1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص - 3

نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص - 3

[email protected]

۔۔۔۔۔جدید و قدیم کی اس بحث میں یہ بات دلچسپ ضرور ہے کہ قدیم مرثیہ کے مقابل جدید مرثیہ کی تمام تر جدت پسندانہ روایت بھی رونے رلانے اور حصول ثواب کے حصار سے باہر قدم نہ رکھ سکی اور ان دونوں کے درمیان اگر کوئی فاصلہ وضع کیا گیا تو محض ایک دنیاوی لاحقہ کا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔

’’ مرثیہ کو صرف کربلا کے ساتھ مخصو ص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا۔۔۔۔۔۔ شاعری کو محدود کرنا ہے۔‘‘ (مقدمہ شعر و شاعری ص ۲۳۷)

پہلی بات تو یہ کہ مولانا کا یہ نظریہ کہ تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا شاعری کا محدود کرنا ہے ۔ دراصل کربلا کی معنوی وسعتوں سے ناواقفیت پر دلیل ہے کربلا کا مضمون تمام کائنات انسانیت کی سب سے اعلی ترین اخلاقی قدروں سے عبارت ہے جسے کے تسلسل اوراد سے نئے نئے مفاہیم و معنی کا جنم ہوتا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری کربلا کے اس آفاقی نصاب سے نوبہ نو علامات و استعارات وضع کرتی رہتی ہے۔

اس ا قتباس سے مولانا کا نظریاتی منشور بالکل واضح اور روشن ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ مولانا مرثیہ کے بنیادی اتصاف اور عمومی رجحان کوواقعات کربلاسے ہٹ کر مرثیہ کو ایک نئے عنوان سے متعارف کرانے کی ایک شعوری کوشش کر رہے تھے جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے مولانا نے واقعات کربلا سے ہٹ کر مرثیہ کاایک نیا تعارف شخصی مرثیہ کے حوالے سے کیا اورانھوں نے اپنے اس اقدام کے عملی جواز کے ثبوت میں اپنے ماسبق شعرا کی وہ تمام رثائی تخلیقات جواپنے ذاتی غم کے اظہار یا دوسرے حادثاتی واقعات اور سانحہ ارتحال سے متعلق تھیں اسے شخصی مرثیہ کے نام سے پیش کیں۔ مولانا کے اس اقدام سے ادب کا جو فائدہ ہوا اس سے بحث نہیں لیکن ایک نقصان ضرور ہوا کہ نوحہ ایک بار پھر اپنی اصل شناخت سے محروم ہوگیا کتنا اچھا ہوتا کہ اگرشخصی مرثیہ کو شخصی مرثیہ کے بجائے شخصی نوحہ کہاجاتا ۔

ہندوستان میں مرثیہ نگاروں نے ہندوستانی تہذیب و معاشرت، رسم ورواج اور عقیدت و اعتقاد کی زندہ تصویر یں پیش کی ہیں۔ کرداروں کا لب ولہجہ ، نفسیات، حرکات وسکنات، محاورے، طرز تکلم، حفظ مراتب، طرز تخاطب ایسے رنگ پیش کیے ہیں کہ خالص عربی کردار سراسر ہندوستانی فضا کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے ہیں۔ جدید مرثیہ نگاروں نے انہیں کرداروں کو عوام کے پیچیدہ مسائل سے ملا کر مرثیے کا موضوع کائنات گیر بنادیا جہاں مرثیے کے کردار عوام سے مخاطب نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قدیم و جدید نوحے جن کو بینیہ و تبلیغی نوحے کہا جاتا ہے ہندوستانی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرنے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔

نوحہ کسی مخصوص ہیت کا پابند نہیں ہوتااور نہ کسی خاص واقعات و شخصیات کا نوحہ اپنے ذاتی جذبہ غم کے اظہار میں کسی مسلکی یا مذہبی رسوم و قیود کا پابند بھی نہیں ہوتا لہذا رثائی ادب میں دیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ کو محض کربلا سے مخصوص کر کے نہیں دیکھنا چاہے اس لئے کہ نوحہ ہر انسان کے اپنی ذاتی غم و الم کے اظہار کا بھی نام ہے ۔وہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کربلا کے اس آفاقی غم کے مقابلے میں اپنے ذاتی غم کو کس طرح سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ہے اگر وہ کربلا کے غم کو اپنے غم سے زیادہ عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اظہار کے لئے اسی کی ادبی اختصاص اور مذہبی جواز کی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک حصول ثواب کا مسئلہ ہے تو یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ ویسے بھی غم انسان کے اندر پائے جانے والے سب سے حساس جذبہ کا نام ہے اور اس کی معنویتی کائنات میں کافی وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ گریہ و زاری کے تعلیقاتی عوامل انسانی زندگی کے مختلف شعبے پر محیط وبسیط ہوتے ہیں ۔مرثیہ کے مقابلے میں نوحہ زیادہ تفصیل طلب موضوعات کا متحمل نہیں ہوتا اس لئے نوحہ کا آغاز نوحیت سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی نوحییت پر ہی ہوتا ہے نوحہ کا ایک مخصوص دائرہ عمل ہے چونکہ انسان فطری طور پراپنے اظہار غم کے لئے کسی طرح کی فضا سازی اور ماحول آرائی کا اہتمام و انتظام نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر پیدا ہونے والی ہیجان انگریز المیاتی کرب کا برجستہ اظہار چاہتا ہے لہذا مرثیہ کی طرح نوحہ تمام ترتصنوعات اور تکلفات سے شعوری طور پر گریز کرتا ہے ۔

نوحہ کے بارے میں پروفیسر سید مہدی جعفر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’نوحے کے تخلیقی آغاز ہی سے اختصار کی شکل میں ’نوحیت‘یعنی بین اور غم والم کا اثر انگیز برتاؤ مرثیے اور نوحے کی درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ یہی اس کی فنی جہت ہے ، شاعر کا کمال اس نقطہ عروج پر منحصر ہے کہ نوحہ سننے والے کا دل سنگین اور غمناک صورت گری سے تڑپ اٹھے ۔تخلیق کا ر کے لئے یہ جاں کاہ کوشش انگلیوں کو خونِ دل میں ڈبولینے کے مترادف ہے ۔‘‘ (ماخوذ از ’’سرخ دوپہر‘‘ص ۸)

نوحہ گوئی کا فن نہایت ہی مشکل فن ہے اس میدان میں شاعر کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر رہ کر تخلیقی ہنرمندیوں اورمخصوص تکنیک کے ذریعہ اپنے اند ر پیدا ہونے والی ہیجان انگیز کرب کو اپنے جذبات میں تحلیل کرکے اپنی مخصوص لفظیات کے ذریعہ اس کی ترسیل کرتا ہے جس کا اثر اس کے سامع پر کچھ اس طرح ہوتا سے ہوتا ہے کہ وہ گریہ و زاری اور سینہ کوبی کے لئے مجبور ہوجاتا ہے ۔

نوحہ سے متعلق بیشتر نقاد کا یہ اغلب رجحان ہے کہ نوحہ نسائی زبان میں جذبہ غم و اندوہ کے اظہار کا نام ہے ۔ اس سے متعلق یہ اقتباس بہت اہمیت رکھتا ہے ۔

’’لوگ خیال فرماتے ہیں کہ نوحہ تصنیف کرنا بہت آسان ہے ،میرے نزدیک یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ عورتوں کی زبان میں جذبات شاعری اور حسن بندش کا خیال رکھنا اور محاورات کا محل پر صرف کرنا اور واقعات کربلا کو شریک کرنا مضمون کو ان الفاظ کے حوالے دینا جن لفظوں کی روشنی میں مطلب اور بھی واضح طور سے نظر آنے لگے کوئی سہل بات نہیں‘‘۔(دولھا صاحب عروج، جوشِ ماتم ،حصہ اول)

اس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ نوحہ گوئی میں نسائی جذبات کی نمائندگی مردوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے اس کا ایک نفسیاتی اور طبیعاتی پہلو بھی ہے چونکہ عورتیں مردوں کے مقابلے زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہیں لہذا غم و اندوہ ان کی طبیعت پر بہت جلد اثر انداز ہوتا ہے اور ایک عورت جتنی شدت کے ساتھ غم کو محسوس کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ جذباتی انداز سے اس کیفیت غم کا ظہار بھی کرتی ہے۔ مرثیہ کی طرح ہی ہندوستانی عورت کے جذبات کی یہ مختلف کیفیتیں جو آپ نے مرثیوں میں پڑھیں ہیں وہ بعینہ نوحوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔عراق کی سرزمیں کربلا میں رونما ہونے والے واقعات کو اگر باریکی بینی سے دیکھیں گیں تو آپ یہ محسوس کریں گیں کے ایک ماں اپنے بچے کو میدان قتال میں بھیجنے کے لئے کس طرح تیار کرتی ہے اور کیا نصیحتیں کرتی ہیں یہ موضوع بہت ہی حساسیت سے عبارت ہے ۔معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں جب کربلا کی کسی شہید کی ماں کے بیٹے کی لاش خیمے میں آتی ہے تو اس کے اظہار حزن و الم کا دردانگیز منظر کس طرح بیاں کرتی ہیں اس کو سننے کے بعد دل میں ایک عجیب کرب و الم انگیزیت کا احساس بیدار ہوتا ہے۔جو انسان کے اندرون کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔مجموعی طور پر کسی واقعہ کے جزیئات کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی واقعہ کے اہم پہلووں کو نوحوں میں ضرور بیان کی جاسکتا ہے۔پروفیسر اطہر رضا بلگرامییہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’نوحوں کا ہندوستان ایک جامع ، مکمل اور متحرک ہندوستان ہے جہاں آپ کو ایک طرف انیسؔ و دبیرؔ کا اودھ کی تہذیب و معاشرت میں رچا بسا ہندوستان نظر آئے گا تو دوسری طرف گنگا جمنا ہمالیہ ،کھیت کھلیان، ندیوں ، باغوں وفصلوں کو سمیٹے ہوئے ہندوستان ملے گا۔ یہاں اگر ایک طرف حفظ مراتب ،طرز تخاطب کی تہذیب ہے تو دوسری طرف سادھو، سنتوں اورصوفیوں کے اپدیش بھی ہیں۔یہاں کہیں سنت کبیرکی آواز اور میرا ؔ کے بھجن گونجتے ہیں تو دوسری طرف انقلاب وللکار بھی سنائی دیتی ہے۔۱۹۴۱ ء میں حسینی یادگار کمیٹی نے تبلیغ حسینی کے سلسلے میں جو ملک گیر کارہائے نمایاں انجام دیئے ان میں سب سے اہم کام واقعہ کربلا اور حسینی پیغام کو ہندوستانی عوام تک پہونچانا تھا۔چونکہ نوحہ کسی مخصوص طبقے سے نہیں عوام سے مخاطب تھا اس لئے وہ انہیں کی زبان ولب ولہجہ میں مخاطب ہوا ۔انہیں کی رسم ورواج واعتقادات کا نمائندہ بنا اور انہیں کے جذبات کی عکاسی کرتا ملا۔ اس لئے نوحوں نے مقامی زبان ولب و لہجہ کو اپنایا۔انہیں کے زبان زد محاورے استعمال کئے اور اس وقت کے مقبول ومعروف عوامی شعراء مثلاً اکبر ؔالہ آبادی، اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا سہارا لیا۔سنت کبیرؔ ،تلسی داس ، میرابائی کے مقبول عام کلام کا رنگ اپنایا اور اقبال کی ہر دل عزیز نغموں کا چولا پہنا۔انیسؔو دبیرؔ اور ان کے معاصرین نے اپنے مرثیوں میں کبھی عوام کی نمائندگی نہیں کی۔کبھی ہندوستانی عوام کو مخاطب نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج گجراتی ، کشمیری، ڈونگری،سندھی ، پنجابی اور مختلف شمالی ہندوستان کی زبانوں میں نوحے تو بہت مل جائیں گے جو اپنے اپنے علاقوں میں مقبول ہیں لیکن مرثیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اور جو ہیں بھی وہ اتنے مقبول عام نہیں۔مرثیوں کے مقابلے میں نوحوں کا ہندوستان کتنا جامع ،کتنا وسیع اور کتنا متحرک ہے اسکی چند مثالیں پیش ہیں۔نجمؔ آفندی،نواب رام پور اور مقامی پیشہ ور حضرات کے کلام سے لی گئی ہے۔‘‘

’’ نوحہ رثائی ادب کا اہم ستون اورقومی یکجہتی کا آئینہ‘‘

یہ بات بالکل درست ہے کہ نوحہ گوئی دماغ سوزی سے زیادہ جگر سوزی کا کام ہے جیسا کہ امید فاضلی تحریر کرتے ہیں۔

’’صنف نوحہ گوئی ایک مشکل صنف سخن ہے ۔ اس میں شاعر کو اپنا پتہ پانی کر پڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ کسی کی آنکھ سے آنسو او ر دل سے آہ نکلوا سکتا ہے ‘‘ (مجلہ ’’ایک آنسو میں کربلا‘‘اسلام آباد)

جاری۔۔۔