1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. فرنگی بسکٹ

فرنگی بسکٹ

دیس کا بسکٹ ہو یا دیسی لڑکی ہمیں نہیں پسند، بسکٹ کہاں سے ہماری روایت میں آگیا؟ پچھلی پانچ پشتوں میں بسکٹ کا نام نہیں سنا کسی نے، یہ نیا بنا دیا میرے دیس کا بسکٹ، ہوگا کسی فرنگی کا یہ فتنہ، دیکھو نا کیا طوفان اٹھایا ہے، ویسے میں نے ڈھونڈ لیا یہ بسکٹ نارتھ امریکہ کا تحفہ ہے، نہیں بلکہ اس پہلے مصر نے کچھ چیزوں کا محلول بناکر اسکو بیک کرنے کا آغاز کیا اور وہ بھی کوئی ایک ہزار صدی پہلے، پھر تاریخ بتا رہی ہے روم، کے بعد ہسپانوی بھی بسکٹ بنانے کی تاریخ رکھتے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ کہیں بسکٹ خستہ اور کہیں معلام رہا، لیکن کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ میرے دیس کا بسکٹ۔

اچھا دعوی تو دعوی اس پر تھرکنا، بھئی بات یہ کہ، کہیں پڑھا تھا کہ رقص اعضاء کی شاعری ہے اس پر یہ بھی پڑھا کہ کہا بھی جوش ملیح آبادی نے، خیر جوش صاحب کے بارے میں مجھ جیسا جاہل کیا بات کرسکتا ہے، جوش صاحب نے جو لکھا وہ عجیب اور حقیقت کے بہت قریب ہے مرثیہ نگاری میں جوش صاحب کا مقام بہت منفرد اور عظیم ہے جیسا کہ وہ کہتے ہی

کیاصرف مسلمان کے پیارے ہیں حُسین

چرخِ نوحِ بشر کے تارے ہیں حُسین

ہر قوم پُکارے گی ہمارے ہیں حُسین"

اب بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے، گذارش یہ کہ چائے کی پیالی میں ڈوبتے بسکٹ کو کیا پتہ کہ پیالی میں طوفان اٹھا ہے، بسکٹ تو ڈوب کر کہیں رہ گیا پاتال میں پیچھے رہ گیا طوفان، رقص تو حرام ہے، اور اسکو کرنے والے ابھی تک تو کافر ہے کچھ عرصے بات غدار ہی سمجھیں، بسکٹ بیچنے ہی ہےتو کسی بچے سے کروالیتے کمرشل، کم ازکم یہ طوفان تو نا اٹھتا، اب کسی چائے کی دعوت پر بسکٹ رکھنا بھی محال ہوگا، ایک تو فرنگی اس پر رقص کرکے اسے کافر کردیا کون بد بخت کھائے گا ایسا بسکٹ۔ سچ کہوں عجیب ہی ہوگیا ہے دنیا کا رنگ ڈھنگ اب عورتیں ٹاک شوز نہیں کریں، کیا ضرورت ہے یہ مرد سیاستدانوں کو بلاکر ان سے سوال کرتی ہیں یہ کام تو کوئی مرد ہی کرتا اچھا لگتا ہے۔ بے وجہ خواتین جرنلسٹ فلاں فلاں، بات یہ ہے کہ شیونگ ایڈ میں عورت کا کوئی کام نہیں، بسکٹ پر تھرکنا عورت کا کام نہیں، تو پھر اگلا وار ہوگا، ٹاک شو اور خبریں پڑھنا بھی عورت کا کام نہیں، معاشرے میں ذہنوں کی آبیاری نہیں ہو رہی، صرف فیصلے صادر ہوتے ہیں وہ چاھے، مرد کے بنائے معاشرے کے فیصلے ہوں یا پیمرا کے، بغیر سمجھے اور جانے کے کس پلیٹ فارم پر کیا اور کیسے کیا جاسکتا ہے، اختلاف رائے تعظیم ختم ہوگئی ہے۔

اس بحث سے ہی منہ موڑ لیا ہے، عورت کا ایک سانچہ مردوں نے بنا لیا ہے، بس جو اس سانچے میں نہیں وہ بےہودہ ہے، اسلامی تعلیم کے نہ میں منافی ہوں اور نا اسکے نظام کی تقلید کی، لیکن میرا ذہن الجھ جاتا ہے، جب میں چھری کانٹے سے کھانا کھانے والوں کو اغیار کو گالیاں دیتا دیکھتی ہوں۔ مسلمانوں کی تاریخ اور انکی شان و عظمت کو اگر کسی نے نہیں دیکھا تو زبان زد عام ترکی کا شہکار ڈرامہ ارطغرل دیکھ لیں، لیکن ڈرامہ تو ہماری تہذیب ہی نہیں، پھر فلم تو کبھی ہو ہی نہیں سکتی، کیمرہ سے تصویر کھینچا تو حرام ہے، لیکن اب اس کے بغیر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں بنتا۔

لاوڈ اسپیکر کس مسلمان کی ایجاد ہے، اب سوچتے جائیں کہ ہم کتنے دوغلے ہیں جو ہمیں آسائش اور آرام دے وہ حلال، باقی سب حرام نشریاتی مواد کیا؟ کیسے اور کس نوعیت کا ہو میرا خیال ہے۔۔۔ قواعد اور ضوابط پر ایک بار دوبارہ نشست کرلی، ویسے ترکی والے اگر ارطغرل بیچ رہیں تو ہم دیس کا بسکٹ بھی بیچ سکتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں، ایک بات پوری طرح سمجھ لیں معاشرے ایسی ہی تقسیم کا نام ہیں اور سوچ کی تقسیم ہی مستقبل کے فیصلے کرتی ہے جو میرے اندازے کے مطابق ابھی نہیں کم از کم 1صدی کے بعد نظر آئیں گے۔۔۔ تو بس اطمینان رکھیں، بنی گلہ ہو یا دیس کا بسکٹ گالا، ہلکی پھلکی موسیقی کو انجوئے کریں۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔