اس سرزمین پر بہنے والےمظلوموں اور بے گناہوں کے لہو میں قدرت نے ایک عجیب پُراسرار کیفیت پوشیدہ کررکھی ہے۔ اسے جتنا چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ اتنی ہی توانائی کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی پوری واضح نشانیوں کے ساتھ ظاہر ہونے لگتا ہے، اور قاتلوں کے خنجر کی سفاک دھار پر بھی اپنی بے گناہی اور فتح کا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ قاتل کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کردیتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سعودی عرب کے آزادی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے۔ جس نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کے ولی محمد بن سلمان اور ان کے حوارین کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب نوچ لی ہے۔
استنبول میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے میں جمال خاشقجی کا قتل بڑے منصوبہ بند طریقہ سے انجام دیاگیا۔ لیکن استنبول میں بہنے والا لہو اپنے قاتلوں کے تلاش میں ریاض کے شاہی محل کی دیواروں سے ٹپکنے لگا۔ اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں نے جمال خاشقجی کے قتل کو ایک ایسے معمہ بنا دیا تھا، بظاہر جس کے حل ہونے کا انھیں قطعی امکان نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی سازش میں ناکام رہے۔ خودکو اسلامک ممالک کا سربراہ تصور کرنے، مکہ و حجاز جیسی مقدس سرزمین اور خانہ کعبہ کے غلاف سے اپنا ڈھانپ کر بے گناہوں کا قتل عام اور انسانیت کی تذلیل کرنے والوں کے بھیانک چہروں کو اللہ نے پوری دنیا کے سامنے اجاگر کردیا۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کی تعفن زدہ لاش کے پھٹے ہوئے بطن سے بہنی والی غلاظت کھانے والے درباری مولوی اپنے آدم خور آقا کے آگے اب بھی سر بسجود ہیں۔ امام کعبہ عبد الرحمن السدیس سعودی کے ولی عہد محمد بن سلمان کے جرائم کی پیوند کاری میں اس حد تک حساس ہوگئے ہیں، کہ وہ احادیث و قرآن اورعالم اسلام کی بزرگ ترین شخصیتوں کی دھجیاں اڑنے میں کوئی تکلف نہیں فرما رہے۔ کل ہندوستان کے ایک بزرگ اور مقتدر عالم دین مولانا سلمان حسینی ندوی کا ایک مقالہ جس کا عنوان’’سرخیل علمائے سُو عبد الرحمن السدیس، ، میر نظر سے گزرا جس کو پڑھنے کے بعد میر ی آنکھیں حیرت و استعجاب سے کھلی رہ گئیں۔ جس کا اقتباس آپ بھی ملاحظہ کریں۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے غیرت درباری عالم(امام کعبہ عبدالرحمن السدیس)یہیں پر نہیں رکا، اُس نےکمال چاپلوسی اور تاریخ کی گھٹیاترین بے ضمیری کا ثبوت دیتے ہوئےعالم اسلام کو توڑنےوالےاور بے شمار علما و صلحا کے قاتل، معتدل اسلام کےنام پر فقہ اسلامی اور تعلیمات قرآنی میںتطہیرکا ناپاک عزم رکھنے والےسرزمین مقدس کو پہلی بار کھلے عام فحاشی کے لیے آزاد کرنے والےسعودی حکمران محمد بن سلمان کو نعوذ بااللہ ثم نعوذ بااللہ سیدناعمر فاروق اعظم سے تشبیہ دیدی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود کو خادم الحرمین شریفین کہنے والے اپنے جرائم اور انسانیت سوز مظالم کی پردہ پوشی کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ظالموں اور خائنوں کے تحفظ کے لئے دیئے جانے والے شاہی محل کے درباری ملاؤں کے اس طرح کے بیانات عالم اسلام کی مزید رسوائی میں اضافہ کررہے ہیں۔ چونکہ جمال خاشقجی قتل پر تمام عالمی برداری ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئ ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب کے سب قریبی دوست اور سرپرست تصور کیا جانے والا ملک امریکہ اور اس کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی عالمی دباؤ کی وجہ سےبیک فٹ پر نظر آرہے ہیں۔ چونکہ امریکہ کی موجودہ حکومت کی حزب اختلاف پارٹی کے اہم اراکین نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اور یورپ ممالک کے بہت سے صدور نے جمال خاشقجی کے معاملے کےمکمل تصفیہ تک سعودی عرب سے اپنےتجارتی معاملات پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ چونکہ جمال خاشقجی کے قتل کے ابتدائی مرحلہ میں سعودی عرب کے والی عہد 18 دن تک اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور ان کے ملک کی انٹلیجنس نے اس معاملے سے متعلق تمام شواہدات کو بڑے منظم طریقے سے یکجا کیا، اور اسے بڑی حکمت عملی کے ساتھ عالمی برداری اور میڈیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا۔ جس کے بعد ریاض حکومت کو جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ مزید تفتیش کے بعدمختلف ذرایع سے یہ بات بھی عام کردی گئی، کہ جمال خاشقجی کے قتل کے لئے سعودی حکومت نے اپنے اجرتی قاتلوں کو اسپیشلش فلائٹ سے استنبول روانہ کیا۔ جہاں پر جمال خاشقجی کے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کے تحت بیہوشی کاانجکشن لگا کر دھار دار ہتھیار سے ان کے جسم کے پندرہ ٹکڑے کردیئے، جسے بعد میں ایک بریف کیس میں رکھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ ان رپوٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد سعودی حکومت نے اٹھارہ لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے، اور محمد بن سلمان نے اپنے خاص عہدے دار کو بھی برخواست کردیا ہے۔ محمد بن سلمان نے یہ اقدام اپنے تحفظ کے لئے کیا ہے۔ حلانکہ عالمی برادری اس قتل میں محمدبن سلمان کے برارہ راست ملوث ہونے کے امکان کو ابھی خارج نہیں کیا۔ موجودہ صورت حال سے اس بات کا اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں کہ جمال خاشقجی کے قتل کے تمام راستے محمد بن سلمان کی طرف ہی جارہے ہیں۔ مقتول صحافی کے لہو نے اپنے قاتل کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔ جس کا نتیجہ عنقریب سارے دنیا کے سامنے واضح ہوجائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ ہزار پردہ پوشی سے قتل چھپ سکتا ہے، نہ لاکھ کوشش سے قاتل سزا سے بچ سکتا ہے۔
جو چپ رہے گی زبان قاتل لہو پکارے گا آستیں کا