1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. ہماری منزل پانچ ہزار کا نوٹ

ہماری منزل پانچ ہزار کا نوٹ

سیاست، معیشت، ایسے موضوعات ہیں جن پر آپکو کم از کم نیم حکیم جیسے لوگوں کی بات سن کر اپنی ذہن سازی نہیں کرنی چاھئے، لیکن فی زمانہ یہ مشاہدہ رہا ہے کہ ان دونوں موضوعات کے پی ایچ ڈی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجھ جیسے کم عقل کچھ نہ کچھ کر ذبان کا ذائقہ بدل ہی لیتے ہیں، تین روز پہلے کی بات ہے، کے ادارے کی جانب سے دی گئی سفری سہولت کے باعث میں گھر سے دفتر آرہی تھی اور گاڑی کے شیشے سے باہر، دوڑتی بھاگتی زندگی، ہارن کی آوازوں اور اورشیشے پر دستک دیتے دست سوال کو دیکھ رہی تھی اچانک ڈائیور کی آواز نے مجھے اس سارے منظر سے بے گانا کر دیا، پوچھنے لگا میڈیم کیا حالات ٹھیک ہوں گے؟، گھر سے قدم باہر بعد میں نکلتا ہے جیب سے پیسے نکلنا شروع ہوجاتا ہے، میں نے کہا بلکل میں آپکی پریشانی کو سمجھ سکتی ہوں آپ اور ہم ایک کشتی کے سوار ہیں، اس لمحے ایک سگنل پر گاڑی رکی اور ڈائیور نے کہا میڈیم آگے دیکھیں ایکسیڈینٹ ہوگیا، میں نے اچکی نظر سے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنا چاہا تو ایک لڑکا کچھ لڑکھڑائے قدموں سے چلتا دیکھائی دیا میرا اگلا جملے ظاہر ہے یہی تھا کہ اللہ رحم کرے، لیکن سگنل کھلنے کے ساتھ ہی ڈائیوڑ نے کہا میڈیم دیکھیں اس لڑکے کو خاتون پیسے دے رہی ہیں، اور بقول ڈائیور کے نوٹ بھی پانچ ہزار کا ہے، میں نے کہا آپکو اتنی دور سے نظر کیسے آگیا، اس پر ڈائیور نے کہا میڈیم اب دیکھیں، اور واقعی جب گاڑی قریب سے گزری تو میں نے دیکھا کہ خاتون ڈائیور نے 5000 کا نوٹ کھڑکی سے باہر نکلا ہوا تھا اور لڑکے کے دوسرے ساتھی نےجلدی سے وہ لے لیا اور وہی لڑکھٹراتا نوجوان قدرے بہتر انداز میں چلتا ہوا، دوبارہ بائیک پر فراٹے بھرنے لگا، میں تو صرف مسکرا رہی تھی، لیکن ڈرائیور مسلسل بات کئے جارہا تھا کہ، کاش میں ہوتا اسکی جگہ، کچھ پیسے ہی آجاتے، مہینے کا آخر ہے، یہ تو 150 کی پٹی کرواکر باقی پیسوں کی پارٹی کر لے گا، میرے بڑے کام نکل جاتے، ڈھائی ہزار بچے کی کتابیں اور یونیفارم میں لگ جاتے اور باقی ڈھائی ہزار میں بجلی کا بل بھرتا، اس نے پانچ ہزارکا جو اسکے پاس تھے ہی نہیں اتنی جلدی، حساب بتایا کہ کہ میں صرف انکی سن ہی سکتی تھی اسکے علاوہ میرے پاس کچھ تھا نہیں جو میں مدد کرسکتی، اور اگلے موڑ کے ساتھ دفتر آگیا اور میں اتر کر چلی آئی لیکن میرے ذہن میں یہ سارا واقعہ کہیں محفوظ رہا۔
حالات یہ ہیں کہ لوگ ضروریات کو پورے کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں، کہانیاں اور باتیں کئی ہیں لیکن حقائق بہت تلخ ہیں معیشت کے اعداوشمار بتانے والے دوست بتاتے ہیں کہ خاطر جمع رکھیں، 2 سال میں یا تو آپ ان حالات کے عادی ہوجائیے گے، یا سٹرکوں پر لوٹ مار ہوگی، دونوں ہی باتیں باعث تشویش ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کے مطابق ڈالر 200 تک بھی جا سکتا ہے، کہنے اور لکھنے میں یہ شاید بہت آسان ہیں لیکن اس وقت جبکہ ڈالر نے 160سے بھی تجاوز کیا ہے، پاکستان کے قرضوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، اور ایک دو نہیں پورے پورے 1200 ارب روپے کا، اس وقت جب میں یہ سب لکھ رہی ہوں، وزیر اعظم عمران خان، پارلیمنٹ میں بجٹ پاس ہوجانے کی خوشی میں اپنی حکومت اور اپنے اتحادیوں شکریہ ادا کر رہیں اور ایک مرتبہ پھر بلوچستان، اور کراچی کے لئے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے عزم کو بھی دہرارہے ہیں، لیکن اس سب کے ساتھ معیشت کا جو بیانیہ اس وقت حکومت دے رہی ہے وہ عوام کے لئے قابل قبول نہیں، بجلی کی قیمتوں میں، تین روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے، جبکہ گیس کی قیمت پر دوسو فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، ناتواں عوام پر یہ بوجھ کسی بم سے کم نہیں اور یکم جولائی سے پیٹرول کی قیمت میں 77 پیسے کی کمی کر کے جو ریلیف عوام کو دیا جائے گا اسکا اندازہ لگانا آسان نہیں بہرحال کیونکہ معیشت دان تو میں ہوں نہیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ گھبرانا نہیں کہنا آسان ہیں لیکن جو گھبرا گیا ہے، اسکے لئے سانس لینا محال ہے، سیاست کی بساط پر مڈٹرم الیکشن کی صدائیں بھی آرہی ہیں، میثاق معیشت کی کوکھ سے کیا سیاست کے نئے بچے نکلنے کو تیار ہیں؟ مشترکہ استعفوں کی تجویز کو رد کر کے کیا اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنے کا تاج مولانا فضل الرحمان کے سر سجنے والا ہے؟ مجھے علم نہیں ہاں لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اگرسٹرکوں پر احتجاج شروع ہوا، تو ہر شخص اپنا حصہ ڈالے گا، اس وقت حکومت وقت گھبرائے گی یا پھر بھی گھبرانا نہیں ہے کا بیانیہ ہی چلے گا؟ اس صورتحال میں تجزیے تبصرے سب پس پشت چلے جاتے ہیں، اس وقت ہماری حالت ایک ایسی قوم کی سے ہے، جو سمت کے تعین سے نابلد اور، حصول کی خواہش سے مبرا ہے، جس طرف ہوا کا رخ ہوگا، اور جہاں سے بھی 5000 ہزار کا نوٹ جھانکے گا، وہی سمت اور منزل ہوگی، سوال یہ ہے کیا ہم تیار ہیں؟

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔