1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پیرزادہ شرف عالم/
  4. آؤ اب کھولیں دُکاں تعلیم کی

آؤ اب کھولیں دُکاں تعلیم کی

میں : کہاں سے آرہے ہو
وہ : سامنے والی دُکان سے آرہا ہوں
میں : دُکان!لیکن تم تو ابھی اسکول سے باہر نکلے ہو
وہ : اسکول...ایک منٹ مجھے ٹھیک سے دیکھنے دو
میں : سامنے اتنے واضح حروف میں اسکول کا نام بھی لکھا ہے
وہ : ہاں تم ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہو
یہاں تو بڑا بڑا لکھا ہے .... فلانا ڈھمکانا ماڈل اسکول
لیکن مجھے ایسا کیوں لگا کہ میں اسکول سے نہیں
کسی دُکان سے باہر نکلا ہوں
میں : تمھارے منہ سے یہ سن کر مجھے بھی حیرت ہورہی ہے
تم ذرا تفصیل سے بتاؤ کہ اسکول کے اندر تمھارے ساتھ
کیا ہوا
وہ : مجھے اپنے بچوں کے شروع ہونے والے نئے سیشن کی معلومات
حاصل کرنا تھیں اور سب سے چھوٹے والے کا داخلہ بھی کرانا تھا
سوچا کہ کہاں کسی اوراسکول کی تلاش میں بھٹکتا پھروں یہیں داخل
کرادیتا ہوں۔ سب ایک ساتھ جائیں گے ایک ساتھ سکون
سے گھرآجایا کریں گے
میں : یہ اچھاہے کہ سب بچے ایک ہی اسکول میں ہوں لیکن تم بتارہے
تھے کہ اسکول میں تمھارے ساتھ ہوا کیا
وہ : ہاں تو میں جیسے ہی اسکول میں داخل ہوا تو تین کاؤنٹرز میرے
سامنے تھے اورتینوں پر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں
میں : کاؤنٹرز؟
وہ : ہاں جیسے دودھ کی تین دُکانیں ایک ساتھ ہوں
لوہے کے جنگلے اوراس کے پیچھے تین حضرات یا خواتین
آرام دہ کرسی پر اطمینان سے براجمان ہیں
ایک کاؤنٹرپر فیس کی وصولی، دوسرے پر نئے کورس
اورتیسرے پر نئے یونیفارمز کی فروخت
میں : اچھا تو اس لیے تمھیں وہاں اسکول سے زیادہ دُکان کا گمان ہوا
وہ : تمھارے اس سوال کا جواب آگے چل کردوں گا
پہلے وہ ماجرا سنو، جہاں ایک بچے کے والدجو اسکول سے
کتابیں خریدنا نہیں چاہتے تھے بلکہ خود بازار سے
خریدنے کے خواہش مند تھے
میں : تو اس میں کیا مسئلہ تھا
وہ : مسئلہ یہ تھا کہ اسکول والے انہیں فہرست دے نہیں رہے تھے
ان کا اصرار تھاکہ آپ کتابیں کاپیاں اسکول سے ہی خریدیں
میں : پھر ان صاحب نے کیا کہا
وہ : انھوں نے کہا آپ لوگ دو تین کاؤنٹر اور بڑھالیں
ایک پہ آٹا چاول، دوسرے پہ دودھ ڈبل روٹی اورتیسرے
پر سبزی گوشت بھی بیچنا شروع کردیں
میں : پھرکیا ہوا
وہ : بس جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا
اسکول والوں نے بڑی مشکل سے ان کو کتابوں کی فہرست دی
دو دن بعد وہ صاحب مجھے ملے تو کہنے لگے جناب
جو کتابیں کاپیاں اسکول والے ساڑھے چار ہزار روپے میں
دے رہے تھے، وہ صرف سترہ سو روپے میں مل گئیں
میں : کیاکہہ رہے ہو پیسوں کا اتنا زیادہ فرق
وہ : تمھیں کہو ان اسکولوں کو دُکان نہ کہوں تو اورکیا کہوں
میں : تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو
وہ : اور اسی پر بس نہیں ان اسکول والوں نے ٹیچرز کے لیے
بھی مختلف پیکیج بنارکھے ہیں
معمولی قابلیت کے افراد کو ٹیچر رکھ لیتے ہیں اور ان کو
اپنے گھر، رشتے داروں کے کم از کم 5بچے اسکول
میں داخل کرانے پر زیادہ تنخواہوں کی آفرز بھی کرتے ہیں
میں : تمھاری یہ بات بھی صحیح ہے
ان لوگوں نے تعلیم کو کاروبار اورطالب علموں کو کسٹمر بنادیا ہے
وہ : علم کی روشنی سے بچوں کے ذہنوں کو منور کرناتوبہت دور کی بات ہے
یہ لوگ تو بچوں کو تعلیم دینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے
ان کی ساری فکر بچوں کے بستوں کوبھاری سے بھاری کرنے
پر لگی ہوتی ہے۔ کیوں کہ بستہ کتابوں اورکاپیوں کے وزن سے
جتنا زیادہ بھاری ہوگا ان کے منافع کی شرح اتنی زیادہ بڑھتی چلی جائے گی
میں : ہاں میں نے بھی اکثر دیکھا ہے کہ جو مشکل سوال ہوتا ہے
یہ بچوں کو ہوم ورک میں دیکر والدین کے ذمہ ڈال دیتے ہیں
اور آرٹ اینڈ کرافٹ کے نام پر ایسی ایسی چیزیں بنواتے ہیں
جو ایک پانچ، چھ سال کا بچہ کسی صورت نہیں بناسکتا
وہ : اور کتابوں میں موجود سبق جدید طریقہ تعلیم کے نام پر
اتنی سائنسی ہوشیاری سے ترتیب
دیے جاتے ہیں کہ ہر سبق میں کچھ نہ کچھ لکھنے کے لیے
کچھ صفحات لازمی رکھے جاتے ہیں
تاکہ اگلے سال وہ کتاب اس بچے کا کوئی چھوٹا بھائی یا بہن
یا کوئی مستحق بچہ دوبارہ استعمال نہ کرسکے اوروالدین
تمام کا تمام کورس نیا خریدنے پر مجبور ہوجائیں
میں : لگتا ہے تم نے اس مسئلے پر بڑی گہرائی سے غور کیا ہے
وہ : میرے بھائی ان اسکولوں نے پبلشنگ کے اپنے ادارے
تک بنا رکھے ہیں، کتابیں خود ہی چھاپتے ہیں خود ہی بیچتے ہیں
دبا کے کماتے ہیں، مزے سے کھاتے ہیں
میں : تو تم نے کبھی اسکول جا کر شکایت نہیں کی
اپنے بچوں کو کسی اوراسکول میں داخل کرادیتے
وہ : کون سے اسکول میں اگر تمھارے تجربے اورعلم میں
کوئی ایسا اسکول ہے جو یہ امتیازی خوبیاں موجود نہ ہوں
توبتاؤ
ایک بار گیا تھا اسکول کی پرنسپل اورایڈمنسٹریٹر کے ساتھ کئی
باتوں پر بحث بھی ہوئی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا
بس ان سے ایک بات کہہ کر چلاآیا
میں : وہ کیا
وہ : "اپنے بچوں کو اسکول میں پڑھانا میری سماجی مجبوری ہے
ورنہ ان کی تعلیم اورتربیت کے لیے میں اور میری شریک
حیات کافی ہیں۔ "
اور کبھی کبھی ایک خیال یہ بھی آتا ہے
کیوں نہ تعلیم کی ایک دُکان میں بھی کھول لوں
اور جن جن طریقوں اورحربوں سے مجھے لوٹا گیا ہے
سب کا بدلہ لے لوں
بقول شاعرؔ
آؤ اب کھولیں دُکاں تعلیم کی
بند کر ڈالیں زُباں تعلیم کی