1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. چھنوں کی آنکھ، سن رے بلوری آنکھوالے آں

چھنوں کی آنکھ، سن رے بلوری آنکھوالے آں

میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو سلام کرنے کے بعدجس جگہ جانا تھا اس مقام سے آگاہ کیا، جس کے بعد ڈائیور نے جی اچھا کہا اور گاڑی سڑک پر آتے ہی میں گاڑی سے اپنے آس پاس کی سڑکوں کا جائزہ لیتی ہوئی ابھی اپنے ہینڈ بیگ سے ہینڈ فری نکال ہی رہی تھی کہ اچانک عبدالکریم مخاطب ہوا میڈم آپ نے وہ سنا علی ظفرجو گانے گاتا ہے وہ کتنا ذلیل ہو رہا ہے میں نے بات کو طول دینے کے بجائے صرف اتنا کہا اچھا بھائی مجھے علم نہیں کیونکہ میں اس بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہ رہی تھی، اور اس دوران میری ہینڈز فری بھی مجھے مل گئی میں ابھی اسے ٹھیک ہی کر رہی تھی کہ، وہ ڈارئیور پھر کہنے لگے، میڈم مجھے تو پتہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا، ، یہاں میرا تجسس جاگا اور میں نے سوال کیا، کہ وہ کیسے؟ عبد الکریم نے کہا میڈم نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پی ایس ایل کا فائنل یاد ہے آپکو، میں نے کہا بلکل 25 مارچ کو ہوا تھا، میرے اتنا کہنے پر ہی وہ کہنے لگا جی جی میں اس دن گھر میں ٹی وی پر پی ایس ایل کافائنل دیکھنے بیٹھا تھا، جسکی اختتامی تقریب شروع ہوئی اور جب علی ظفر آیا نا میڈم تو اللہ اکبر کی آواز سے میرے گھر گونج رہا تھا میں نے ٹی کی آواز بند کی کیونکہ وہ گانا گا رہا تھا، اور میں وضو کرکے مسجد کو چلا گیا واپس آیا تو میچ شروع ہوچکا تھا اس دوران میری ماں نے پوچھا کہ اوے عبدالکریم اے دس انہاں لوکاں نو آذان دی آواز نئی آندی جے لگے نئیں اپنی مستی وچ میں نے ماں کو کہا تھا کہ یہ اللہ کی آواز پر نہیں روکا اب اس کا تماشہ دنیا دیکھے گی، میں چپ چاپ ڈائیورکی بات سن رہی تھی بغیر اسے ٹوکے کہ وہ اچانک بہت مطمئن انداز میں کہنے لگا دیکھ لیں میڈم مارچ کی 25 کی بعد آج انیس اپریل ہے پورا ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور علی ظفر اوروہ ہسنے لگا، میں نے مزید کچھ نہ کہنے میں ہی عافیت جانی اور سوچا کہ لکھوں گی ضرور کہ انسان کی تسلی کے کتنے اور کیسے کیسے انداز ہیں، گاڑی رکی ڈرائیور نے مجھے پیسے بتائے اور میں ادائیگی کے بعد اپنے مقرہ راستے پر چل پڑی، وہاں گئی تو پتہ چلا جس کام کے لئے گئی تھی اس میں تھوڑا وقت لگے گا، لہذا ریسپشنسٹ نے کہا، آپ انتطارگاہ میں تشریف رکھیں اور میرے قدم اس جانب بڑھ گئے، ابھی دم ہی لیا تھا کہ سامنے ٹی وی دکھائی دیا جس پر لال لال رنگ کے بریکنگ نیوز کے ڈبے تیر رہے تھے اوران پر لکھا تھاکہ مشہور گلوگارہ میشاشفیع نے معروف گلوکار علی ظفرپر جنسی ہراسگی کا الزام لگایا ہے، میں ابھی یہ دیکھ رہی تھی کہ آفس بوائے نے پوچھا میڈم چائے پئیں گی، میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پانی لانے کا کہا تو وہ لڑکا جاتے جاتے رک کر ٹی وی اسکرین کو دیکھنے لگا، اور خودکلامی کرتے ہوئے کہنے لگا ارے یہ دونوں تو اچھا گاتے ہیں، آخری جملہ جو میری سماعت سے ٹکرایا وہ یہ تھا، کہ پہلے بڑا کوئی عزت کا کام ہورہا تھا اور سر جھٹکتے ہوئے وہ چلتا بنا، اور اتنی دیر میں مجھے بلاکر بتایا گیا کہ آپکا مطلوبہ کام مکمل ہونے میں مزید 10 منٹ لگ سکتے ہیں لہذا میں دوبارہ انتظارگاہ میں جا کر بیٹھ گئی، لیکن اب وہاں دو خواتین اور موجود تھیں، اور انکے درمیان بھی موضوع میشا شفیع اور علی ظفر ہی تھے اسکا آغاز کب ہو ا نہیں معلوم لیکن، ایک خاتون نے دوسری خاتون سے جب یہ کہا کہ بھائی یہ ٹی وی والے ایسے ہی ہوتے ہیں آج لڑ رہے ہیں کل کسی جگہ ساتھ گھومتے نظر آئیں گے، لیکن دوسر خاتون نے بہت قطعیت سے کہا جو بھی ہے بڑی بات ہے کہ اس لڑکی نے ہمت تو کی اور سچ کہا، لیکن اس پہلے کہ انکے دلائل آگے بڑھتے دوسری خاتون نے انھیں کم علمی کا ادراک کراتے ہوئے کہا کہ، آپ کہا ں دیکھتی ہیں سوشل میڈیا دیکھاﺅں گی آپکو ان دونوں کی تصویریں، پھر بات کرنا، دلائل دیتی خاتون نے بات کو ختم کرنے والے انداز میں کہا جو بھی ہے کوئی عورت اپنے لئے اتنی بڑی بات کہہ رہی اور ہمت کر کے دنیا کو بتا رہی تھی تو اس بات کی تو داد دینی پڑی گی، اب دیکھو نہ خود بھی تو سوالات کی ذد میں ہے دوسری خاتون نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور اسی اثناء میں پھر سٹی بجی گی، تالی بجے گی گنگناتا آفس بوائے پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے میری طرف آتے ہی خاموش ہوگیا، اور چند لمحوں بات مجھے آگا کیا گیا کہ کام ہو نہیں سکتا آپ کل تشریف لے آئیں میں اٹھی اور گھر کی راہ لینے کا سوچا اور کچھ ہی دیر کے بعد میں گھر لوٹ آئی، ٹی وی لاﺅنج سے اپنے کمرے تک کی مسافت کے دوران دو سوال سنے کو ملے ایک میری اماں کا تھا کہ دیکھا تم نے میشا شفیع اور علی ظفر والا معاملہ اور اگلی آواز تھی میری گھر کام کرنے والی زرینہ کی جو کہ پوچھ رہی تھی کی میڈم یہ جنسی ہراسگی کا مطلب کیا ہے، میں نے بس زرینہ سے پوچھا آپ نے یہ لفظ کب اور کہاں سنا، کہنے لگیں بڑی میڈم یعنی (میری اماں)نے ٹی وی کھولا تو بار بار ٹی وی والے یہ لفظ کہہ رہے تھے میں نے کہازرینہ سے کہا آپ یہاں بیٹھ جائیں میں آپکو بتاتی ہوں، آپ گھر گھر جاکر لوگوں کی انکے روزمرہ کام میں مدد کرتی ہیں، اس دوراں اگر کبھی کوئی شخص آپ کو ایک ٹک، دیکھے یا کوئی گھٹیا لفظ سے آپکو پکارے یا جب آپ لفٹ میں آتیں ہیں اس دوران کو ئی آپ سے چھیڑ چھاڑ کرے، یہ آپکے گھر یا رشتہ داروں میں کائی ایسا مرد ہو جو آپکو کسی غلط کام کرنے کا کہے اور آپکے انکار پر آپکو ڈرائے یا دھمکائے تو اس کو جنسی ہراسگی کہا جاتا ہے، اور اس معاملے کو خفیہ رکھنا بھی غلط ہے آپ خود کو اتنا مضبوط بنائیں کہ اپنے سے کی جانے والی کسی بھی بداخلاقی، بد تمیزی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا سیکھیں، میری بات ختم ہوتے ہیں وہ اتنی بے نیازی سے اٹھی جیسے میری کسی بات سے اسکا کہیں دور بھی واسط نہیں لیکن میرے نزدیک زرینہ کو سمجھانے کے لئے یہ تھوڑی لیکن آسان معلومات تھی، وہ کمرے سے جاچکی تھیں اور اماں کمرے میں داخل ہوتے ہی کہنے لگی کیا بنا آپکے کام کا جہاں آپ گئیں تھیں میں نے کہا اماں کل مل جائے گی رپورٹ، اور حسب عادت اماں نے کہا مل گیا تمھارے میڈیا کو آج میشا شفیع اور علی ظفر کا موضوع اب ساری رات یہی چلے گا، میں نے کہا اماں خبر تو جب ائے گی تبھی چلے گی نا آپ لوگوں کو تو میڈیا سے خدا واسطے کا بیرہے، اماں نے کہا بیر نہیں بس عجیب لگتا ہے کہ ایک موضوع مل جائے تو پورا دن اور پوری رات اسی پر لگا دیتے ہیں اگلے دن نام ونشان ڈھونڈتے رہ جاﺅ، مجھے اماں ابا کی ان تنقیدی باتوں کی عادت ہے لہذا میں نے کہا اماں اگر کچھ اچھا نہیں لگ رہا تو ٹی وی بندکردینے پر پاپندی نہیں، جس پر انھوں نے خفا ہوتے ہوئے کہا ہم تو کردیں کہ لیکن تھوڑی دیر بعد آپ ہی آب وتاب سے دیکھیں گی، جس پر خاموشی ہی میں جان بخشی تھی، میشا شفیع کا علی طفر پر لگایا جانے والا الزام اور اسکی صداقت کا مجھے علم نہیں لیکن اس خبر سے جڑے رویہ آپکے سامنے لانا چاھتی تھی۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔