1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. ہم ترقی کر گئے

ہم ترقی کر گئے

حکمت اور دانائی دنیا بنانے والے کے وہ اوصاف ہیں جو اس نے اپنی سب سے محبوب مخلوق، اشرف المخلوقات یعنی انسان کو ودیعت کئے ہیں، اور اس انسان نے ترقی کی ان منزلت کو عبور کر لیا ہے جسکا ادراک حضرت انسان کو خود بھی نہ تھا۔

ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی جارہی، حقیقی طور پر یوں لگتا تھا کہ جیسا یہ کوئی اگلے زمانوں کی بات ہوگی جب شاید ہم نہیں ہوں گے، اور کچھ جھوٹ بھی نہیں لگتا تھا، بھئی جس زمانے میں ہمارے گھر ٹیلی فون لگا، گلی کے تمام لوگوں کے فون ہمارے ہی گھر آتے تھے یہ دور تھا کوئی 1980 اور مجھے یاد ہے کہ گلی کی خالہ کی بیٹیوں کا فون آنا ہو یا سامنے والی بھابھی کی اماں کی کال میری اماں مجھے کہتی تھی جاﺅں زرا انکو بتا دوں کے فلاںکے بیٹے یا اماں کی کال آئی ہے اور ہم دوڑے دوڑے بتانے چلے جاتے تھے جبکہ ٹیلی فون پر بات ختم کر کے خالہ ہوں یا بھابھی بے حد شکریہ اداکرتی اپنے گھر کی راہ لے لیتی تھیں۔

وقت نے کچھ اور کروٹ لی اور سی ایل آئی(کالر لائن آئیڈینٹیفیکشن)آگیا مانو یوں لگا کہ جدت کے کسی اگلے دور میں داخل ہو گئے ہیںیو آہستہ آہستہ ترقی ہوتی رہی اور ہم اسکا حصہ بنتے بنتے عادی ہو گئے، آج جس اسمارٹ موبائل کو ہم اور آپ باآسانی استعمال کر رہے ہیں اسکی حکمت کے پیچھے انسانوں کے وہ ازہان ہے جو آئے روز اس میں نت نئی تبدلیاں لاکر ناصرف اپنے صارف کو متوجہ کرہے ہیں بلکہ اس کی جدت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آتی جارہی، پہلے تو مواصلاتی رابطہ کے لیئے ٹیلی فون تھا جسکا ایک تار بھی ہو ا کرتا تھا، اب تو ہر جھنجھٹ سے آزادی نہ تا ر کا جھگڑا، نا لائن مین کے نخرے، آج ہمارے موبائل کے پاس ورڈ سے لیکر ہمارا ی میل، ہمارے فیس بک، ہمارا انسٹگرام، ہمارا ٹوئیٹر اکاونٹ، ہمارا یوب ٹیوب اور گوگل پاس ورڈ موجود ہے، اور ہم اپنے اکاونٹ تک رسائی کے لئے اس پاس ورڈ کے بغیر اپنی مطلوبہ ایپ استعمال نہیں کر سکتے، ہم نے اپنی تمام چیزوں پر پاس ورڈ کا پہرا رکھا ہوا ہے، جو بغیر ہماری کمانڈ کے اپنی مرضی سے حرکت نہیں کر سکتا، موبائل میں موجود ایک سم آپکو کراچی میں بیٹھے بیٹھے دنیا کے کسی بھی حصہ سے آپکا رابطہ بحال کرسکتی ہے، وہ بھی گھنٹوں میں نہیں چند سیکنڈ ز میں، یہا ن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ سب انسانی دریافت ہیں، جس کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا رتبہ بھی دے رکھا ہے اور یہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ترقی کی ایک نئی منزل پر قدم رکھ رہا ہے۔

ٹی کے چینلز ہاتھوں سے تبدیل کرتے کرتے آج وہ ٹیکنولوجی استعمال ہو رہی کہ عام انسان انکی اصطلاحات تو دور اسکے استعمال سے بھی ناآشنا ہوگا، ایک اسمارٹ فون سے ہمارا ایسارشتہ بن گیا ہے کہ اسکے سامنے کسی کی کوئی اہمیت رہی نہیں ہے اور یہ سچ چاھے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، گئے زمانوںکے لوگ تو آسمان کے تارے گنتے گنتے سو جایا کرتے تھے، لیکن نئے زمانوں میں انھیں یہ جان کر حیرت ہی ہو گئی کہ یہ ستارے یہ کہکشاں بھی ایک دنیا ہے، اور انسان محترم چاند پر جا پہنچا ہے، وقت اپنی بھر پور اڑان میں ہے، اور ہم سب کے ساتھ ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں، خط سے ای میل کا سفر اچھا ہے، ٹیلی فون جیسے آدھی ملاقات کہا جاتا تھا، اب اسکائپ، یا ویڈیو کالنگ ایپس سے پوری اور دوبدو ملاقات بھی ہوجاتی ہے جو یقینا ہماری ضرورت ہے کھانا گرم کرنے کے لئے، ، چولہے اور ہنڈیاں سے مائیکرو ویو نے یقینا آزادی دلادی ہے، خودکار واشنگ مشین سے اجلے کپڑے بھی زیب تن کئے جاتے ہیں، لیکن میرا ایک بنیادی سوال ہے جسکے باعث، مجھے یہ سب لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ یہ ہے کہ جس ای میل کا پاس ورڈ، جس فیس بک کے خفیے ہندسے، جس یوٹیوب اور انسٹراگرام کے کی ورڈ ز ہم اپنے اماں ابا کو نہیں بتاتے اور اگرکسی کوئی موبائل دیں تو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کو وہ اس مقام تک رہے جہان تک کا ہم ایسے ایکسیز دے رہیں وہ شخص وہی تک رہے لیکن اس عمل کو کرتے ہوئے، کیا کبھی ہم یہ سوچتے ہیں جو کچھ ہم چھپا رہے ہیں وہ دنیا جانتی ہے۔

سیٹلائٹ نامی وہ بلا جس نے آپکی اور ہماری ہر شہ کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے وہ سب جانتی ہے کہ ہمارا پاس ورڈ کیا ہے ہم نے دن میں کتنی بار اپنا کون سا اکاونٹ استعمال کیا، آج کل تو لوگ ہیکنگ میں ڈیپلومہ کر رہے ہیں، آپ کا پاس ورڈ تو بہت معمولی چیز ہے، اس سب سے کہیں زیادہ کی معلومات ان ہیکرز کو ہوتی ہے، مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ ہم دنیا جہان کہ پن کوڈز لگا کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں لیکن در حقیت ہم نے اپنی اہم چیزوں کی معلومات ہوا کے دوش پر چھوڑ رکھی ہے، جو جدید اور خودکار نظام کے تحت ہمارے ہر عمل کی نگرانی کر رہی، دنیا بھر میں اسمارٹ آئی ڈی کارڈز استعمال ہوتے ہیں سو اب پاکستان میں بھی اسکا عمل شروع ہوچکا ہے مجھے قوی یقین ہے کہ 2020 تک یہ اسمارٹ آئی ڈی کارڈر سسٹم کا حصہ بن جائیں گے جس ایک جانب تو سہولت میسر ہوگئی وہیں دوسری طرف، ہم کب؟ کہاں ؟اور کتنے عرصے رہے، ایک جگہ کا دن کے کس حصے میں کتنی بار وزٹ کیا، یہ کارڑ ہمارے پل پل کا ڈیٹا مرتب کرتا رہے گا، جو یقینا معاشرے کی بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لئے معاون ثابت ہوں گے، وہیں آپکی پیروایسی کا یک اور تالا کھل جائے گا، ہم جتنی تیزی سے جدید ہو رہے ہیں اتنی ہی تیزی سے محتاج ہوتے جارہے ہیں، ہم نے اپنی زندگیوں کو مختلف آلات کے ساتھ گزارنے کا عادی بنا لیا ہے، انسان ترقی ضرور کر رہا ہے لیکن اس نے اپنی آزادی کی چابی کو ہوا میں اچھال رکھا ہے اور گمان یہ ہے کہ سب محفوظ ہے، جبکہ یہ ایک دھوکہ ہے، ہماری اہم ترین معلومات ڈیٹا بیس میں جمع ہورہی ہے، اور اسکی مدد سے کسی بھی انسان تک رسائی اب عام سی بات ہوگئی ہے۔

انسانی ترقی ربورٹ کے مختلف اداروں میں کام کرنے کا واضع ثبوت ہے، دنیا میں گھومنے کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کے شہر حیدرآباد میں ایک ایسا ریسٹورینٹ ہے جس نے بچوں کی دلچسپی کے پیش نظر اپنے ہوٹل میں ربورٹ ویٹر رکھ لیا ہے جو صارفین کو کھانے سرف کرتا ہے، جبکہ دنیا میں ربوٹس نے اپنی جگہ بنا لی ہے، لیکن یہ ربورٹس کتنے تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کیا آئندہ صدی تک اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے یہ کہنا فی الحال مشکل ہے، لیکن یہ طے ہے کہ یہ بھی سرایت کر جائیں گے اور ہم اسکے بھی عادی ہوجائیں گے پچھلے دنوں اے ٹیم سے پیسہ چوری ہونے، پن کوڈ کے زریعے آپکا اے ٹیم کارڈ سے آپکی رقم چوری ہونے کی بازگشت یقینا آپ نے سنی ہوگی، یہ بات گھر میں کام کرنے والی خاتون کے سامنے ہوئی تو کہنے لگی، ہمارے گاﺅں میں آج بھی بینک پر بھروسہ نہیں ہے، میں تو آج بھی اپنے پیسے مٹی کے گملے میں رکھتی ہوں، پہلے تو میں ہنسی کے کاش سب اتنا ہی پیسہ رکھیں کے مٹی کے گملے میں سما جائے، اور پھر سوچنے لگی، کے دیسی طریقہ کار اب بھی قابل عمل ہے، لیکن یہ پلاسٹک منی کا جو اسٹائل ہے اسکی الگ بات ہے، یہاں بھی آپکی تصدیق کے بغیر آپکے اکاﺅنٹ کی معلومات کو ئی دوسرا نہیں لے سکتا، ، لیکن کچھ ایسے شاطر بھی ہیں کہ انکے لئے یہ سب پہرے بیکار ہیں اور وہ جب چاھتے ہیں ہاتھ کر جاتے ہیں دستی یعنی مینوئل طریقہ کار سے کام کرنے کے طریقے کار سے لوگ دور ہوتے جارہے ہیں، جبکہ آٹومیٹیک کار سے لیکر ہر چیز آٹو پر کرنے کی ایسی عادت اختیار کی جارہی ہے ایسا لگتا ہے ہم سب زمین پر انہی تمام خودکار اشیاءکے ساتھ نوارد ہوئے تھے، کبھی سوچا تو بڑا عجیب لگتا ہے کہ بغیر موبائل فون زندگی کیسے ہو گئی؟اگر ہمارے تمام رابطوں کا وہ پرانا طریقہ کار یعنی خط لکھنا رہ جائے تو کیا ہو گا، ان میں سے کچھ بھی دوبارہ نہیں ہونے والا، ب جوہونے والا ہے وہ ہے صرف مزید ترقی، اور ٹیکنولوجی کا مزید فروغ جس سے چاہ کر بھی ہم اپنا رستہ جدا نہیں کرسکیں گے لیکن خود کو ہر شہ کا عادی بنا لینا دانشمندی نہیں، آپکی ٹیکنولوجی پر مکمل گرفت ہونی چاھئے لیکن اس کے جال میں اتنا ہی پھنسے جتنا متحمل ہوسکیں۔

کچھ اہم باتیں تحریر کرنا ضروری ہے اپنے ای میل، سے لیکر اپنے موبائل کا پاس ورڈ اور اے ٹی ایم کا پن کوڈ، پاس ورڈ ہر ایک ماہ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ بعد تبدیل کر لینا چاھئے، ، اسکے علا وہ کوشش کی جانی چاھئے کے اپنے موبائل نمبر، گھر والوں کا یا رشتے داروں کا گھر ٹیلی فون یا موبائل نمبر ہر گز اپنا پاس ورڈ نہ بنائیں، اسکے علاوہ، کوشش کر یں ایک جیسا پاس ورڈ ہر ایپ کا نا ہو مثلا اگر موبائل کا پاس ورڈ ہے تو ای میل کا الگ اور اے ٹی کا بھی کوئی الگ پاس ورڈ ترتیب دیں، یہ باتیں بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں لیکن انھی میں ہماری حفاظت پوشیدہ ہوتی ہے، موبائل میں لگی ایک چھوٹی سے سم آپکو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ناصرف آپکی آواز بلکہ اب تو آپکی تصویر بلکہ آپکی جیتی جاگتی ویڈیو کو ہوا کے دوش کے زریعے بلکل ٹھیک ٹھیک لے جارہی، ایک زمانہ تھا کہ پانی کنوﺅں سے بھر کر لایا جاتا تھا آج سینسرز نلکے ہیں نہ بٹن دبائیں نہ نلکہ کھولنے کی زحمت کریں بس ہاتھ اس نلکے کے نیچے رکھیں اور آپ پانی ہی پانی، واہ واہ جدت ہی جدت ہے، لیکن یاد رہے ہم نے اپنا سب کچھ کسی ایسے انجان کے ہاتھ تھاما رکھا ہے جسکو ہم جانتے نہیں لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ سیٹلائٹ ہمیں مانیٹر کر رہی اور ہماری معلومات اسکے پاس موجود ہے لیکن یہ معلومات کسی بھی وقت آپ سے متعلق امور کی جانچ پٹرتال کے لئے کام میں لائی جاسکتی ہے ہمارا موبائل ای میل اور اے ٹی ایم اور ان جیسی دیگر اشیاءکے پاس ورڈ محفوظ ہیں یا نہیں فیصلہ آپکو کرنا ہے، اور کیا ہم حد سے زیادہ جدت کے غلام ہوتے جارہے ہیں، ، اور آہستہ آہستہ خود کو غیر محفوظ کرتے جارہے ہیں سوچئیے گا ضرور۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔