1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کسی انسان کے تلون مزاجی، طوطا چشمی اور موقع پرستی کی تمثیل کے لئے اس مصرعہ کا استعمال خاص طور سے محاورے کے لئے کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ ( اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے )لیکن بدلتے ہوئے زمانے کے مزاج کے ساتھ لفظوں کے معنوی قوت میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ عہد میں مذکورہ مصرعہ ہماری عالمی سیاسیات وسماجیات کی مادرزاد منافقت کا ایک بھر پور استعارہ بن چکا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے سیاسی سماج پر اب کھل کر بحث ہونی چاہئے اس لئے کہ عوامی بیداری کے لئے یہ بہت ضرور ی ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں ہردور اندیش شخص اس بات کو اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتاہے کہ ہماری موجودہ سیاست کے کتنے چہرے اور کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ اس سیاست کا روپ سروپ دور سے جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے، قریب سے اتنا ہی بھیانک ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ عہد میں سیاست محض سیاست نہیں رہی بلکہ موجودہ سیاست کو سامراجی، فسطائی اور استعماری طاقتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ لہذا اب سیاست کا، کام عوامی مہم جوئی، پسماندہ اور کمزور عوام کے حقوق کی بازیابی اور دنیا میں امن و امان کی بحالی کے بجائے مٹھی بھر طاقتور لوگوں کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کا نام سیاست بن کر رہ گیا ہے۔ جمہوریت کی یہ داشتہ ان طاقتور لوگوںیا(ممالک) کے توسیع پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اپنے اسی مزموم مقاصد کے حصول کے لئے پورے انسانی سماج کو نیشنل ازم، مذہب، مسلک، ذات پات، رنگ و نسل کے نام پرتقسیم کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ گویا دنیا میں ایک ایسی آگ کو ہَوا دی جارہی ہے۔ جس کی نفرت انگیز حرات سے زمین کی ’کوکھ ‘تک جل کر راکھ ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے، اور یہ استعماری سیاست اپنے ہدف کے حصول کے لئے دنیا کے تمام تر جدید ذرائع ابلاغ و ترسیل کا بھر پور استعمال کررہی ہے۔ آج دنیا کا ہر ملک اس کی زد میں ہے۔ جس کی ایک تجربہ گاہ ہمارے ہندوستان جیسا سیکولر ملک بھی ہے۔ ہماری جمہوریت کے سینے میں تہذیب و ثقافت، مذہب و مسلک ذات و پات کے نام سے دھدھکنے والی آگ دھیرے دھیرے جوالا مکھی کی شکل اختیار کررہی ہے، جو ہمارے ملک کے امن و امان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا ابھی وقت ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے ملک کے دانشوروں کو اپنے خیال کے اظہار کومحض اظہار افسوس کے دائرے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ اس جمہوریت کی بحالی کے لئے کسی عملی اقدام کی سخت ضرورت ہے۔

دنیا کے تمام جمہوری ممالک کو اس بات کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ استعماریت کا بڑھتا ہوا غلبہ جمہوریت کی بنیادوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ استعماری سیاست کا یہی بنیادی ایجنڈا ہے جس کو عالمی سطح پر بڑے واضح طریقے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ، آج پوری دنیا دھیرے دھیرے دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ فی الحال استعماری سیاست مشرق وسطیٰ میں کھل کر اپنا کام کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک نفسیاتی کشمکش اور بے اطمینانی کیفیت کے شکار نظر آرہے ہیں، اور وہ اسلامی ممالک جو اپنی سرحدوں کی محافظت میں کافی فعال و متحرک ہیں، اب ان ملکوں میں اندرونی طور سے ان استعماری طاقتوں نے ایک نئی قسم کی سورش برپا کررکھی ہے، اس امید کے ساتھ کہ ان ملکوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کردیا جائے، جس کی زد میں فی الحال ایران ہے۔ تقریباً ایک عشرے سے ایران کے اندر کچھ ایسا ہی ماحول نظر آرہا ہے۔ لیکن استعماری سیاست کا یہ حربہ یہاں پر کامیاب ہوتا ہوا نہیں دکھ رہا ہے۔ چونکہ ایران اپنی سیاسی پالیسی کی بنیاد پر کافی مستحکم ہے۔ اس لئے کہ تہران حکومت کو عوام کا بھر پور تعاون حاصل ہے۔ اس لئے وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ملک کے اندرونی معاملات پر بھی کافی دسترس رکھتی ہے۔

لیکن وہ عرب ممالک جو امریکہ و اسرائیل کی گود میں بیٹھ کر اپنے تخت و تاج کے تحفظ کے لئے سراپا سربسجود ہیں۔ وہ پے در پے مشکلات سے دوچار ضرور نظر آرہے ہیں۔ ابھی مشرق وسطیٰ میں بھڑکائی جانے والی آگ مکمل سرد بھی نہیں ہونے پائے تھی کہ اقتصادی و معاشی اور سیاسی بحران کی شکار ریاض حکومت رفتہ رفتہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کی روک تھام کے لئے ریاض حکومت اپنی مخالفین کی سرکوبی کے باوجود بھی باسے کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ چونکہ مخالفت کی یہ آواز خود ان کے ایوان سلطنت سے بلند ہورہی ہے۔ اس کی خاص وجہ نئے ولی عہد کی قیادت کو لے کر ہے۔ جس کے خلاف امارتی شہزادوں نے اپنے اس تازہ کار ولی عہد کے خلاف بغاوت کا محاذ کھول دیا۔ جس کی وجہ سے خانہ جنگی کی یہ شورش مزید بڑھتی ہوئی دکھ رہی ہے۔ جس کے تدارک کا کوئی قوی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسوں کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے عوام حکومت کی جانب سے نافذ کی جانے والی اقتصادی پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ اس سے عجیب دلچسپ بات تو یہ ہے کہ محمد بن سلمان کی سیاسی عدم بصیرت اور ان کو حاصل ہونے والی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ایک بار پھر اآمریت نواز درباری مفتیوں نے محمد بن سلمان کے کارناموں کو اسلام کا لبادے پہنانے میں مصروف ہیں۔ سعودی اسکالر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت تیزی کے ساتھ سرکولیٹ ہورہا ہے۔ جس میں وہ محمد بن سلمان کے دفاع میں سعودی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ، ’’سعودی عرب میں مہنگائی، اور قیمتوں میں اضافے پر حاکم وقت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قیمتوں میں اضافہ اور کمی کرتا رہتا ہے۔ ‘‘اپنی اس عجیب فلسفے کومنطقی جواز دینے کے لئے اللہ تعالی کا ایک نام(المسغر) کا استعمال کررہا ہے، جس کے معنی ہیں، قیمتوں کا تعین کرنے والا۔

دوسری جانب سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم سے ابھی شہزادوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے، جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے شہزادہ ترکی بن محمدبن سعود الکبیر Turks bin Muhammad bin Saud al-Kabir، اورشہزادہ بندر بن سعود الکبیر Bandar bin Mohammed bin Saud al-Kabir کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان گرفتاریوں کا مقصد بہت واضح ہے کہ وہ شہزادے جو محمد بن سلمان کی قیادت سے متفق نہیں ہیں، ان کی سرزنش کے لئے محمد بن سلمان کی طرف سے بے بنیاد کرپشن کے الزام میں انھیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز شاہی محل کے سامنے مظاہرہ کرنے والے گیارہ سعودی شہزادوں کی گرفتاری اور حفاظتی دستوںکے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں تین شہزادوں کی موت پر بین الاقوامی عدالت کے سابق جج اور یورپین یونین کے چیف محمود رفعت نے اپنے موقف کا اظہا رکرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ریاض حکومت کاخاندان سعود کے باغی شہزادوں کو قتل کرانے کا مقصد صرف اور صرف نئے ولیعہد کی تخت نشینی میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا سد باب ہے۔ اسی مخالفت کے جرم میں بہت سے وزرا کو بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔ جن پر حکومت کے خلاف کچھ بھی بولنے کے لئے مسلسل دباؤ بنایا جارہا ہے۔ جو ریاض حکومت کے لئے انتہائی خطرناک صورت حال کو جنم دے رہا ہے۔ آل سعود خاندان کے درمیان پیدا ہونے والا یہ اختلاف ریاض حکومت کے لئے آگے چل کر ایک بہت بڑے چلینج کی صورت میں کھل کرسامنے آنے والا ہے۔ جس میںمزید کشت و خون کا امکان ہے۔ مجھے اس وقت دنیاکے ایک عظیم مفکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول یاد آرہا ہے، جس کا تعلق خاص کر اسلامی ممالک کے حکمراں سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ اس دنیا پر کفر کے ساتھ تو حکومت کی جاسکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔ ‘‘لہذا دنیاکے تمام اسلامی ممالک کے حکمراں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے۔ ورنہ گردش افلاک کا بدلتا ہوا یہ رنگ اور وقت کی کج رفتاری دنیا کے اس جاہ جلال اور انسان کے غرور و نخوت و تمکنت کوآنے والی نسلوں کے عبرت کا نشان بنا کر چھوڑ دے گی۔