ ہر پارٹی کو الیکشن مہم چلانے کا آئینی، قانونی اور شرعی پورا حق ہے۔ الیکشن مہم کا بنیادی مقصد ووٹرز کو مجتمع کرنا، سیاسی تقریروں سے ان کے لہو کو گرمانا اور پارٹی کے منشور سے آگاہی دینا ہوتا ہے۔ اِس اجتماع میں عقیدت مند ووٹرز اپنے لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے، آواز سے آواز ملا کر اسکی طاقت کو بڑھانے آتے ہیں۔ رواں الیکشن مہم میں بلاول بھٹو کی کراچی میں مزار پر حاضری کے دوران ایک جیالے نے آگے بڑھ کر بلاول بھٹو کو اجرک پہنائی اور رخسار پر بوسہ دینے کے کوشش کی، اجرک پر خوشی اور بوسہ پر بیزاری کا ا ظہار کیا، جسکے واضح آثار چہرے پر بھی عیاں تھے۔ کچھ اسی قسم کا منظر بنوں میں بھی دیکھنے کو ملا۔ ہمارے حکمرانوں میں احترامِ آدمیت کی قلت ہے یا پھر وہ خود کو اعلی مخلوق تصور کرتے ہیں۔

اسلا م بَزورِ شمشیر نہیں پھیلا نہ ہی کسی پر تہمت، الزام تراشی یا بہتان لگانے سے بلکہ اسلام کی پھیلنے کی اصل وجہ حضورپاک کے اعلی و عرفہ اخلاق تھے جن کا عملی مظاہرہ آپ نے اپنی زندگی میں پیش کیا۔ آپ کی بلند و بالا قیادت میں اسلام نے اپنے پر پھیلائے۔ اعلی قیادت کی سر پرستی میں تمام صحابہ بھی اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہے۔ با اخلاق قیادت، با اخلاق پیروکار۔ غیر اخلاقی قیادت، غیر اخلاقی پیروکار۔

بانئ پاکستان قائداعظم جیسے عظیم رہنما مسلم لیگ کی پہچان بنے۔ جنکی اعلی اقدار، وسیع النظری اور اٹل اصولوں کی مثالیں مختلف تصانیف میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ کیا ھمارے پاس قائد جیسا کوئی لیڈر ہے؟ نہیں۔ ۔ بلکل نہیں۔ موجودہ سیاست میں پارٹی بدلنے کے ساتھ ساتھ اصول بھی بدل دئے جاتے ہیں۔ ایک طرف میچور سیاست ہے، جو نپے تلے الفاظ میں بیانات دے رہے ہیں اور دوسری طرف ایسی قیادت ہے جو نا شائستہ لہجہ کے ساتھ غیر مہذبانہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے غیر اخلاقی حرکات کر رہی ہے۔ الفاظ اور حرکات ہماری شخصیت کا آئنہ دار ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز مجرم ثابت ہوئے، سزا بھی جھیل رہے ہیں، پھر مخالف پارٹی کے کارکن ان کی عزتِ نفس کو کیوں مجروح کر رہے ہیں؟ وقت بدلتا ہے اور خود کو دہراتا ہے، ماضی میں بے نظیر بھٹو اس مقام پر تھیں اور آج مریم نواز شریف ہیں۔ کیا معلوم مستقبل میں کون کس مقام پر ہو۔ سیاست میں دل بڑا، آنکھیں کھلی، دماغ متحرک اور چنیدہ الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بہت معزرت کے ساتھ، عمران خان صاحب ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نہ جانے کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ۔ ۔ جانتے بوجھتے یاانجانے میں۔ ۔ ۔ وللہ عالم۔ ۔

انسان کا سکھ اسکی زبان کی نوک کے نیچے ہے۔ مگر سیاسی رہنماؤں کے کانوں میں اِس جملے کی کبھی باز گشت نہ ہوئی۔ شہرت یافتہ چینلز پر، نامور کالم نگاروں اور میزبانوں کے ٹاک شوز میں یہ حضرات ایسے گفتگو کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جب فرسٹریشن حد سے بڑھ جاتی ہے تو کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بازو ہوا میں لہراتے ہوئے آواز کو اونچا کر دیتے ہیں۔ جس سے آواز گونجنے لگتی ہے۔ جب دلائل ناکافی اور غیرمعقول ہوں تو آواز کو اونچا اور طاقت ور بنا کر مخالف شخص پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخالف پارٹی پر رعب جمانے کا یہ ایک نفسیاتی طریقہ کار ہے۔ اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو محترم حضرات میز پر پڑا چائے کا کپ یا پانی کا گلاس پوری قوت کے ساتھ زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ اگر ایسا کرنے سے بھی دال نہ گلے توگالیوں کی برسات کرتے ہوئے پروگرام سے لا تعلقی کا اِظہار کرتے ہوئے دفترِ ہذا سے باہر نکل جاتے ہیں۔

سوچنے کی بات صرف اتنی ہے کہ اگر سیاسی لیڈر ہی غیر مہزب، بے اصول اور نفسیاتی انتشار کا شکار ہوں تو وہ عوام کی بہتری کے لئے کام کیسے کر سکتے ہیں۔ سیاسی رہنما ایک ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو، منفی اور مثبت، ہر قسم کے حالات میں، خود کو سمیٹ کر بااصول طریقے سے زینہ بہ زینہ آگے بڑھتا ہے۔ ذاتیات سے بالا تر۔ پیمرا نے ان غیر مہذبانہ حرکات کا نوٹس کچھ دیر سے لیا، اب تو عوام بھی انھی غیر مہذبانہ الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں جو ان کے لیڈرز کر رہے ہیں۔ دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔