1. ہوم
  2. کالمز
  3. سید تنزیل اشفاق
  4. تعلق یا دولت، فیصلہ آپ کا

تعلق یا دولت، فیصلہ آپ کا

آپ سے اگر سوال کیا جائے کہ آپ کے لیے کوئی بھی رشتہ، تعلق کتنا اہم ہے۔ کیا کسی بھی رشتہ کو بچانے لے لئے اگر آپ کو دولت قربان کرنا پڑے تو کریں گے؟

اس سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے کہ بعضوں کے نزدیک دولت کی اہمیت رشتہ اور تعلق سے ذیادہ ٹھھرتی ہے۔ جب بھی دولت اور رشتہ کو بچانے کے لئے انتخاب کرنا پڑے تو وہ دولت کا ہمیشہ انتخاب کرتے ہیں۔ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی بھی رشتہ رہے یا نہ رہے۔ ایسے افراد ہر چیز کو دولت سے اور دولت میں تولتے ہیں۔

میرے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں، جن میں سے ایک یہ کہ میرے علم میں ایک والد ہیں جنہوں نے ساری زندگی سرکاری نوکری کی۔ جب بھی تنخواہ آئی گھر آکے بیوی کے ہاتھوں پہ رکھی اور خود بے نیاز ہوگئے۔ پھر بیگم کی زندگی میں ہی ریٹائرڈ ہو گئے، اب ماہانہ پینشن جو آتی ڈاکیئے کی مانند بیوی کے ہاتھوں پہ رکھ دیتے۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بیوی کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہوگیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی کمائی سے گھر بنایا، پلاٹ لئے، آبائی زرعی زمین جو انکے نام تھی، اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں کے نام کر دی اور بیٹیوں کو کچھ نہ دیا۔ اب عالم یہ ہے کہ بیٹے ان کو پوچھتے ہی نہیں۔

یہ والد بھولپنے میں مارے گئے کہ میں نے کیا کرنے ہیں پیسے، جائداد ہیں تو اولاد کے۔ ستم بالا ستم یہ کہ اب جو ماہانہ پینشن ملتی ہے بینک میں آجاتی ہے جو کہ اس سے قبل ڈاک خانے آیا کرتی تھی، جو خود جاکے نکلوانا پڑتی۔ اب چونکہ بینک میں آتی ہے سو اے ٹی ایم کارڈ بن چکا ہے۔ یہ کارڈ اب بجائے کہ ان کے پاس ہوتا اولاد کے پاس ہے۔ جب بھی پینشن آتی ہے والد کے موبائل پہ فقط میسیج آتا ہے کہ اتنی پینشن آپ کے آکاؤنٹ میں آچکی ہے۔ اس سے کچھ ہی دیر بعد میسیج ملتا ہے آپ کے اکاؤنٹ سے اتنی رقم نکلوا لی گئی ہے اور اسکے بعد والد اپنے بوڑھے خالی ہاتھوں کو تکتے ہیں۔

اب یہ دو متضاد جزبے ہیں ایک طرف دولت کی چاہ اور دوسری طرف رشتہ کی چاہ۔ ایک طرف رشتہ کی چاہ میں دنیا کو بھلا بیٹھے حتیٰ کہ بیٹیوں کو بھی، جبکہ دوسری طرف اولاد والد کو بھلا بیٹھی یاد رکھا تو ماہانہ دولت اور بدلے میں کیا دیا؟ دو وقت کی روٹی، سال بعد دو جوڑے اور ڈھیر ساری جلی کٹی باتیں۔۔

کیا اولاد اس بات سے آگاہ نہیں کہ ہمارے والد نے اتنا کچھ ہمارے لئے کیا نہ کرتے تو کیا ہوتا۔ وہ اپنی زندگی میں ساری جائداد ہمارے نام لگاتے پھر بھی تو ہمیں ہی ملنی تھی، لیکن وہ تو اپنی زندگی میں سارا کچھ ہمیں دان کر بیٹھے، جبکے جانتے ہیں بہنوں کو حصہ نہیں ملا، اگر ملے تو انکے حصے کی جائداد میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی۔

کیا اولاد یہ بات بھول گئی کہ وہ بھی صاحبِ اولاد ہیں، انہوں نے بھی بوڑھا ہونا ہے، یہ بھی کہ وہ سرکاری ملازم نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن ملتی رہے۔ پرائیویٹ ملازمت ہے کہ جب تک کام کیا تنخواہ مل گئی وگرنہ گزارہ مشکل۔

والد نے تو جیسے تیسے گزارا کر لیا اور اب انتظار کی سولی پہ آخری ساعتیں ہیں، لیکن اولاد کو اس سے مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیا ہوگا کہ جب والد کی وفات کے بعد پینشن کا من و سلویٰ آنا بند ہو جائے گا؟ پھر پتہ چلے کا کتنے سیروں کا من ہوتا ہے۔۔

میرے نزدیک، کسی بھی رشتے اور تعلق کو پیسے سے تولا اور خریدا نہیں جاسکتا۔ رشتہ بچانے کے لئے دولت کو خرچنا پڑجائے تو بلکل نہ جھجھکئے کہ یہ پھر مل جائے گا لیکن اللہ کا عطاء کیا ہوا تعلق اور رشتہ نہیں مل پائے گا۔۔

اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔

سید تنزیل اشفاق

Syed Tanzeel Ashfaq

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔