1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. راجہ ظفرحسین مرحوم کی یاد گار اور اخبار والو کے اپنے پیدا کردہ مسائل

راجہ ظفرحسین مرحوم کی یاد گار اور اخبار والو کے اپنے پیدا کردہ مسائل

راجہ ظفر حسین مرحوم ایسے خوش قسمت انسانوں میں شمار ہوتے ہیں، جو زندگی کے آخری لمحے تک کسی پر بوجھ بننے بغیر جیتے رہے تو ان کی یاد ان کے جانے کے بعد یادگار کی صورت میں بچوں کی طرح پرورش کرتے ہوئے روزنامہ دومیل ہے۔ سرکاری ملازمت کے بعد اچھے وقتوں میں امتیاز اعوان اور شاہداعوان صاحبان کیساتھ روزنامہ خبریں کے ساتھ صحافت کا آغاز کیا اور محترمہ ظفر حجازی نے مظفرآباد سے روزنامہ محاسب کا اجراء کیا تو جناب ملک رشید مرحوم کے زیر ادارت رانا شبیر رجواری کے انتظام وانصرام میں بطور منیجنگ ایڈیٹر منسلک ہوگے، رانا شبیر راجوری کے دوسری ادارے میں جانے کے بعد جوائنٹ ایڈیٹر کے طور پر انتظام وانصرام کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے شبیر راجوری کی ٹیم میں راقم اور جہانگیر اعوان پہلے ہی روزنامہ اساس کے دور سے شامل تھے اور یہاں تک کا سفر ساتھ ہی رہا مگر سیاست کی طرح صحافت کا سفر بھی غلاظتوں میں پڑے بغیر بڑا کٹھن اور دشوار ہوتا ہے راجہ ظفر بھی ایسے ہی افراد میں شامل تھے اور ہماری حوصلہ افزائی کرنے والوں میں شامل رہے ایسا نہیں تھا کہ ان میں کمزوریاں خامیاں نہیں تھیں گھر اور دفتر سمیت ہر جگہ اکٹھے اُٹھنے بیٹھنے والوں کے مابین اختلاف اور تلخی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اگر دوستوں کے درمیان کبھی ناراضی نہ ہوتو اس کا مطلب ہے رشتہ دل سے نہیں دماغ سے نبھایا جارہا ہے اور حضرت بلھے شاہ فرماتے ہیں جس کے بہت سجن ہوں وہ کسی کا سجن نہیں ہوتا، اس درخشاں حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں راجہ ظفرمرحوم کے سجن بھی کم تھے اور وہ دل سے تعلق رکھنے والوں لوگوں میں شامل تھے جس طرح ہر انسان کو اپنا گھر بنانے کا فطرتی جذبہ ہوتا ہے اسی طرح ان کو اخباری دنیا میں اپنا اخبار لانے کا شوق تھا جو روزنامہ دومیل کی شکل میں پورا کرگے۔ میرے لیے ایسے تعلق والوں میں شامل ہیں جب بھی اپنے خون کے رشتے سے پیاروں اور دوستوں کے لیے رب العزت کی بارگاہ میں ان کی مغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھتا ہوں تو ظفرحسین بھی ایساناموں میں شامل ہیں جن کا نام خودبخود زبان پر آجاتا ہے ان کے بعد ان کے حقیقی بھائی راجہ امجد حسین نے ان کی یاد گار روزنامہ دومیل کو زندہ جاوید اں رکھا ہوا ہے جن کا شکر گزار ہوں راجہ ظفرمرحوم کی برسی کے حوالے سے یاد کرادیا توان کی یاد گاردومیل اخبار اور مالکان اخبار سمیت پرنٹ میڈیا کے ایشوز کے اصل مسلے پہ بات کرنا یقیناًمناسب ہوگا اور وہ یہ کہ اخبار ظفرحسین مرحوم کیطرح علاقے کے مسائل مشکلات کو اُجاگر کرتے ہوئے ان کے لیے آوازبنیں اور پھر اپنی ہمت بساط تجربے پر انحصار کرتے ہوئے اخبار شروع کرنا تو اچھی بات ہے مگر اپنے کاروبار کو تحفظ دینے بڑھانے یا پھر گمنامی میں نام پیدا کرنے اور کھڑپینچی کے لیے صرف اطلاعات کے اشتہار ات پر چلانا صحافت اور صحافیوں سمیت سماج سے بھی دشمنی ہے جو بدقسمتی سے بڑھتی جارہی ہے، ہر دو چار ماہ بعد مالکان کی تنظیمیں حکومت کیخلاف احتجاج کے ڈھول بجا دیتی ہیں مگر خود اصل مرض کے علاج پر غور کرنے سے کتراتی ہیں، اول صرف ووٹ کیلئے ان کو ممبر بنایا ہوا ہے جو صاحبان خودایک صفحہ خبردور کی بات بیان بھی سیدھا نہیں لکھ سکتے ہیں اور پھر وہ اخبار جو صرف اشتہارات کے لیے شائع ہوتے ہیں ان کی فہرست میں شامل ہیں تو محکمہ اطلاعات کی میڈیا لسٹ میں وہ سارے اخبار قومی سطح کے ملک گیر، انگریزی، اردواخبار وں کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ ریجنل یا علاقے کی سطح پہ ایسے اخبار جو یہاں صرف اشتہار کیلئے آتے ہیں ان کی کاپیاں اطلاعات انتظامیہ وغیرہ سمیت ڈیکلریشن اشتہارسے متعلقہ دفاتر میں مفت جاتی ہیں یا پھر پریس کلبوں میں ہوتی ہیں مگر کیوں کہ یہ تنظیموں کے ممبر ہیں ان کی وجہ سے وہ سب اخبار جو آزادکشمیر میں پڑھے جاتے ہیں باقاعدہ لوگ خود خرید کرتے ہیں باضابط سٹاف نیٹ ورک ہے ان کا حق مارا جاتا ہے۔ مگر اس مرض کو میڈیا لسٹ سے خارج کرانے اور ووٹ کے نام پر بلیک میلنگ سے نجات کے بجائے ترقیاتی فنڈز اور پیپرا کا بے مقصد شور لگایا ہوتا ہے جو ندامت کے سوا کچھ نہ ہے۔ پہلے نارمل کے بعد ترقیاتی مد کے فنڈز سے بذریعہ اطلاعات کا اقدام نہ صرف حقیقی رپورٹرز صحافیوں کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنے کا اسباب ثابت ہورہا ہے بلکہ مالکان کا خود بہت بڑا نقصان ہوچکا ہے اور ہورہا ہے تو حکومت اور سرکاری اداروں کو بھی نقصان ہی ہواہے قومی ایام اور منصوبہ جات کے سنگ بنیاد افتتاح پر کارکردگی ان کے مقاصد عوامی فوائد کے لیے رپورٹرز کے زریعے محکمے اشتہاراور رپورٹس شائع کرواتے تھے تو سب کا بھلاہوتا تھا۔ اس لیے مزید بے مقصد بے عمل باتوں کے بجائے ماسوائے نارمل کے باقی تشہیری اختیار محکموں کو خود حاصل ہونا چاہیے جو بحال کروائیں اور مزید ظلم سے بچیں یہی وہی سوچ تھی جسے سامنے رکھتے ہوئے کارکنوں کی اہمیت وبھلائی کے نقطہ نظر سے راجہ ظفرحسین مرحوم نے اپنا اخبار شروع کیا تھا اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اُمید ہے فاروق حیدر کابینہ سرکاری مشینری اور خود مالکان نیز صحافتی قیادت ٹھنڈے دل سے سوچے گی اگر عدالت گُنے چُنے وکلاء کے علاوہ باقی سب کو حکم امتناعی دینا چھوڑ دے تو کیا ہوگا۔ باوقار انداز میں سب کا چولہا جلنے دیں تو رب آسانی عطا فرمائے گا۔ راجہ ظفرحسین مرحوم نے اپنے جیسے مزدور اور اہلیت پیشہ باعمل کارکنوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے اخبار کا سفر شروع کیا تھا نہ کہ مزید غلام بنانے کیلئے جدوجہد کی تھی۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ باوقار اور باعمل حقیقت کااعتراف کیا جائے۔