1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. عزت کی تلاش

عزت کی تلاش

اللہ رب العزت کی عزت کی قسم کے ان تین حروف پر مشتمل لفظ کی حرمت اور اس سے خود کو جوڑے رکھنے کے لیے ہر شخص ساری زندگی اپنے تئیں کوشش میں لگا رہتا ہے، معاشرے کے ہر طبقے کو اس کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کس مرتے ہوئے کو سانس کی، ہم یہ دم تو ضرور بھرتے ہیں کہ ہم اپنے رشتے داروں اور دوست احباب، اور دیگر کی عزت کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ دعوی صریح ریاکاری ہوتا، کیونکہ ہم میں سے اکثریت یا تو خوف کی عزت کررہی ہوتی ہے یا روپے پیسے کی، یا اپنی ضرورت کی یہ سچ اتنا کڑوا ہے کہ کہ اگر آپ خود سے بھی سرگوشی کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ کوئی یاد یا کوئی بات تازہ ضرور ہوگی، اور آپ آس پاس دیکھ کر اطمینان کرنا چاھئیں گے کہ کہیں یہ آواز کسی نے سن نہ لی ہو، میں عمومی رویے کی نشاندہی کر رہی ہوں ہوسکتا ہے غلط بھی ہو، حال ہی میں محفل میں جانا ہوا جہاں شہر کی مانی جانی شخصیات نے شرکت کی تھی اور محفل کو چار چاند لگائے تھے، میں دور ایک نشست پر بیٹھ کر وہ عزت تلاش کررہی تھی جو یہاں ایک دوسرے کو دی جارہی تھی، جس میں غرض ہی غرض تھی جسکے ہر لفظ سے عزت کے خمیر کی روگردانی ہو رہی تھی، تصویرں کے فلیش اور ہاتھوں کے ٹھنڈے مصافحہ بھی اس پر اپنی دلیل کی اینٹ رکھ رہے تھے، لیکن وہاں بھی ہر شخص عزت کی تلاش میں اپنے تئیں کوشش میں تھا کہ اس عزت سے ناتا قائم رہے، یہ تو ایک جھری سے جھلکتی تصویر ہے، اس جیسی عزتوں کے کئی نظارے آپ میں سے اکثر کی نگاہ سے گزرے ہوں گے پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم اسکی کتنی عزت کرتے ہیں زرا سا ذہن پر زور ڈال کر خود سے اسکا جواب حاصل کریں، شاید آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہیں جو اس ملک کی عزت اور تکریم کی کو اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھتے ہیں، ورنہ دنیا میں پاکی کہہ کر جسطرح پاکستانیوں کی عزت کی جاتی ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں، ہم عزت کو اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن اسکے فرض سے ایسے منہ موڑتے ہیں جیسے حق کا ح اور ق ہماری جاگیر ہے اور فرض کا ف، ر اور ض ہمارے بوڑھے والدین جو بس ہیں جنکی عزت کرو یا نہ کرو دعا دینا انکا فرض ہے، ہمارے یہ مصنوعی بنائے عزت کے خاکے آہستہ آہستہ مانو دیمک کی طرح اس معاشرے کو چاٹ رہے ہیں مجھے یاد ہے آج بھی 9 مارچ 2007 کا وہ دن جب اس وقت کے آرمی چیف اور غیر آئینی صدر نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کو معزول کیا، اور اس خبر نے دنیا بھر میں پاکستان کی عزت کا وہ جنازہ نکلاجو کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی، اور پھر 9 نومبر کی ایمرجنسی نے جلتی پر تیل کا م کیااس دوران عدلیہ بچاﺅ تحریک نے عدل کے ایوان کی عزت کو بچانے کے لئے لاٹھیاں کھائیں، شہر شہر کالے کوٹ والوں کا سب نے ساتھ دیا، سیاسی، سماجی حلقوں کے ساتھ پاکستان کا میڈیا بھی ہم آواز ہواکیونکہ معاملہ عزت کا تھا، حاضر سروس چیف جسٹس کو گھر بیٹھا کر، ملک میں سیاہ سفید کے حاکم بنے مشرف صاحب بھی اس وقت اپنی دنیا بھر میں بنی کھوکھلی عزت پر نازاں تھے لیکن انکی عزت کا یہ مینارہ ایسا گرا ہے کہ خود مجھے انٹرویو دیتے ہوئے سابق آرمی چیف جرنل مشرف صاحب نے اعتراف کیا کہ اس دن سے میری مقبولیت میں کمی آئی برحال، بعض اوقات لکھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن لفظوں کو سیمٹنے میں ہی عافیت ہے یہ بات کبھی اور سہی کہ عدلیہ تحریک کا فائدہ کیا ہوا، اسکے پس منظر اور پیش منظر میں کیا فرق تھا، اور آزاد عدلیہ کی تحریک نے اسکی آزادی سے پہلے کیا معاشرے کی اس ڈھب تعمیر بھی کی تھی جو اسکی آزادی کو تسلیم کرے، سیاسی جماعتیں اپنی عزت کے لباس کو خود تار تار کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی باقی عمل کی بساط پر تو انکو پرکھنے والے چاھے وہ عوام ہوں یا عدالتی فیصلے سب ہی ان پر لعن طعن کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی اور اصل خرابی کے ذمہ دار خود سیاست دان ہیں، پاور کوریڈور میں ہوتے ہوئے بھی انھیں اپنی کارکردگی کی سند کا ان قوتوں سے اعتراف کروانے کی خواہش ہوتی ہے جن کے سائے نے اس ملک کو جمہوریت جیسے لفظ کی عزت سے ہی ناآشنا رکھا، آج عدل کے ایوان سے جب توہین عدالت کا نوٹس لیا جاتا ہے، تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہوں کہ ایسی عزت کا کیا کرنا جو مانگ کر ملے، عزت وقار تو بن مانگے ملتا ہے، لیکن یہاں مجھے قرآن پاک سورۃ الاعمران میں کی آیت یاد آرہی ہے جس کا ترجمہ ہے (اے محمد کہہ دیجئیے اے اللہ! اے سلطنت کے مالک !تو جیسے چاھے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاھے چھین لے اور تو جیسے چاھے عزت عطا فرما دے اور جسے چاھئے ذلت ساری بھلائی تیری ہی دست قدرت میں ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ) اس ترجمہ کو لکھنے کا مقصد یہ کہ جو اقتدار، میاں محمد نواز شریف صاحب کو ملا وہ بھی اللہ کی کی عطا ہے اور جب نہیں رہا تو اس میں اپنی خطا تلاش کر کے اللہ کے دائمی اصول کو سمجھیں، اور جس عدلیہ کی عزت کے لئے خود میاں نواز شریف باہر نکلے تھے انھیں اللہ نے عزت دی ہے اور اس منصب پر فائز کیا ہے تو انکی عزت لازم ہے، جہاں تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کا پارلیمنٹ کی عزت کا سوال ہے اسکے بنائے ہوئے قوانین کی عزت کا سوال ہے، اور انکا یہ گریاکہ حکومتی فیصلوں کو رد کرنا اچھی روایت نہیں سب جائز ہے، لیکن کم از کم پہلے شاہد خاقان عباسی صاحب اللہ کی جانب سے دی گئی عزت جو بحثیت وزیراعظم اللہ نے انھیں دی ہے اسے تو تسلیم کریں اور اسکا حق ادا کریں ناکہ وزیر اعظم نواز شریف کی گردان میں لگے رہیں، مسلم لیگ اپنے دامن پر لگے داغ کو دھونے کی کوشش میں آبیل مجھے مارنے کی روش اپنا رہی ہے نواز شریف کی براہ راست تقریر پر پابندی کے خلاف درخواست بھی دائر ہے جس پر بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ احسن اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگی تو یہ پری پول رگنگ ہوگی، زرا کوئی پوچھے کہ جس عزت کے آج مسلم لیگ ن والے متلاشی ہیں انکے سربراہ میاں نواز شریف صاحب نے کتنی بار ایوان میں آکر اسے عزت دی ملک کا وزیر اعظم ایوان کا بڑا ہی جب اپنے گھر سے بھاگ رہا تھا تو اگر کسی نے بے شمار غلطیوں میں سے کسی ایک پر نکال دیا تو پھر سوال کیسا؟، عزت ایوان میں بحث کر کے کہ اگر حاصل ہو سکتی ہے تو ضرور کریں لیکن اس شعر کو زرا پڑھ لیں

آپ ہی اپنی اداﺅں پر زرا غور کریں،

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی،

جب تک ہم خود بحشیت فرد اپنی عزت نہیں کریں گے، تو دوسروں سے توقع رکھنا بے کار ہے۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔