1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ساجدہ اشرف/
  4. عشق کے امتحاں!

عشق کے امتحاں!

فاتحانہ تقریر سے لے کر اب تک، پی ٹی آئی اور دیگر پارٹیاں حکومت سازی کے لیئے کافی متحرک ہیں۔ پی ٹی آئی نمبر گیم کی تعداد پوری کرنے کے لیئے آزاد امیدواران کی ساتھ با ضابطہ کاروایئاں کر رہی ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ عمران خان کی وجہ شہرت کرکٹ رہی مگر اب سیاست کا میدان گرم ہے۔ ۱۹۹۲ کا ورلڈ کپ پاکستان کے نام کروانے والے کپتان نے جب سیاست میں قدم رکھا تو پورے کا پورا سیاسی کلچر ہی بدل گیا۔

عمران مخالف گروہوں نے تو سیاسیات کو عمرانیات بنا دیا۔ نئے پاکستان کا نعرہ بھی کافی تنقید کا نشانہ بنا۔ عمران خان اپنے ارادے پر ڈ ٹے رہے اور اپنے یقین کو متزلزل نہ ہونے دیا۔ تمام تر مخالفت کے باوجود بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جلد ہی وزیرِاعظم کا حلف اٹھانے والے ہیں۔

ہم سب نے سیاسی زبان کو کرکٹ کی زبان میں مدغم ہوتے دیکھا۔ تمام تجزیہ نگاروں اور نیوز چینلز نے کرکٹ فریزز کو استعمال کرتے ہوئے سیاست میں عمدہ تڑکا لگایا۔ عمران خان نے اپنے پانچوں حلقوں میں کلین سویپ کردیا، پی ایم ایل ن کی وکٹیں گرا دیں، پی پی پی کو ایل بی ڈبلیو کر دیا، ایم کیو ایم کے امیدواران رن آوٹ ہو گئے، جماعتِ اسلامی کو باونسر کا سامنا کرنا پڑا۔ ۔ وغیرہ۔ ان تمام اصطلاحات سے سیاست کے شوقین آشنا نہ تھے مگر اب کپتان کی موجودگی میں کافی حد تک ان سے آگاہی حاصل کر چکے ہیں۔ زبان کی حد تک تو واضح تبدیلی آئی ہے۔ جلوسوں میں بھی کپتان نے واضح منشور دیا، حریف پاٹیوں کو چیلنجز کر کے کافی ٹف ٹائم دیا۔

اب عمران خان وزیرِاعظم کا حلف اٹھانے کے قریب ہیں۔ انھوں نے جو چاہا، جو مانگا سو پا لیا۔ قصہ صرف پا لینے پر ہی ختم نہیں ہوتا، اصل کھیل تو پا لینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

؎ عشق کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں۔

طاقت کا حصول ان کی ایک دبی خواہش تھی اور ملکی سالمیت، کرپشن کا خاتمہ، عام انسان تک بنیادی آسائشوں کو پہنچانا، یکساں نظامِ تعلیم کا رائج کرنا، اداروں کو بہتر اور فعال بنانا، ملکی خزانہ کو بھرنا، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور موروثی سیاست کو ختم کرنا ان کا مقصد ہے۔ طاقت وہ حاصل کر چکے ہیں، مقاصد کا حصول ابھی باقی ہے۔ مقاصد کے حصول میں بھی ان کو بہت سی طاقتوں کا سامنا متوقع ہے۔ ابھی تک وزیروں کی ناموں کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ جن قوتوں نے، پیسہ سے لے کر اختیار تک، تمام تر ذرائع کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے، ان کو اقتدار تک پہنچایا اور انکے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا، کیا عمران خان انکی توقعات کو پورا کرتے ہوئے عوام سے کئے ہوئے بلند و بانگ وعدے نبھا سکیں گے۔ کس کو خان صاحب خوش کریں گے اور کس کو نا خوش، یہ وقت ہی بتائے گا۔

عمران خان کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ ذرا سی جلدی اور بد احتیاطی ان کے لئے مشکلات کے انبار کھڑے کر سکتی ہے۔ جس طرح کرکٹ میں انھوں نے نپے تلے انداز میں کھلاڑیوں کو بیٹنگ اور بولنگ کے لیئے بھیجا تھا کیا ویسے ہی سیاست میں کر پائیں گے؟ ویون رچرڈز نے عمران خان کے بارے میں کہا تھا ’ عمران خان کھلاڑی میں چھپے ٹیلنٹ کو پہچاننے کے ماہر ہیں ’۔ کیا عمران خان اپنی اسی صلاحیت کو سیاست میں بجا طور پر استعمال کر پائیں گے؟ اِن سب سوالات کے جوابات وقت آنے پر ہی ملیں گے۔ یہ واحد موقع ہے جو قدرت نے ان کو عطا کیا ہے، اگر اس موقع پر عمران خان نے سمجھوتہ نہ کیا تو کرکٹ کی تاریخ کی طرح سیاست میں بھی ان کو سنہری حروف کے ساتھ یاد رکھا جائے گا وگرنہ وہ بھی قصئہ پارینہ ہو جائیں گے۔