1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. آخری ایجاد !

آخری ایجاد !

کمرے میں لیٹے لیٹے اچانک مجھے لگا، کہ روشنی مجھے سونے نہیں دے گی دیکھا تو بھائی نے کمرے میں اینرجی سیور سے روشنی کی ہوئی تھی جسکے باعث میری آنکھ کھل گئی، اورمیں اٹھ کر بیٹھ گئی، یونہی ذہن میں آیا کہ یہ بلب تو سر تھامسن ایڈسن کی ایجاد ہے، کیا اچھا کام کیا کہ روشنی کر گئے، ، اس خیال کے آتے ہی میرے ذہن میں آیا کہ آج تو 14 فروری ہے ویلنٹائن ڈے اسی اثناءمیں گھر میں ہمارے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹانے والی خاتون کمرے میں داخلی ہوئیں سلام دعا کہ بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ میرا شوہر موسمی کام کرتا ہے آج کے دن گلاب بڑے بکتے تھے آج صبح سے نکلا ہے دوپہر اسکے اسٹاپ سے ہوکر آئی ہوں باجی ایک بھی نہیں بکا کیا کوئی بات ہوئی ہے شہر میں ؟ میں نے انکو کوئی جواب نہیں دیا بس اتنا کہا ہیپی ویلنٹائن ڈے، اب آپ اس میں کنیکشن ڈھونڈ رہے ہوں گے اگلی چند سطروں میں مل جائے گا۔

دن بھر ٹی وی کی اسکرین پر ویلنٹائنڈے کی ایک ہیڈلائن دیکھنے کو نہیں ملی، نہ مارنگ شوز پر لال پھول ملے نہ محبت کا دم بھرتے حقیقی ہمسفر وں کی جوڑیاں، نہ چاکلیٹ کے تحائف کی باتیں ہوئی نہ یہ بحث کہ یہ دن منایا جائے یا نہیں، شام ڈھلتے ہی ایک چینل پر ایک ہیڈلائن دیکھنے کو ملی اور ساتھ ہی ایک دوسرے ٹی وی چینل پر اس موضوع پر بحث بھی ہاتھ لگ گئی جسکو میں نے سنا اور اپنے بابا سے پوچھا کہ بابا مسلمانوں کی آخری ایجاد کیا تھی، ابا چونکے میرے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے اور اس بحث سے محضوظ ہورہے تھے کہنے لگے، کیا ہوگیا آپکو ؟میں نے بابا سے کہا یونہی جاننا چاہ رہی تھی انھوں نے کہا شاید الجبرا مسلمانوں کی آخری ایجاد ہو گی، میں جواب لیکر کمرے میں آگئی، اور پھر اپنے نانا جان کو ٹیلی فون کیا اور پوچھا کے مسلمانوں کی آخری ایجاد کیا تھی، انھوں نے کہا بیٹا اسپین کو یہ اہمیت حاصل کہ اس خطے میں رہنے والے مسلمانوں نے آخری ایجادات میں ہمیشہ کی طرح اپنا حصہ ڈالامیں نے پھر پوچھا نانا جان کسی چیز کا نام جو ہمارے لئے اور دنیا کہ لئے کارآمد ہو تو بہت ذہن پر سوچ کر کہا کچھ کہہ نہیں سکتاہاں یاد پڑتا ہے کہ شاید طب کاشعبہ رہا ہے جس میں مسلمانوں نے آخری ایجادات کی ہوں گی یہاں سے میں نے گوگل کے انجن سے لیکر کئی پروفیسررز سے اس بابت سوال کیاماہر عالمی امور جناب منور مرزا صاحب نے میری مدد کی اور بڑی تفصیل سے بات کرتے ہوئے مجھے سمجھایااور انکے مطابق مسلمانوں نے 500 سال گزرے کے کوئی ایجاد نہیں کی البتہ آلات جراحی، اور قطب نما مسلمانوں کی ممتاز اور آخری ایجادات کہی جاسکتی ہیں جبکہ مسلمانوں نے نظریاتی علوم پر زیادہ کام کیا جبکہ ٹیکنولوجی کے شعبے سے دور رہے اور اس جانب طالع آزمائی سے اجتناب نے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا اس بات کا ادراک لمحہ موجود میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام گزارشات کا مطلب یہ تھا کہ یوں تو مسلمانوں کی فتوحات سے تاریخ بھری پڑی ہے، اور اسلام جیسا تابندہ و جاوید مذہب رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے، کہتے ہیں جو چیز آپکے پاس سب سے بہترین اسے اپنے اہل واعیال ہمسائے اور دوست احباب کے ساتھ باٹنا چاھئے، تو پھر اسلام جیسا بہترین مذہب کے پرچار کے لئے یورپ اور امریکا کے کلیساﺅں میں تو سب جانے کو کر تیار ہوتے ہیں لیکن شہد سے میٹھے اور ہمالیہ سے اونچے دوست تک اس اسلام کا دائرہ پھیلانے میں آخر کیا دشواری ہے؟، ویلنٹائن ڈے، مناناغلط ہے یہ یہود ونصاریٰ کی سازش ہے یہ لفظ سنکر سنکر کان پک گئے ہیں، اور اس سازش کا کیا جو ماضی میں عظیم الشان سلطنتوں کے فاتح مسلمان حکمرانوں نے خود کی، جس پر تاریخ کے طالب سے لیکر محقیقین بھی حیران ہیں ایک شاندار ورثے اور تابناک مستقبل کے جانباز مسلمان آخر کیوں گرے، مجھ جیسے جاہل انسان کو عام لفظ میں یہ بات بس یوں سمجھ آتی ہے، جب ہم نے اپنے دائرے کو چھوڑا، اور کفر اور اسلام کے فتووں کا نقارہ بجایا تو تفریق تقسیم اورمنتشر جیسے اعلی اوصاف ہماری جھولی میں ا یسے گرے کہ اب لاکھ دامن جھاڑ لیں ان سے جان نہیں چھوٹتی، میں ویلنٹائن ڈے منائیں یا نہ منائیں، فادرذ ڈے منائیں یا نا منائیں، مادرذ ڈے منانا کتنے ثواب اور گناہ کا کام ہے اس بحث میں نہیں پڑنا چاھتی ہاں لیکن یہ ضرور کہنا ہے، کہ معاشرہ کو تنگی نظری کی بھینٹ چڑھنا، آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا ہم آنے والوں کے ازہان پر ایسے تالے ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ جس کہ کھل جانے پر ہم کوئی مضبوط دلیل دینے سے بھی قاصرہوجائیں، معاشرے کی تعریف میں فرد کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ اور انسان کی جبلت ہے کہ وہ بند کیواڑ کھولنے کو اپنا حق سمجھتا ہے، تو ہم کیسے کسی سے اسکی یہ جبلت چھینے کے در پہ ہیں، ترکی یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے اور اس ملک کے شہر استنبول کے کمال اتاترک ائیرپورٹ کا مناظر اور باہر نکل شہریوں کی وضع قطع سے لگتا ہے کہ ان پر یورپ کے پہناوں کا غلبہ ہے لیکن ترکوں کا اسلامی پس منظر اور آج بھی مسلمانوں کے دیگر ممالک میں اسکی اپنی ایک منفرد حیثیت اور مقام اسکی مضبوط جڑوں کا عکاس ہے، ، اور ترکی میں سیاحت کا شعبہ اس ایشیائی یورپی ملاپ کا منہ بولتا ثبوت ہے، ملائیشا جیسے ملک نے ترقی کی کوئی 70 سالہ تاریخ نہیں دیکھی ہاں لیکن وہاں ڈاکڑ مہاتیر محمد جیسی قیادت ضرور نصیب ہوئی مہاتیر محمد کی چالیس سالہ سیاسی سفر کا حقیقی اور دائمی فائدہ ملائیشیاکو پہنچا 1981 سے لیکر 2003 ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح ملائیشیا کی سرجری کی اور اس کامیاب سرجری نے اس ملک کو دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط اسلامی ریاست کے طور پر ابھرتے دیکھا، اور اسکی معیشت کا بڑا انحصار اس ملک کا شعبہ سیاحت ہی ہے ان دو ممالک کا تذکرہ اسلیے کیا کہ یہ بس پڑوس میں ہیں اورانکی تاریخ اورجغرافیہ کم و پیش ہم سے اکثر کے ذہن میں ہے ہو سکے تو زمینی حقائق اور تبدیلی کے جزیات کو سمجھنے کے لئے سفر کرلیجئے گا، سرزمین عرب کی مثال دی جاسکتی ہے کہ کس طرح سعودی عرب اور دبئی کے قانون کو علیحدہ کر کے ہمارے عربی بھائیوں نے اپنے لئے معیشت کے دروازے کھولے، لکھنے اور کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن دست بستہ درخواست یہ ہے کہ کھوئی ہوئی انتظامیہ کے کرنے والے کام اگرمتحرک عدلیہ کے ایوانوں سے آئیں گے تو مجھ جیسے تو سوال کرتے ہوئے بھی کپکپائیں گے، مین ویلنٹائن کو قومی سطح پر منائے جانے کے اعلا ن کی نا خواہش رکھتی ہوں نہ سوچ لیکن یہ ضرور کہنا چاھتی ہوں کہ آزدای اظہار رائے کا حق جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ہر فرد کو دے رہا ہے اسکو نہ صلب کیا جائے، کہنے دینے اگر کوئی ہیپی ویلنٹائن ڈے کہہ کر خوش ہونا چاھتا ہے، میرے یا کسی بھی شخص کا ذاتی فعل اسکی پسند نا پسند تک ہی رہے تو بہتر ہے نا کہ اسکی پاداش میں مذہب اور ثقافت کے بے بنیاد دیوار کھڑی کی جائے، ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ دیتی ہے اور یہ زمہ داری ریاست پاکستان کے مقتدر ایوانوں میں بیٹھے اشخاص کی آئینی ذمہ داری ہے جس سے منہ موڑ کر نئی نسل کے سامنے پشیمانی کے سواءکچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔