1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. ڈونالڈ ٹرمپ کا نابالغ سیاسی شعور

ڈونالڈ ٹرمپ کا نابالغ سیاسی شعور

پوری دنیا کے سیاسی کینویس پر ہر لمحہ بدلتے ہوئے منظر نامہ پر نگاہ ڈالیں تو ایک عجیب نفسیاتی کشمکش اور ایک جدلیاتی کیفیت اپنی پوری توانائی کے ساتھ دھیرے دھیرے ایک عالمی جنگ کی طرف پیش رفت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جو ہر حال میں انسانی سماج کے لئے یہ غیر منفی رویہ ہے۔ جو آگے چل کر ایک ایسی نفسیاتی الجھنوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ جس کا مستقبل میں تدارک کرنابہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس مسئلہ کی بنیادی نوعیت کو سمجھنا ہے تو مشرق اوسطیٰ میں برپا ہونے والی سامراجی سیاست کی یلغار سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی نام نہاد جمہوریت کا نمونہ پوری دنیا میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔لیکن جمہوریت کی جو تعریف ماہرین سیاسیات نے پیش کی ہے۔ اس کے بالکل برعکس ہے۔’’جہوریت اس طرز حکومت کو کہتے ہیں جو عوام کے لئے ،عوام کے ذریعہ عوام کے لئے ہو‘‘اُسے جمہوریت کہتے ہیں۔ (Democracy is for the people of the peple for the people) ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کے بعد امریکہ کی جمہوری سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو گی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر کے امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے متنازعہ بیانات سے کافی مقبولیت حاصل کی۔ ویسے بھی سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں سیاست داں عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنے دماغ سے زیادہ اپنی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کچھ زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ ان کے متنازعہ بیانات اور حال ہی میں سیرپر ان کی جدلیاتی یلغار نے کافی مقولیت حاصل کی ہے۔

لیکن یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات اور 17؍اپریل کو سیریا کے جنگ زدہ علاقے شام کے شہر حمص کے ’’الشعیرات ائیر بیس پر تابڑ توڑ 59 ٹام ہاک میزائل حملوں نے امریکہ کی خودساختہ مکروہ جمہوریت کے چہرے پر پڑی ہوئی سیکولرازم کی چادر کو نوچ کر دنیا کے سامنے اُسے ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے،اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک ذہنی افلاس کا شکار اور آمریت پسند شخص بھی امتیاز رنگ و روپ اور نسلی امتیازات کے جھوٹے نعرے سے جمہوریت کی کرسی اقتدار کو حاصل کرسکتا ہے۔

ڈونالڈٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے امریکہ کی صدارت کے امید وار ڈونالڈ ٹرمپ سے متعلق جن دانشوروں و مفکرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا اور جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی وہ دھیرے دھیرے سچ ثابت ہورہی ہیں۔ اس لئے کہ اب جمہوریت کا نشان امتیا ز بدل چکا ہے موجودہ عہد میں قابلیت سے زیادہ مقبولیت جمہوریت کا معیار بن چکی ہے۔ جو لوگ تنگ ذہنیت اور اپنے تعصب پسندانہ نظریات،، مادہ پرستی ،وطن پرستی ،نسل پرستی اور مذہب پرستی کے سیاسی کھوکھلے نعروں کے پروپ غنڈوں کا کھل کر استعمال کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوجاتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سامراجی سیاست کے ذریعہ زیادہ دنوں تک عوام کے حقوق کا استحصال نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ جمہوریت اور سامراجیت دو الگ الگ نظریات ہیں جو کبھی بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔اب عوام میں دھیرے دھیرے شعوری بیداری پیدا ہورہی ہے۔ لہذا اس دوغلی پالیسی کے درمیان اب ایک خط امتیاز قائم کیا جانے لگا ہے۔اور ان تخریب کارسازشوں کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔

یہ بات لوگ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ سامراجی سیاست کا مرکزی نکتہ ارتکاز امریکہ اور اسرائیل اور ان کے حلیف ممالک کا سیاسی کولیشن ہے۔ جس نے پورے مشرق اوسطیٰ کو آگ اور خون کے دریا میں جھونک دیا ہے۔ اب دھیرے دھیرے اس آگ اور خون کے دریا کا بہاؤ دیگر ممالک کو بھی اپنی چیپٹ میں لے رہا ہے۔ اس سیاسی کھیل میں اوبامہ نے بھی اپنے منصب صدارت کا خوب کھل کر استعمال کیا۔ ایک طرف تو اوبامہ نے دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ’’امن نوبل‘‘ توحاصل کیا۔ لیکن دوسری جانب ساری دنیا میں اپنی چودھراہٹ کو برقرار رکھنے کے لئے وہ مختلف ممالک میں بموں کی برسات بھی کرتے رہے۔ Council Foreign Relations کی ایک رپورٹ کے مطابق اوبامہ نے اپنے دور اقتدار میں براک اباما نے سیریا میں 12,192 ، عراق میں 12,095 افغانستان میں 1,337 ، لیبیا میں 496 یمن میں 35، صومالیا میں 14 اور پاکستان میں 3 یعنی کل 26,172 بموں سے حملہ کر ان ممالک کی نہ صرف اقتصادی طور پرکمر توڑنے کی کوشش کی بلکہ یہاں کے ہزاروں معصوم و بے گناہ شہری خاک و خون میں غرق ہوکر اپنا دم توڑ چکے ہیں۔ آج جن کا محاسبہ کرنے والاکوئی نہیں ہے۔ سوائے پروردگار عالم کے ،ان میں سے کئی ایسے ممالک ہیں ، جہاں اب تک باقی ماندہ عوام کی زندگی معمول پر نہیں لوٹی ہے۔ یہ وہ شہری ہیں جو اپنی بے پناہی اور اپنے مرتے ہوئے لوگوں اور اپنے چہیتوں کی میتوں کو اٹھاتے اٹھاتے ان کے ہاتھ شل ہوچکے ہیں۔ ان کی چمکتی ہوئی آنکھیں میں اب خواب کی جگہ دھول اور دھوئیں نے لے لی ہے۔ اب ان کی امیدوں کا سلسلہ لوگوں سے منقطع ہوچکا ہے۔ لیکن وہ ابھی غیب سے آنے والی استعانت سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ اب بھی اپنے حصہ کی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ اس امید پر کہ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ایک نہ ایک دن شکست سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔ سیریا کے حمص شہر کے الشعیرات ائیر بیس پر امریکہ کے اس حملے نے اسے مزید مشکلوں میں مبتلا کردیا ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ کا یہ حملہ انتہائی احمقانہ اقدام ہے، جس کے خلاف امریکی پارلیمنٹ میں بھی انھیں بڑی فضیحتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ اس حملہ کا سیریا حکومت اور اس کے حلیف ملک اور اس کے موقف کی تائید کرنے والے دیگر ممالک نے بھی امریکہ کے اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی ہے،اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر امریکہ اپنے اس طرح کی حرکتوں سے باز نہیں آیا تو اُسے یقناایک نئی عالمی جنگ کے لئے تیار ہوجانا چاہے۔ اگر ایسا ہوا تو پوری دنیا ایک بار پھر تباہی کا شکار ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس طرح کی تخریب کاری سیاسی پالیسی سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہونے والاسوائے تباہی اور بربادی کے۔ لہذا اقوام متحدہ کو چاہئے کہ امریکہ کی اور اس کے حلیف ممالک کی اس طرح کی جراحانہ پالیسی پر فوری طور پر مناسب قدم اٹھائے ورنہ اس کا نتیجہ پوری عالمی برادری کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہونے والاہے۔