1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص

نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص

رثائی ادب کی قدیم اور حساس ترین صنف سخن نوحہ پر گفتگو کرنے کا مقصد اپنے اعتقاد کے اظہار سے زیادہ اپنے ادبی یقین کی آسودگی ہے۔ رثائی ادب میں مرثیہ اور سلام کی طرح نوحہ بھی ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتا ہے۔ علمائے ادب نے مرثیہ اورسلام کی ادبی افادیت کے پیش نظر اس کے کچھ اصول و ضوابط وضع کئے ہیں اوربیشترشعرا نے ان اصناف سخن میں خوب خوب طبع آزمائی بھی کی اور انیسؔ و دبیرؔ نے تو اسے اپنی خداد اد شاعرانہ صلاحیتوں کے ذریعہ وہ مقام سعادت عطا کی جو دیگر اصناف سخن کو میسر نہ آسکی۔

نوحہ پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ عزائیہ شاعری کی دو اہم صنف سخن ’’روایت‘‘ اور ’’ماتم‘‘ کابھی ضمنی طور سے تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

’’روایت ‘‘مثنوی کی طرح ایک طویل نظم ہوتی ہے جس میں واقعات کربلا کو حکایتی انداز میں نظم کیا جاتا ہے۔مثنوی اور ’’روایت ‘‘ میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ مثنوی میں مطلع کے بعد کے تمام اشعار مطلع کے قوافی کے پابند نہیں ہوتے لیکن اس کے برخلاف ’’روایت‘‘ میں ہر دوسرے شعر میں مطلع کے قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے ۔

’’ماتم‘‘ ’’روایت ‘‘کی طرح نوحہ کی ایک الحاقی نظم ہے جس میں شاعر کربلا کے کسی ایک شہید کے واقعات و حالات کو تسلسل کے ساتھ قلم بند کرتاہے۔نوحہ میں اس طرح کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔

ہمارا اصل مقصود نوحہ پر گفتگو کرنا ہے آج جب ہم کسی نقاد یا دانشور سے نوحہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس صنف کے حوالے سے وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ کہتے ہیں کہ دیگر اصناف سخن کی طرح اس میں وہ شعری محاسن یا ادبیت نہیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے اسے ادبی زمرے میں رکھا جائے مزید استفسار کی صورت میں اس کا منطقی جواز یہ پیش کیا جاتا ہے چونکہ اس کا موضوع آہ و بکا ہے اوریہ صنف محض اظہار حزن والم سے متصف ہے لہذا موضوع و مواد کے اعتبار سے بھی اس کے دامن میں وسعت کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے یادوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ ابھی اس صنف کے تعلق سے ماہرین ادب نے زیادہ کچھ لکھا بھی نہیں ہے۔

یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ نوحہ سے متعلق رثائی ادب میں ایسا کچھ کام نہیں ہوا ہے ۔لیکن کیا؟ اس طرح کا جواز کسی صنف سخن کے استراد کے لئے صحیح ہے ۔؟ اگراس طرح کی توضیحات کا تاریخی جائزہ لیاجائے تو یہ بات وا شگاف ہوتی ہے کہ رثائی ادب کے حوالے سے معاصر عہد کے نقادوں اور دانشوروں کا یہ موقف کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس طرح کے نظریاتی توضیحات کی روایت بہت پرانی رہی ہے ۔فی زماننا فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا جو آج ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے لہذا اس طرح کے غیر ادبی رجحانات کو محض ذہنی پسماندگی سے ہی تعبیر کیا جاناچاہیئے ۔

اس لئے کہ اتہام و ایرا د کا یہ سلسلہ محض ’’نوحہ‘‘ سے متعلق ہی نہیں ہے بلکہ ابتدا میں مرثیہ جیسی صنف کو بھی یہ کہہ کر معتوب و مطعون کیا گیا کہ یہ صنف محض رونے رلانے اور حصول ثواب تک ہی محدود ہے، یہ ایک ایسی بحث ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے یہ سلسلہ آج بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ جاری و ساری ہے جدید و قدیم کی یہ بحثیں بحث نہ رہ کر ایک قضیہ کی صورت اختیار کر گئیں ہیں جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔

لیکن میں یہاں ایک بات ضرور کہوں گاکہ ادبی کفالت میں پرورش پانے والے اس طرح کے یتیمانہ نظریات اپنے اجتماعی اقلیت کے باوجود ادب میں کسی فرد واحد کی عقلی مجہولیت سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتے اس بحث کو مزید طول دینے سے بہتر ہے کہ اس کے رموز وعلائم کو سمجھنے کے لئے بزرگ ناقدین کی تحاریر کا سہارا لیا جائے۔

پروفیسر ال احمد سرور کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ہوا کہ مغرب میں سیکولر ازم کے فروغ نے مذہب کو کچھ فرسودہ اور دقیانوسی قرارد یدیااور مذہبی شاعری کو بھی خواہ کیسی اچھی شاعری کیوں نہ ہو زندگی سے فرار یا نشے اور خجالت کی شاعری کہہ کر اُسے آج کی زندگی اور اس کے تقاضوں سے بے گانہ سمجھنے کی لَے بڑھنے لگی ۔آزادی سے کچھ قبل کی تنقید میں اقبالؔ کی شاعری جس کا سرچشمہ مذہب و اخلاق ہے اسی روش کا نشانہ بنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جیسے جیسے ادب کی مخصوص بصیرت کا عرفان بڑھتا جاتاہے ویسے ویسے شاعری اور اس کی عظمت کے لئے کسی مخصوص سیکولر نظام یا کسی مخصوص مذہبی یا اخلاقی نظام کی چھاپ ضروری نہیں سمجھی جاتی۔‘‘

(مضمون’’انیس کی شاعرانہ عظمت ‘‘ آل احمد سرور،مشمولہ ’’انیس شناسی‘‘ مرتبہ گوپی چند نارنگ)

پروفیسر ال احمد سرور کا یہ نظریہ ادب کی کسی صنف کے پرکھنے کے لئے ایک صحت مند رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ بات اپنے تمام عقلی تلازمات کے مطابق بھی ہے اس لئے کہ کسی اصناف سخن کے ادبی معیار کو اس کے مذہبی یا مسلکی سطح سے بلندہو کر ادبی بصیرت کی روشنی میں کرنی چاہے اگر اس طرح کے منصوبہ بند نظریات کی بنیاد پر کسی تخلیق کے پرکھنے اور جانچنے کے عمل کو جائز اور درست مان لیا جائے تودنیا کا کوئی ادب معرض استراد سے باہر نہیں نکل سکتا۔

اس طرح کے غیر اعتذاری وجوہات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نوحہ کے حوالے سے صدیوں سے چلا آرہا یہ مصلحتی جمود اب ٹوٹنا چاہئے اور ایک صحتمندانہ ادبی ماحول میں ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہو، تاکہ اُس سچائی کا انکشاف ہو سکے جس حقیقت پر شعوری طور پر ایک پردا ڈال دیا گیا ہے اس لئے کہ علمائے ادب کی یہ پر اسر ار خاموشی بڑی مصلحت انگیز محسوس ہوتی ہے یہ بات صر ف یہیں پر ختم نہیں ہوتی اب تو بات یہاں تک آ پہونچی کہ اس صنف سخن(نوحہ) کے استراد ی توضیحات شدت پسندانہ مذہبی عقائد کے تناظر میں جدید موصلاتی نظام کے توسط سے کی جارہی ہے ۔

نوحہ سے متعلق آزاد دائرۃ المعارف ،نوحہ ویکیپیڈیا کی تعریف انگریزی میں۔

Noha (Arabic:) is a genre of Arabic, Persian, or Urdu prose depicting the martyrdom of the Holy Imams. Strictly speaking noha is the sub-parts of Marsia. Nohas are usually poetry expressing the sorrow felt by Shia Muslims for their leaders."Noha" (Arabic: ) is also an Arabic female name meaning "wisdom". Literally it is the plural of minds. It is mentioned in the Quran several times.


نوحہ کی اردو میں تعریف آزاد دائرۃ المعارف (نوحہ ویکیپڈیا )

’’نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ سے بیان کرنے آواز سے رونا جسے بین کہتے ہیں حرام ہے ،یوں ہی گریبان پھاڑنا،منہ نوچنا ،بال کھولنا،سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کوٹنا،ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام ہیں،یوں ہی سوگ کے لئے کالے کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے،یوں ہی بلے لگانا نصاریٰ کی مشابہت بھی ہے ،ہاں رونے میں اگر آواز بلند نہ ہوتو ممانعت نہیں ہے ۔‘‘

نوحہ کی یہ تعریف کس ادبی اندراج کے تحت کی گئی ہے شاید ہی اس کا کوئی معقول جواب ہو لیکن یہ بات تشویشناک ضرور ہے کہ اس طرح ادب کی کسی صنف سخن کو مسلکی زمرہ بندیوں کے تحت بغیر کسی عقلی استدلال کے ُاسے اُس کے ادبی مناصب سے معزول کرنے کاجواز فراہم کرنا تہذیب ادب کے منافی ہے اس لئے کہ کسی صنف کے ادبی وقار کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فنی لوازم اور ادبی محاسن کا جائزہ لیا جائے ناکہ اس طرح کی افتراپردازی سے۔ویسے بھی ادب اس طرح کے اجتہاد ات اور حلال و حرام جیسے غیر ضروری مباحث کا متحمل نہیں ہوتا۔

جب بات حلال وحرام تک آپہونچی تو اب لازم ہے کہ اس صنف سخن(نوحہ) کا شرعی جواز بھی تاریخ کے حوالے سے پیش کردیا جائے ۔

جیسا کہ علامہ شبلی نعمانی نے ’’موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔصفحہ ۸ پر عرب کی نوحہ خوانی‘‘میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے حوالے اس واقعہ کو کچھ اس نداز میں تحریر کرتے ہیں۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔متمم بن نویرہ(عرب کا ایک شاعر)اسی زمانے (عمر فاروق کا دور خلافت) میں تھا اور وہ بھی اپنے بھائی کا شیفتہ اور عاشق تھا ۔ایک لڑائی میں خالد بن ولید نے اس کے بھائی کو مار ڈالا۔اس پر متمم کی یہ حالت ہوئی کہ گھر بار چھوڑ کر نکلا اور قبائل عرب میں پھرنا شروع کیا جہاں پہونچتا تھا تمام زن و مرد اس کے گرد جمع ہوجاتے تھے ۔وہ درد انگیز لہجہ میں مرثیہ پڑھتااور ہر طرف سے گریہ و زاری کی آواز بلند ہوتی ۔اس کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے یہ سمجھا یاوہ اسی حالت میں حضرت عمر کے پاس آیا وہ اس وقت مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے ۔متمم نے مرثیہ کے اشعار پڑھنے شروع کئے حضرت عمراگر چہ نہایت مضبوط دل کے آدمی تھے لیکن ضبط نہ کرسکے بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے متمم مر ثیہ پڑھ چکا تو حضرت عمر نے کہا تیرے غم کی حالت کس حد تک پہونچی ہے ؟ اس نے کہا امیرالمومنین ! بچپن میں مجھے ایک عارضہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری بائیں آنکھ کی رطوبت جاتی رہی تھی میں کبھی روتا تھا تو اس آنکھ سے آنسو نہیں نکلتے تھے بھائی کے مرنے کے بعد جو اس آنکھ سے آنسو جاری ہوئے تو اب تک نہیں تھمے۔حضرت عمر نے فرمائش کی کہ اس کے بھائی زید کا مرثیہ لکھے اس نے فرمائش پوری کی لیکن جب دوسرے دن جاکر حضرت عمر کو مرثیہ سنایا تو حضرت عمر نے کہا اس میں تو وہ درد نہیں۔اس نے کہا !امیر المومنین ! زید آپ کے بھائی تھے میرے بھائی نہیں تھے‘‘۔

اب اگر یہ مان لیا جائے کہ نوحہ اور مرثیہ کہنا حرام ہے تومسلمانوں کے امیروخلیفہ کا اس طرح سے نوحہ اور مرثیہ لکھنے کی فرمائش کرنا گویا اس عمل کی تائید کرنا ہے۔ اگریہ فعل شرعی طور سے حرام اور ناجائز ہوتا تو غالباً اس طرح کی فرمائش کی توقع کم سے کم حضرت عمر سے تو نہ تھی اسی طرح کے اور بہت سے واقعات اکابرین اسلام کی نسبت سے تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیںجسے نوحہ کے شرعی جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

غالباً اس واقعہ کے تما م تاریخی عوامل کے بعد نوحہ گوئی کے مذہبی تقدس کے باب میں اب کسی طرح کی تشکیک کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

اس سے قطع نظرجب رثائی ادب کی اہم ترین صنف سخن مرثیہ کا تاریخی حیثیت سے جائزہ لیاجاتا ہے تو اس کے ابتدائی نقوش عربی ادب کے قدیم آثار سے ہی دریافت ہوتے ہیں اور محققین نے اس کی تاریخی نشاندہی بھی کی ہے جس کا تذکرہ بیشتر کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔

عربی ادب میں مرثیہ اور نوحہ کی معروضی بحث کافی تفصیل طلب موضوع ہے ہم یہاں پر صرف نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی نشاندہی مولفین و مورخین مراثی کے اس قول کے تناظر میں کریں گے جس پر بالااتفاق رائے تمام علمائے ادب کا اجماع ہے۔

جب مرثیہ کی تاریخ بیان ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ جتنی قدیم انسانی تاریخ ہے اتنی ہی قدیم مرثیہ کی بھی تاریخ ہے جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں ۔

’’مرثیہ کو دنیا کی قدیم ترین نسل انسانی کی مشترک صنف کلا م قراد دینا شاید غلط نہ ہوگا۔‘‘

مرثیہ کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتاہے۔

’’ حضرت ہابیل علیہ السلا م کی موت پر حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھوں سے چھلکنے والا آنسو شاید وہ پہلا خاموش مرثیہ ہے جو فطرت نے ایک درد مند باپ کے صفحۂ عارض پر لکھا۔‘‘

(اردو میں شخصی مرثیے کی روایت،ڈاکٹر عابد حسین حیدری)

اس طرح مرثیہ کا تاریخی خمیر حضرت ہابیل ؑ کی شہادت پر جناب آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں سے ہی تیار ہوتا ہے ۔اصل میں مرثیہ کی یہی تاریخ نوحہ کے تاریخی وجود کا اثبات ہے اور مرثیہ اور نوحہ کے درمیان یہی ایک امتیازی فرق بھی ۔اس لئے کہ مرثیہ محض کسی کی موت پر اظہار تاسف و تاثر کا نام ہے لیکن اس کے بر عکس کسی شخص کی موت پر آنسو بہانے اورسرو سینہ پیٹنے کا نام ہی نوحہ نہیں بلکہ ذات و کائنات کے انفرادی و اجتماعی دردو غم کے اظہار کا نام نوحہ ہے شاید اسی لئے حضرت حوأ کے ہجر میں حضرت آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والا آنسو کا پہلا قطرہ فطرتِ انسانیت کاسب سے پہلا نوحہ قرار پایا۔ اللہ کے برگزیدہ نبی جناب عبد الغفار ؑ کی اپنی امت کی نجات اور ہدایت کی فکر میں مسلسل آہ وزاری و نوحہ خوانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اپنے اس نبی کو ’’نوح ‘‘ کے اعزازی لقب سے یاد کیا ۔بالکل اسی طرح سے حضرت یوسفؑ کے فراق میں جناب یعقوب پیغمبر کی مسلسل نوحہ خوانی اور شدت گریہ سے ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا سفید ہوجانایہ ایک نبیؐ کا مرثیہ نہیں بلکہ ایک مغموم و محزون باپ کا نوحہ تھا جوآج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور صبح قیامت تک ہرصاحبان دل سے دردو غم کا خراج وصول کرتا رہے گا۔

ہمارے بیشتر محققین و نقاد مرثیہ کے جغرافیائی تمدن کا نقطہ اول عرب کے قبائلی تہذیب کو ہی قرار دیتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی کی تحقیقی دریافت کے مطابق ۔

’’ عرب میں جو فارسی اور اردو شاعری کا سر چشمہ ہے ، شاعری کی ابتدا مرثیہ سے ہوئی اور یہی ہونا چاہئے تھا عرب میں شاعری کی ابتدا بالکل فطرت کے اصول پر ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

(موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔص ۳۸،مرتبین پروفیسر سید مجاور حسین رضوری؍ڈاکٹر سید علی حیدر)

لیکن اس کے برخلاف نوحہ کی جغرافیائی تاریخ کی دریافت جناب عیسی ؑ سے چار ہزار سے سال قبل ہوتی ہے ۔جیسا کہ سر جمیس جان فریزر اپنی کتاب ’’گولڈن باڈ‘‘ میں تحریر کرتا ہے ۔

’’مقامی روایات کے بموجب جس کی پلوٹرچ بھی تائید کرتا ہے جب ایسس (isis) کو اپنے شوہر اوسائرس(osiris) کی لاش ملی تو وہ اپنی بہن نیفاطیس کے ساتھ لاش کے برابر بیٹھ گئی نوحہ و شیون کرنے لگی یہ بین بعد کے زمانے کے لئے متوفی کے لئے ایک عام نوحہ کی صورت اختیار کر گیا۔‘‘

( مجلہ النجم کراچی ،مضمون نگار افضال حسین نقوی’’مرثیہ اور انیس ‘،مطبوعہ نقوش لاہور دسمبر ۱۹۷۰ ء )
جاری