1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پیرزادہ شرف عالم/
  4. وزارتِ تجاوزات

وزارتِ تجاوزات

میں: کیا ہوا بڑے اداس ہوآج
وہ: اداسی تو اب میرا مقدر ہے،
اور میرا ہی کیا ان سب لوگوں کا مقدرہے
جو اپنی دکانوں، مکانوں اورپتھاروں سے گئے
میں: ہاں بات تو تمھاری درست ہے
تو تمھاری دکان گئی یا مکان
وہ: دونوں
میں: دونوں...وہ کیسے؟ کیا اوپر مکان تھا اورنیچے دکان؟
وہ: نہیں مکان پاپوش نگر میں تھا
اور دکان لائٹ ہاؤس میں
میں: تو کیا دونوں ناجائز زمین پہ بنے ہوئے تھے
وہ: بالکل نہیں دراصل میں اپنے مالی حالات سے پریشان تھا
میں نے اپنا مکان بیچ کر لائٹ ہاؤس میں دو دکانیں
خرید لیں تھیں جو وزارتِ تجاوزات کی عدالتی فرمانبرداری کی نذر ہوگئیں
میں: بھئی کیا خوب کہا، محکمہ زراعت کے بعد وزارتِ تجاوزات
وہ: میاں محظوظ بعد میں ہونا پہلے پوری بات تو سن لو
میں: ہاں ہاں کہو
وہ: میں نے ان کودکان کے اصل کاغذات دکھائے
جو متعلقہ محکمے کی تمام متعلقہ مہروں سے مزین تھے
میں: پھر انھوں نے کیا کہا
وہ: کہنے لگے یہ آپ جانیں اورمتعلقہ محکمہ ہم تو عدالتی حکم کے پابند ہیں
ہمارے ریکارڈ میں یہ دکانیں ناجائز زمین پر بنی ہوئی ہیں
میں: لیکن اس تمام کارروائی کے نگراں اسی متعلقہ محکمے کے افسران
ہی تو ہیں، جنھوں نے تمھیں ان دکانوں کی جائز دستاویزات
کی منظوری دی تھی
وہ: یہی تو ستم ظریفی ہے، زبردست مارے اوررونے نہ دے
جب ہم ان سے کوئی ایسا کام کرواتے ہوئے ان سے پوچھتے تھے
کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا، تو کہتے تھے ہم بیٹھے ہیں نا
اوراب ہماری بلی ہمیں کومیاؤں والا معاملہ ہوگیا ہے
اب یہ جہاں پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں ہم کھڑے ہیں نا
دیکھتے ہیں کون نہیں ہٹاتا اپناپتھارا
وہ: اصولی طور پر تو پہلے متعلقہ محکمے کے ان افسران کو
کٹہرے میں لانا چاہیے جنھوں نے نہ جانے کتنے
برسوں سے اس شہر کو شہرِ تجاوزات بنا رکھا تھا
میں: افسوس کہ میں تمھاری اس بات کی تائید بھی نہیں کرسکتا
کیوں کہ اگر محکمہ زراعت کی طرح اب کی بار محکمہ لائیو اسٹاک
والے آگئے تو ہمیں بھی ڈھورڈنگر سمجھ کر
کسی بھی رِیت رواج کی بھینٹ چڑھادیں گے
وہ: اب بھینٹ چڑھانے کے لیے بچا ہی کیا ہے
دکان رہی نہ مکان، بقول شاعرؔ
سر پہ بس آسمان باقی ہے
اک یہی سائبان باقی ہے
میں: لیکن تمھیں پتہ تھا کہ جس زمین پہ تم اپنا گھر یا دکان
بنارہے ہو یہ غیرقانونی ہے، پھر غلطی تو تمھاری بھی ہے
تم نے متعلقہ افسر وں کی جیبیں بھر کے اپنا الو سیدھا کرلیا
وہ: میں مانتا ہوں کہ میں نے اپنا کام نکلوانے کے لیے
ایسا کیا، لیکن اس جر م میں وہ بھی تو برابر کے شریک ہیں
جنھوں نے مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو محکمے
کی پکی مہروں والے کاغذات جاری کیے
میں: یعنی تم چاہتے ہو متعلقہ محکمے اورمتعلقہ افسران سے بازپرس
کی جائے اوران سے وصولی کرکے تمھارے پیسے واپس
دلائے جائیں
وہ: بالکل تاکہ میں اپنا گھر یا دکان کسی قانونی جگہ پر بناسکوں
میں: لیکن اتنے سال تم اس غیر قانونی جگہ پر رہتے رہے،
کھل کے پیسے کماتے رہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
وہ: کیا مطلب
میں: مطلب یہ کہ کھالیا، کمالیا تو تھوڑی وصولی بھی ہوجائے
وہ: وصولی، وہ تو ہم پوری پابندی سے دیتے ہیں، قسم اللہ پاک کی
جو آتا ہے جب آتا ہے ہم چُوں بھی نہیں کرتے
خاموشی سے دے دیتے ہیں
میں: اوراپنی وصولی تم ہم گاہکوں سے کرلیتے ہو
وہ: یہ کیا کہہ رہے ہو بھائی
میں: تمھیں آئینہ دکھا رہاہوں
رشوت کے پیسے کھلاکرہتھیائی گئی ناجائز زمین پر
کاروبار کرکے تم خود اور اپنے بیوی بچوں کو جو نوالہ کھلاتے رہے
کیا وہ جائز تھا
وہ: کیسی باتیں کررہے ہو تم
میں: کبھی خد اکے حضور حاضری کا خیال نہیں آیا
وہ: یہ ساری باتیں متعلقہ محکمے کے اس افسر کو بھی بتاؤ
میں: اسی کے پاس سے ہوکر آرہاہوں
اگر دس روپے کی بھی رشوت لی ہوگی نا
پیٹ میں جانے والانوالہ حرام ہی ہوگا
میرے دوست آؤ اپنے دلوں میں موجود تجاوزات گرائیں
تو شاید دل کے نہاں خانوں میں بیٹھا خدا نظر آجائے