[email protected]
۔۔جن میںجناب حسان بن ثابت کے علاوہ مشہور نعت گو شاعر جناب عبداللہ شرف الدین محمد بن ابوالبوصیر (جن کے تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا)ان کے نعتیہ قصائد میں اہل بیت علیھم السلام کے حوالے سے بیشتر اشعار موجود ہیں۔مثال کے طورپرکچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
اٰل بَیت النّبی طِبتم خطاب المدحُ فیکم وطاب الرّثاء
انا حسّانُ مدحکم فَا ذا نحتُ علیکم فاِ فّنی الخنساء
’’ اے اہل بیت نبی ؐ تم پاکیزہ ہو اور تمہارے بارے میں میری مدح و رثا،پاک ہے ، میں مدح نگاری میں تمہارا حسّان ہوں اور جب میں تمہارا مرثیہ لکھتا ہوں تو ’’خنسا‘‘ بن جاتا ہوں۔‘‘
اما شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالاشعر کے دوسرے مصرعہ میں خاص کر عرب کے دو اہم شاعروں کا تذکرہ کیاگیا ہے، پہلے ’’حسان ابن ثابت علیہ الرحمہ،جن کا نام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد میں نعت گویان میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ ان کے سلسلے سے تاریخ میں بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں اور ان کے اشعار آج بھی نعت گوئی کی تاریخ میں اپنے مثال آپ ہیں ۔(جن کا تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا) اورایک خاتون شاعرہ’’خنسا‘‘ ہے۔
لیکن اس مذکورہ بالا شعر کے ضمن میں ’’خنسا ‘‘ کا اجمالی تعارف اپنے قاری کے لئے ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں ، ’’خنسا‘‘ عرب کی ایک فصیح اللسان خاتون تھی اور وہ اپنے وقت کی ایک بہترین شاعرہ تھی، جسے شعر گوئی میں ملکہ حاصل تھا، جس کی فصاحت اور بلا غت شعر کی وجہ سے اسے عرب کے اہم شعرا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔اس کا یک بھائی جس کا نام تاریخ میں ’’صخر‘‘ بیان کیا گیا ہے، وہ اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھی،لیکن اس کا بھائی ایک جنگ میں ’’خلد بن ولید‘‘ کی تلوار سے مارا گیا تو اس کے مرنے کا غم ’’خنسا‘‘ پر اتنا شدید ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پھٹی ہوئی جوتیوں کا ہار بنا کر اپنے گلے حمائل کئے ہوئے گلی اور کوچوں میں پھرنے لگی اور اس نے اپنے بھائی کے قتل ہوجانے پر ایک پُرسوز نوحہ کہا اور جب وہ عرب کی گلی اور کوچوں میںپڑھتی اور شدت غم سے یوں سینہ زنی کرتی ، یہاں تک کہ کے اس کے نوحہ کے اشعار سن کر لوگوں کے دلوں پر ایک غم کی کیفیت طاری ہوجاتی اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے۔اس کی مزید تفصیل پڑھنے کے لئے علامہ شبلی نعمانی کی مشہور زمانہ کتاب ’’موزانہ انیس و دبیر‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
امسی نسائک عطلن البیوت فما
یضربن فوق قضا ستر باوتاد
’’خانوادہ عصمت و طہارت کی خواتین اب اپنے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے ، یہاں تک کہ اب وہ اپنے پردوں کے پیچھے میخیں بھی نہیں لگاتیں۔‘‘
مثل الرواہب یلبسن المباذل قد
ایقن بالبؤس بعد النمۃ البادی
’’یہ خانودہ عصمت کی خواتین (حضور کے وصال کے بعد)راہبائیوں کی طرح بہت ہی کم قیمت اور بوسیدہ کپڑے پہنتی ہیں انھوں نے اس نعت کے اٹھ جانے کے بعد اس کھلی ہوئی مصیبت کو اپنا شعار زندگی بنالی ہے۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی کچھ اشعار کہیں جس میں نعت کے ساتھ ساتھ نوحہ کے بھی اشعار ہیں (حضرت علی علیہ السلام کی نعت گوئی پر آگے تفصیل سے تذکرہ کیا جائے گا) لیکن یہاں پر ان کے چند اشعار ضرور پیش کرتا ہوں اپنے موقف کی دلیل کے طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
امن بعد تکفین النبی ودفنہ
باثوابہ آسی علی ھالک ثوی
’’نبی کریم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کفن پوش کرنے کے بعد اس کے انتقال کے غم میں ،میں غم زدہ ہوں وہ جس نے قبراپنی ابدی قیام گاہ بنا لی۔‘‘
زرانا رسول اللہ فینا فلن نری
بذالک عدیلاً ما حیینا من الرویٰ
’’رسول خدا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی موت کی مصیبت ہم پر اس طرح نازل ہوئی ،کہ جب تک میں زندہ رہوں گاہر گز اُ ن جیسی شخصیت کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔‘‘
اسی طرح کعب بن مالک ؓ بھی حضور اکرم کے نعت گویان میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں (جن کا تفصیلی تذکرہ آگے کیا جائے گا) ان کے نعتیہ اشعار میں بھی حضور کے وصال کے پُردرد اشعار موجود ہیں میں یہاں ان کے صرف دوشعر ہی نقل کرونگا۔
یاعین بکی بدمع ذری
لخیر البریۃ والمصطفیٰ
’’اے میری آنکھ کائنات کی اس عظیم اور برگزیدہ شخصیت پر اس طرح سے گریہ کر کہ آنسووں کا تسلسل بن جائے۔‘‘
وبکی الرسول وحق البکا
علیہہ لدی الحرب عند اللقا
’’اس برگزیدہ شخص پر رو اس لئے کہ اس پر رونا جائز ہے ، یہاں تک جب دشمن بھی میدان جنگ میں صف بستہ ہوں اور اس مشکل کی گھڑی میں بھی۔‘‘
اس طرح کے اشعارعرب کے ابتدائے نعت گو شعرا کے قصائد میں کثرت سے ملتے ہیں ۔ بلکہ اس کے بعد کے بھی بہت سے عرب شعرا نے رسول کریم کی وفات اور ان کے اہل بیت علیھم السلام سے تقرب کے لئے نعت کے اشعار کے ساتھ ا س طرح کے شعر تخلیق کئے ہیں لہذاحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور تقرب کے لئے امام شرف الدین بوصیری نے اپنے قصیدہ ’’نومیہ‘‘ میں بہت سے اشعار اہل بیت علیھم السلام کے لئے تخلیق کیے ہیں۔ مذکورہ قصیدہ کا ایک شعر یہ بھی ہے ملاحظہ کریں۔
علیٰ اَن تذکاری لما قد اصابکم
یجر اٗشبحانی واَن قدُم العھد
’’ جب میں ان مصیبتوں کو یاد کرتا ہوں جو آپ پر (اہل بیت نبی ؐ) پر ڈھائی گئیں تو ایک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی میرے غم تازہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
یہ بات درست ہے کہ اولین نعت گو شعرا میں یہ رجحان عام تھا کہ وہ حضور اکرم سے تقرب اور محبت کے بنیاد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے ساتھ ان کے اہل بیت کا بھی تذکرہ اپنے قصائد میں کرتے تھے۔ جس کا مقصد محض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصول محبت و رافت کی بنیاد پر کہے ہیں۔لیکن موجود ہ عہد میں ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کہ علمائے ادب نے صنف’’نعت‘‘ کے موضوعات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام اور ان کے صحابہ کرام کے محاسن و محامد کے انضمام کو مسترد کرتے ہوئے ’’نعت‘‘ کو محض جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر سے موسوم و مخصوص کردیا گیا ہے ۔اور ان کے اہل بیت اور صحابہ کرام کے تذکرے کے لئے ’’نعت‘‘ کی ضمنی صنف کی شکل میں ’’منقبت ‘‘ کی صنف کی ترویج کی گئی جو آج بھی رائج ہے اور صاحبان مودت اپنے عقیدت کے اظہار کے لئے منقبت کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خانوادہ عصمت و طہارت ونجابت اور ان کے صحابہ معظم کی خدمت میں اپنے اظہار عقیدت کے لئے ’’منقبت ‘‘جیسی مقدس صنف کا سہارا لیتے ہیں۔
لیکن موجودہ عہد میں اس ’’نعت‘‘ جیسی مقدس اور مخصوص صنف کے ساتھ کچھ محققین اور اسکالرس شعوری طور پر یا اپنی علمی مجہولیت کے بنیاد پر الگ الگ توضیحات پیش کرتے ہیں ۔اس کے لئے آپ ’’حیات عامر حسینی‘‘کی کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ، کیوں کہ تبلیغ و حجت و شہادت دین حق کی تاریخ اور رسول اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم و آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف و متنوع پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے کلی طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔ یہی اس کی Dialectics کہے اس سے الگ کچھ اور ہوہی نہیں سکتا۔ دین حق کی تبلیغ و حفاظت و سربلندی اور اللہ کی رضا کا حصول اور خلافت ارضی کی ذمہ داری ایک کائناتی عمل ہے اس کی ابتدا و انتہا اور محو ذات اقدس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔‘‘
کتاب :نعت،مرثیہ اور عرفان (ایک علمیاتی ،بحث)‘‘ مطبع زینب پبلی کیشنز علی گڑھ 2016
اس اقتباس سے مولف کی ذہنی کشمکش اوراس کے نفسیات الجھاؤ کو آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں،اس اقتباس میں بہت سے ایسے نکات ہیں جس پر کھل کر بات کی جاسکتی ہے ۔لیکن موضوع کی نزاکت اس بات کی متحمل نہیں ہے، کہ ان نکات کو معرض بحث لایا جائے ۔ لیکن اس اقتباس میں ایک ’’نعت اور مرثیہ‘‘ سے متعلق جو خلط مبحث ہے ۔اس کے درمیان ایک خط امتیاز ضرور قائم کیا جانے چاہئے،مولف نے اردو ادب کی دواہم صنف سخن ’’نعت‘‘ اور مرثیہ ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا ہے۔جو منطقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ’’اردو ادب میں ’’ نعت‘‘ ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے، اور ’’مرثیہ‘‘ بھی رثائی ادب کی ایک مقبول ترین صنف سخن ہے۔ جو کسی طرح کے تعارف کی محتاج نہیں۔لیکن مولف کے اس قول کے مطابق
’’نعت اور مرثیہ کو الگ کرنا ایک حیثیت سے ناممکن ہے ‘‘
یہ نظریہ اپنے اندر کوئی مستقل منطقی استدلال نہیں رکھتا ۔مولف نےعرب کے ان نعت گو شعرا کے نعتیہ قصائدمیں موجود وہ اشعار جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد کہے گے ہیں ۔ان اشعار میں حضوراکرم کے محاسن و محامد کے بیان کے ساتھ اس خلق مجسم اور سراپا رحمت و رافت کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد جو محرومیت اور منہومیت اور کربناک اذیت کا احساس اور اسے پیدا ہونے والے دلوں میں حزن و ملال اور رنج و الم کا اظہار کیا گیا اسی کو بنیاد بنا کر ’’نعت‘‘ اور ’’مرثیہ‘‘ کو ایک ہی صنف قرار دیا۔جو قطعی درست نہیں ہے۔اگر اس نظریہ کو درست مان لیا جائے توہمارے اردوادب میں موضوعات کے اعتبار سے بہت سی ایسی اصناف سخن ہیں ۔جس میں بیک وقت مختلف موضوعات کی پیش بندی کی جاتی ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اس کے درمیان کوئی خط فاصل نہیں قائم کیا جاتا مثلا قصیدہ میں ،خاص کر تشبیب کے اشعارموضوع کے اعتبار سے مکمل غزل کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان تشبیب کے اشعار کے بنیاد پر قصیدے اور غزل کو ایک ہی صنف نہیں قرار دیا جاتا۔اس لئے کہ غزل ایک الگ صنف سخن ہے اور قصیدہ الگ صنف سخن ہے۔ اسی طرح سے اپنے موضوعات کی بنیاد پر ’’نعت ‘‘ ایک الگ صنف سخن ہے اور’’مرثیہ‘‘ ایک الگ صنف ہے ، لہذا اس بنیاد پر دونوں مختلف صنفوں کو ایک ہی صنف قرار دینا یہ قطعی منطقی جواز نہیں ہے۔مولف کو یہ تسامح جنا سیدہ النسالعالمین حضرت فاظمہ زہرا صلواۃ اللہ علیھا کے ان اشعار سے بھی ہوا یا جو اوپر اشعار نقل کئے گئے اس سے یہ التباس پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے مولف اس طرح کے غیر منطقی ارتکاب کا مرتکب ہوا، اور کچھ اشعار مولف نے اپنے جواز کے لئے اس طرح کے اشعار خود اپنی کتاب میں بھی کوڈ کئے ہیں۔وہ اشعار ملاحظہ کریں جسے جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے اپنے بابا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد کہے ہیں۔جس میں کچھ اشعار اپنے بابا کی مدح میں کہے ہیں اور کچھ اشعار اپنے بابا کی جدائی کی کرب انگیز کیفیت سے دوچار ہونے کے بعد کہے تھے۔
ماذاعلی من شم تربتہ احمد
الایشم مدی الزمان غوالیا
’’ وہ شخص جس نے (رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے قبر کی مٹی سونگھ لی تو اس پر تعجب کیا ہے کہ وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے‘‘
صبت علی مصائب لو انھا
صب علی الایام عدن لیالیا
’’اے بابا(رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ کے بعد مجھ پر وہ مصیبت ڈھائی گئی اگر وہ مصیبتیں اگر دن پر پڑتیں تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہوجاتیں۔‘‘
اِغرّاآفاق السمائ و کوّرت
شمس النّھار وَاظلم الارمان
’’آسمان کی وسعتیں گردآلود ہوگئیں اور دن کی بساط کو لپیٹ دی گئی اور سورج گہن آلود ہوگیا جس کی وجہ سے سارا زمانہ تاریک ہوگیا۔‘‘
ولارض من بعد النبی کَئبۃ
اسفا علیہ کثیرۃُ الاحزان
’’رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وصال کے بعد زمین ابتلائے دردو غم میں ڈوب گئی‘‘
فلیبکہ شرق البلادِ و غربھا
یا فخر من طلعت لہٗ النیران
’’اب مغرب و مشرق ان (رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ہجر میں اشک ریز ہیں ،فخر صرف ان کے لئے ہے جن سے تجلیات الہی کا ظہور ہوا‘‘
یاخاتم لرسل المبارک صنوۃ
صلی علیک منزل القرآن
’’اے خاتم الرسل (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)آپ خرو برکت کے وہ بہتے ہوئے دریا ہیں ، جس پر اللہ تعالی نے قرآن جیسی عظیم کتاب نازل کرنے والے نے انھیں اپنے درودوسلام میں شامل رکھا۔‘‘
مذکورہ اشعار میں کچھ نعتیہ اشعار ضرور موجودہیں ۔لیکن اس کے ساتھ مرثیہ کے بھی اشعار ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،لیکن ان رثائی اشعار کی بنیاد پر دومختلف صنف سخن کا انضمام قطعی درست نہیں ہے۔لیکن آگے چل کر اسی کتاب میں مولف محترم اپنے اس موقف کو خود مسترد کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’یوں نعت اور مرثیہ اہل بیت طاہرین ؑ کا چولی دامن کا ساتھ ہے حالاں کہ نعت اور مرثیہ دو الگ اصناف سخن ہیں لیکن اس کے باوجودبہت اعلیٰ نعت اور مراثی لکھے گئے ، ان میں ایک گہرا تعلق صاف دکھائی دیتا ہے ۔ کبھی نعت مرثیہ کی اور کبھی مرثیہ نعت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔‘‘
مولف کا یہ تذبذنانہ رویہ اور نفسیاتی کشمکش کسی حتمی فیصلہ سے مانع ہے۔ اس لئے وہ کبھی نعت کو مرثیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی مرثیہ کو نعت سے متعارف کراتے ہیں۔اور اس ادغام و انضمام و اتصال میں کسی منطقی انجام کار کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔لہذا یہ کہنا قطعی درست نہیں کہ نعت اور مرثیہ دونوں ایک ہی صنف سخن ہیں۔ یا دونوں کے درمیان ایک ہی جیسا اتصال پایا جاتا ہے۔ نعت اور مرثیہ لغوی اور اصطلاحی اور اپنے موضوعاتی سطح پر بھی اپنے الگ الگ زوایہ انفراد کی عکاسی کرتے ہیں۔اس کے جواز کے لئے کچھ اہم دانشورواں اور محققین کے ان نظریات سے قطعی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔
اسی ضمن میں پرفیسر ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی یہ تعریف ’’نعت‘‘ کے قطعی معنی کے تعین میں ایک اہمیت رکھتی ہے ۔
’’ ادبیات اور اصطلاحات شاعری میں ’’نعت ‘‘ کا لفظ اپنے مخصوص معنی رکھتا ہے ،یعنی اس سے صرف آنحضرت کی مدح مراد لی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت کے سوا کسی دوسرے بزرگ یا صحابی و امام کی تعریف بیان کی جائے تو اُسے منقبت کہیں گے۔‘‘ (’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘ صفحہ ۲۱،ڈاکٹرفرمان فتحپوری آئینہ ادب چوک مینار انار کلی ،لاہور ،۱۹۷۴)
برصغیر کے معروف محقق ڈاکٹر عاصی کرنالی ’’نعت ‘‘ کے لغوی و اصطلاحی معنی کے ضمن میں یہ بات بڑے وثوق سے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’لغوی معنی و مفاہیم کے باوجود اصطلاحی طور پر نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور صفات حمیدہ و طیبہ ہی کے بیان کے لئے مخصوص ہے جبکہ دوسری ہستیوں کے لئے وصف مدح ، مدحت ، منقبت ، تعریف ، توصیف کے الفاظ کا استعمال انھیں ممتاز ومختلف کرتا ہے ۔‘‘ ’’اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘‘ صفحہ ۶۲؍۶۳)
’’نعت ‘‘کے اسی اختصاصی معنی کے جواز میں مبین مرزا کی یہ تشریح بہت اہمیت کی حامل ہے ، جس سے گریز نہیں کیا جاسکتا ۔
’’اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ ’’نعت‘‘ کا اطلاق رسول اللہ کی مدح کے سوا کسی اور شخص کی مدح پر ہو سکتا ہے ؟’’نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنی تعریف ، تو صیف ،اور مدح کے ہیں ،تاہم اب یہ لفظ ہمارے یہاں اپنے لغوی معنوں میں نہیں بلکہ اصطلاحی معنوں میں رائج ہے۔اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوم توصیف ، اہل علم اور اہل زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ اصطلاحی معنی اختیا ر کرلے تو اس کے استعمال میں احتیاط برتتے ہیں ،ہم نے کبھی کہیں یہ نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی کو کسی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں شخص فلاں صاحب کی بہت ’’نعت کر رہا تھا‘‘ یعنی(تعریف کر رہا تھا)اس لئے نہیں سنا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر کم علم بلکہ مطلق لاعلم شخص تک سب کے سب یہ بات قطعی واضح طور پر جانتے ہیں کہ لفظ’’ نعت‘‘ صرف و محض محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی گرامی کے توصیفی تذکرے کا مفہوم رکھتا ہے اور اسے کسی اور کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ (مبین مرزا’’لفظ نعت کا استعمال ایک توجہ طلب مسئلہ ‘‘ نعت رنگ ‘‘ شمارہ ۱۱کراچی پاکستان)
یہ مذکورہ اقتباس اس لئے اہم ہیں کہ موجودہ عہد میں ’’نعت‘‘ کو اس کے معنوی زوایہ انفراد اور اس کے اختصاصی موضوع سے الگ ہٹ کر عمومی سطح پر ایک جدید تصرف کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔جو قطعی درست نہیں اس لئے کہ ’’نعت‘‘ اپنے تمام تر لغوی و اصطلاحی معنی میں ایک ایسا جامع لفظ ہے ۔جو اپنے اندر کسی بھی طرح کی تصریف و تصحیف کی جسارت کو برداشت نہیںکرتا ۔لہذا اس میں کسی طرح کے ادبی اجتہادات کی گنجائش نہیں
جاری۔۔۔