1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. چینل بند کردو

چینل بند کردو

میں نے آج سے کئی سال پہلے اپنی ایک تحریر میں سوال کیا تھا کہ چار چینلز کی اجارادری میں باقی ٹی وی چینلز کیا کررہے ہیں، آج کل جب کے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری معاشی مشکلات سے دوچار ہے، ورکرز معاشی استحصال اور جبری برطرفیوں کو بھگتے یا ریٹینگ فوبیا کے پیچھے دوڑنے والوں کی آوازیں سنیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ریٹنگ کی آواز ان حلقوں سے آتی ہے جنھیں اس کی الف ب بھی نہیں معلوم، جس میں میرا شمار سرفہرست ہے، لوگ کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا دیکھنا چاھتے ہیں یہ دو الگ الگ موضوعات ہیں لیکن اس میں ایک ضمنی سوال ہے جنکی کی ریٹینگ آرہی ہے انکے پاس کیا ایسی گیدڑ سنگھی ہے، جو دوسروں کے پاس نہیں، دن کے چوبیس گھنٹوں میں شام سے لیکر رات 12 تک کا جو مواد نشر کیا جاتا ہے اسے پرائم ٹائم کی اصطلاح کے ساتھ جانا جاتا ہے، سارے دن کیا چلتا ہے اور کیوں چلتا ہے، اس پر صرف بحث ہوتی ہے، لیکن پرائم ٹائم میں یہ طے کرلیا جات اہے کہ اینکر ہی ریٹینگ کی وجہ ہے، اسکا کونٹیٹ چاھے کتنا اچھا یا برا کیوں نا ہو، ایک عام سی بات ہے کہ اگر جیو ٹی وی پر شام سات بجے کراچی کے کچرے پر حامد میر ٹرانسمیشن کریں اور اس میں چیف منسٹر سے لیکر مئیر کراچی، اور لیٹس کلین کراچی کے بانی علی زیدی بھی ہوں وزیر بلدیات بھی ہوں تو کوئی کیوں کسی اور چینل پر کراچی کے کچرے کی آہ وبکا سنے گااور پھر ریٹنگ کے سارے میٹر بھی انہی کونمبر ون دیکھائیں گے، ہر شخص آرمانی، اور ویساچی جیسے برانڈ ہی پہنا چاھتا ہے، اسی طرح ہر شخص جیو اے آر وائی، دنیا اور سماء اور کہیں جاکہ ایکسپریس ہی دیکھنا چاھتا ہے اور اس پر راج کرتے اینکر چاھے وہ شوز کریں یا نیوز پڑھیں ساری ریٹنگ بھی انکی ہی آتی ہے، اب اس نوحہ اور گریہ و زاری کی وجہ جاننے سے پہلے یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ چینلز کو اے بی اور سی کیٹگیری میں شمار کرکے انکی مالی حیثیت کا تعین بھی کیا گیا ہے، کسی حد تک اس بات کو ہضم کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ میڈیا لاجک نامی بلا جب سے وارد ہوئی ہے اس نے چینلز کو عجیب وغریب بنا دیا ہے، 5 بڑے چینل کی ریٹینگ کبھی ڈاون نہیں ہوئی، اب اسکی وجہ کیا ہے اور اسکی لاجک کیا ہے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں، لیکن میرا سوال بڑا سادہ ہے اگر سارے بڑے بڑے ہاتھی ایک جگہ ہیں تو یہ جو چینلز کا جنگل پھیلا ہوا یہ تو اسکو بند کریں یا اسکی منصفانہ پالسی ترتیب دیں، ہر جگہ حامد میر کاشف عباسی کامران خان، شاہ زیب خانزداہ، مہر بخاری، عاصمہ شیرازی، یا فریحہ ادریس صاحبہ جو سب میرے سنیئر ہیں اور نہایت قابل لوگ ہیں، موجود تو نہیں ہوسکتے، اور اگر انھی تمام لوگوں کے گرد میڈیا لاجک کے نمبر گھومتے ہیں تو اس میں کیا لاجک ہے یہ سمجھائی جائے۔

کیبل آپریٹریز جیو کو آخری نمبر پر بھی ڈال دیں ریٹنگ پر اثر نہیں پڑتا، ایکسپریس نیوز کا ریٹنگ لانے کا پردہ فاش ہو لیکن اسکی ریٹنگ پر اثر نہیں پڑ ریا، شام سات سے آٹھ میں سماء سے لیکر دنیا اور دنیا سے آگے کچھ بھی نہیں کا فارمولہ کون طے کر رہا ہے، ہر چینل کے مالک یقینا اپنے چینل کو سب آگے دیکھنے کی خواہش رکھتے ہوں گے، لیکن پاکستان کا نمبرون نیوز چینل نمبر ون ٹکر مطلب جسکا سب کچھ نمبرون تھا، اسکے ساتھ کیا ہوا اور کیسے ہوا، یہ بھی آنکھوں نے دیکھا ہوسکتا ہے آپکو میری بات بے ربط لگے مسئلہ یہ ہے کہ تمام ہی چینلز میں کام کرنے والے ورکرز کے لئے انکا چینل ہی انکی جنت ہے، لیکن بعض بے وجہ کے ہھتکنڈے جس میں ریٹنگ سرفہرست اس نے میڈیا ملکان اور انکے ورکرز پر بے وجہ کا تناو طاری کردیا ہے، شاید میری بات بڑی غیر تکنیکی محسوس ہو لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں 50 سے زائد چینلجز ہیں جو نیوز، نشر کرہے ہیں، باقی اینٹرٹیمنٹ، اسپورٹس، ریجنل میوزک اور اسلاامی چینلز کی فہرست الگ ہے، کیا نیوز نشر کرنے والے چینلز پر دیکھائی جانے والے پروگرامز کا معیار شخصیات ہیں یا اس پر نشر کئے جانے والا مواد، دوسری طرف پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں ہر محیط ہے اور انکے مطابق وہ ٹاک شوز کو دیکھنے سے بہتر کام اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کو ترجیح دیتے ہیں، بلکہ ایک نوجوان نے مجھے یہاں تک کہاں کہ چار چینلز کے بڑے اینکرز کے علاوہ کوئی اور شو کرے بھی تو کیا فرق پڑتا ہے، اب تو سب کو پتہ کہ چینل پر نیوز اور کرنٹ افئیرز میں صرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کی جنگ ہے، کسی بھی چینل کو چھاٹا یا بڑا کہنے کا اختیار کس نے اور کیوں دیا اس پر بھی سوال ہونا چاھئے مئیر کراچی وسیم اختر ہوں یا علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال سب ہی سے بات کی ہے اور سب ہی کو عزت دیکے ہمیشہ اپنے پروگرامز میں مدعو کیا ہے لیکن معزرت کے ساتھ ان سب کو ریٹینگ لانے والے چینلز کا ایسا نشہ ہے کہ وہ چاھے عزت دیں یا نا دیں جانا سب نے انہی کے پاس ہے شیخ رشید کو سماء پر جگہ چاھئے یا اے آر وائی پر منسٹر کا عہدہ کوئی بھی ہو وہ عوام کے لئے حاضر ہوتا ہے لیکن چھوٹے چینلز جنکو میں چھوٹا نہیں سمجھتی آنے سے پہلے یہ کہنا کہ اچھا آپ بھی کوئی چینل ہیں معذرت ابھی وقت نہیں میں اس وقت فلاں فلان چینل پر ہوں۔

خیر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریٹنگ کے مینارے بنانے والوں نے جو میٹر نصب کر رکھے ہیں انکی تعداد سے لیکر انکی اہمیت کا کیا معیار ہے یہ جواب بھی بہت ضروری ہے، پچھلے دنوں ایک آسکریم پارلر پر ایک خاتون میرے پاس آئیں اور مجھے میرے نام سے مخاطب کر کے پوچھا آپ ٹی وی پر پروگرام کرتی ہیں، میں نے جواب دیا جی ہاں کہنے لگی میرے بابا نے مجھے بھیجا ہے وہ آپکا شو دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ 40 سے لیکر 60سال تک کی عمر کے لوگ کرنٹ افئیرز کے شوقین ہیں اور اسے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو مجھ جیسے اینکرز کو بھی جانتے ہیں ہاہاہاہا، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جن چینلز پر سیاسی شخصیات ے ساتھ اینکرز اور پروڈیوسر کے رابطے ہیں وہ انکے لئے ہر وقت دستیاب ہیں تو باقی جنکو چھوٹے چینل کہا جاتا ہے وہ کہاں جائیں، اس میں ایک نکتہ یہ بھی کہ پیمرا آئے روز نئے چینلز کے لائنس کا اجرا، کرر ہا ہے جبکے معروضی حالات کے سامنے ہوتے ہوئے ہر نئے آنا والا چینل اپنی بقا کی جنگ کے لئے لڑتا رہے گا، پراپرٹی ڈیلرز، کیبل چلانے والے، بیکری اونر، اور ناجانے کون کون سے لوگ چینل کے مالکان کی فہرست میں ہیں، پھر کیایہ چینلز کی بھر مار اپنے تعلقات کو وسیع کرنے اور اپنے کاروبار کے اثر کو قائم رکھنے کے لئے کھولے جارہے ہیں، صحافی کے لئے ہر وقت ایک ہی تلوار، حالات ٹھیک نہیں تنخواہ وقت پر نہیں، چینل کی ریٹینگ نہیں آرہی، صحافتی تنظیمیں بھی چار دن کا بین کرکے خاموشی کی چادر میں ایسا سوتی ہیں کی اگلے درجنوں صحافیوں کی برطرفی یا پھر کسی صحافی کی خودکشی کی خبر پر نیند ٹوٹتی ہے ریٹینگ کے چئمپن ہی اگر 6 یا 8 یا 4 چینلز ہیں تو باقی تو سب کی دکانیں بند کریں، اس وقت ٹیلی ویژن کی زبوں حالی کی گریہ جاری ہے کہ ویب ٹی وی چینلز بھی میدان مین آگئے ہیں، اب انکے ریٹینگ معیار کو کون جانچ رہا ہے، ریٹینگ کی بنیاد بنا کرمالکان کے من مانے فیصلے کسی مذاق سے کم نہیں لگتے، بین الاقوامی میڈیا کے کسی ایک اینکر یا رپورٹر پر کیا ریٹینگ کی تلوار لٹکتی ہے؟ کیا ان سے کہا جاتا ہے کہ آ نیوز کی ریٹنگ نہیں آرہی، شوز کی ریٹنگ نہیں آرہی، میرا تو بڑا سیدھا سا سوال ہے، جنکی ریٹنگ آرہی ہے، اسکی کیا وجہ ہے، اور جنکی نہیں آرہی اسکے پیچھے کیا سائنس ہے سیاست دانوں کو بھی انہی چار چینل پر دیکھائی دینے کا شوق ہے جو بڑے گروپس ہیں، باقی کوئی کتنی عزت دے علی زیدی نہیں آئیں گے، شیریں مزاری نہیں آئیں گی شہباز شریف نہیں آسکیں گے، بلاول صاحب نہیں آئیں گے، اس بے توقیری کا حل تو یہی ہے باقی سب چینل بند کر اور 6 یا 4 یا 8 چینلز کو کھانے کمانے دو بات لمبی ہوگئی لیکن ایک سوال اور ہے یہ جو ریٹینگ میٹر کیا وہاں کوئی خاص بجلی کی ترسیل کا نظام ہے، جہاں لائٹ ہی نہیں جاتی اور بس ریٹینگ ہے کہ آتی ہی جاتی ہے ۔ ۔ آتی ہی جاتی ہے۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔