1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پیرزادہ شرف عالم/
  4. آنسوؤں کا نشان باقی ہے

آنسوؤں کا نشان باقی ہے

میں:ارے تم رو رہے ہو
ایسا کیا ہوگیا
وہ:کچھ دن پہلے ایک دو سال کی معصوم بچی
اپنے پڑوسی کی ہوس کا نشانہ بن گئی
حال ہی میں عدالت نے ایک ایسے شخص کو موت
کی سز اسنائی جس نے اپنی سگی بھانجیوں کو بھی نہیں بخشا
اُن بچیوں کی عمریں دس سال سے بھی کم تھیں
عدالت میں ایک ایسا کیس بھی زیر سماعت ہے
جس میں تین سگے بھائی
اپنی بہن کوزندہ لاش سمجھ کر نوچتے رہے
ان کے ماں باپ دنیا سے گزرچکے تھے
انصاف کے کٹہرے میں ایک ایسی بیٹی بھی فریاد کناں ہے
جو اپنے سگے باپ کی درندگی کا شکار بنی
ایک اور مقامی عدالت نے ایک چودہ سالہ لڑکے کے ساتھ
اجتماعی بد فعلی اوراس کے قتل کے جرم میں آٹھ میں سے
چار لوگوں کو سزائے موت سنائی ہے
ایک اور لڑکے نے اپنے ساتھ ہونے والی بدفعلی کی ویڈیو
عام ہوجانے پر خودکُشی کرلی ہے
ایک سرکاری اسپتال میں دانت کے درد
کی شکایت لیکر آنے والی ایک جوان عورت کو
نشے میں دھت ڈاکٹر اورعملے کے دیگرافراد نے
اپنی ہوس کانشانہ بنا نے کے بعد زہر کا انجکشن
لگا کر اسے ہمیشہ کے لیے ہردرد سے آزادکردیا
میں:یہ سب کچھ سن کر تو مجھے شدید غصہ آرہاہے
دل چاہ رہاہے کہ ان تمام کو اپنے ہاتھوں سے عبرت ناک سزا دوں
وہ:یہ تو محض وہ واقعات ہیں جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے
ہمیں پتہ چل گئے ہیں ورنہ ہمارے معاشرے میں
ان کی تعداد تو اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ شمار میں آنا محال ہے
میں:لیکن تم رو کیوں رہے ہو
سیانے کہا کرتے تھے مرد کا رونا بزدلی کی علامت ہوتا ہے
وہ:میں اپنی بزدلی نہیں بے چارگی پہ رو رہاہوں
سماج کی بے حسی پہ رورہاہوں
نظام کی پامالی پہ رورہاہوں
میں:میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی،
کیاصرف ارباب اختیار ہی نظام کواس نہج پر
پہنچانے کے ذمہ دارہیں
وہ:یقینا نہیں، میں اورتم بھی شریکِ جرم ہیں
کیوں کہ ہم کبھی خاموش رہ کر
اور کبھی ظالم کو مظلوم بناکراس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں
میں:لیکن جو بات تم کچھ لمحہ پہلے کررہے تھے
عدالتوں نے ان میں سے کچھ درندہ صفت
انسانوں کو کیفرکردار تک تو پہنچایا ہے؟
وہ:میرے دوست معاملہ عدالتی انصاف سے زیادہ
ہمارے زوال پذیر سماجی رویوں اوراخلاقی پستی کا ہے
سگا باپ، سگے بھائی، سگا ماموں اور ....
میں:بس کرو میرے بھائی انسانوں کی یہ وحشت یقینا
کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں
میری روح تویہ سب کچھ سوچ کر ہی کانپ جاتی ہے
کہ انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے
کاش میں اس سماج میں پیدا ہی نہ ہواہوتا
وہ:تم نے کبھی کبوتر کودیکھا ہے
کبوتر کو جب کسی چیز سے خطرہ ہوتا ہے نا
تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے
اورسمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل جائے گا
مگر کچھ ہی دیر بعد اس کی زندگی
بے پر کے ہی پرواز کرجاتی ہے
میں:تم مجھے کبوتر کہہ رہے ہو
وہ:نہیں خود کو کہہ رہاہوں، ہر اس فرد اور
ادارے کو کہہ رہاہوں جس کی منڈیروں پر
ہم جیسے نہ جانے کتنے کبوتر اپنی آنکھیں بند
کیے بس ُغٹرغوں کی گردان کیے جارہے ہیں
میں:تم کہنا کیا چاہ رہے ہو
وہ:میں یہ یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ انسان کی اس درندگی
اوروحشت کی بنیادی وجہ گناہ گار کا قانون کی
گرفت سے بچ نکلنے کے ساتھ ساتھ
اپنی خواہش نفس کو خدا بنالینا بھی ہے
تھوڑی دیر کے لیے غور کرو اگر خدا زمین پر انسان کو
بھیجنے کے بعد اپنے برگزیدہ بندوں یعنی رسولوں
اور پیغمبروں کے ذریعے زندگی کو درست طور
پر گزارنے کے لیے اپنے احکامات نازل نہیں کرتاتو
یہ دنیا اپنے قیام کے شاید چند سو سال کے اندر ہی
خود انسان کے اپنے ہاتھوں ختم ہوجاتی
میں:میرے بھائی اپنی علمیت کا رعب مجھ پر نہ ڈالو
اگرنفس کے اس گھوڑے کوقابو میں رکھنے کا کوئی عملی راستہ ہے تو بتاؤ
وہ:وہی بتانے کی کوشش کررہاہوں
تم نے کبھی سوچا ہے کہ اس قبیح جرم کو درندگی کیوں کہا جاتاہے
کیوں کہ انسان نما جانور ایک مظلوم کو کسی درندے کی طرح
بھنبھوڑکر اپنی ہوس مٹارہاہوتا ہے
جیسے ایک موذی جانور کبھی انسان کودبوچ لے تو وہ اپنے پنجوں
اور دانتوں سے اسے لہولہان کردیتا ہے
ایسی صورت میں انسان کے پاس بچنے کا کیا راستہ ہوتا ہے؟
میں:یہی کہ وہ اس جانور سے بچنے کی کوشش کرے اورموقع ملتے ہی
کسی پتھر یا بھاری چیز سے اس کاسر کُچل دے
وہ:بالکل صحیح کیوں کہ اس کے جسم کے کسی اورحصے پر وار
کرنے سے اس کے بچ نکلنے اورآئندہ کسی اورپر حملہ
کرنے کا امکان باقی رہتاہے
میں:یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسانوں کے ساتھ درندگی کے ہر اس
مجرم کا سر کُچل دیا جائے اوراسے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا جائے
وہ:اور یہ کام سرِعام ہزاروں کے مجمع میں کیاجائے
تاکہ معاشرے کے لیے عبرت کی مثال بن سکے
ورنہ اس معاشرے میں ان مظلوموں اورلاچاروں
کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی جن کی آنکھوں سے
نہ رکنے والی اشکوں کی جھڑی ان کے چہروں پر آنسوؤں
کا مستقل نشان چھوڑ جائے گی
بقول شاعرؔ
اتنا رویا ہے اس کے چہرے پر
آنسوؤں کا نشان باقی ہے