1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. لہو میں نچڑی لاشیں اور ڈاکے کا منظم ترین قانونی انداز!

لہو میں نچڑی لاشیں اور ڈاکے کا منظم ترین قانونی انداز!

سیاسی افق پر غیریقینی کے گہرے بادل منڈلارہے ہیںاور عین اسی دوران ہمیں پاکستان کے دل لاہور سے، لہو میں بھیگے اور کٹے پھٹے 26 لاشے اٹھانے پڑرہے ہیں۔ یہ دھماکہ خود کش بمبار نے کیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھاکہ قریب ہی واقع ارفع کریم ٹاور کے درو دیوار لرز اٹھے اور اس کی کھڑکیوں کے شیشوں میں دراڑیں آگئیں۔ مقتولین کے علاوہ58 سے زائد زخمی ہوئے۔ عمارتوں کو پہنچنے والانقصان اورقوم کی نفسیات میں پڑنے والی خونی خراشیں ا س پر مستزاد ہیں۔ سفاک دہشت گردی وہ ڈراؤنی چڑیل ہے، جیتی جاگتی اور کودتی پھاندتی زندگی کوجو پل بھرمیں جلا کرراکھ کر ڈالتی ہے۔ تھوڑی دیرپہلے ارفع کریم ٹاور کے پہلو میں واقع اس متروک سبزی منڈی کے پاس زندگی پوری طرح سانس لے رہی تھی۔ بارود پھٹا تو خود کش بمبار کے ساتھ ساتھ ارد گرد موجود انسانوں کے بھی فضا میں چیتھڑے اڑگئے۔ لمحے بھرمیں، ہنستی مسکراتی زندگی کی یہاں وہاں لاشیں بکھری پڑی تھی۔ ان لاشوں کو اٹھایا گیاتو سرخ لہو ان سے نچڑ رہا تھا اورانسانی اعضاء اور ناتراشیدہ انسانی بوٹیاں آندھی کی زد میں آئے روئی کے گالوں کی طرح زمیں سے چمٹی پڑی تھیں۔ دھماکے سے پہلے یہاں سے ناجائز تجاوزات ہٹائے جانے کا عمل جاری تھا، جس کی معاونت کے لئے پولیس کی زیادہ تعداد موجود تھی۔ اس حملے میں بنیادی طورپر پولیس ہی کو ہدف بنایا گیا۔ چنانچہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذمے داری ادا کرتے 9 پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔ وقتی طور پر یہاں موجود پولیس پر اس قدر تیزی اور آسانی سے ہونے والے حملے سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کہ ہماری توقعات کے برعکس ابھی بھی دہشت گردکس قدر باخبر اور متحرک ہیں۔ خوش قسمتی سے دہشت گردی کی منحوس خبروں سے کچھ دیر سے ہماری سماعتیںمحفوظ رہی تھیں۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ہمیں زندگی کے اس قدر داؤ پر لگے ہونے کااحساس دلاکر ہماری سماعتیں مخدوش کردی ہیں۔ یہ سفاک سانحہ عین اس وقت پیش آیا، جب دوسری طرف ہمارے وزیرِ داخلہ اپنی ذمے داری کے حوالے سے گو مگوکی کیفیت میں تھے اورلوگ سمجھتے تھے کہ شاید وہ اپنی وزارت چھوڑنے کے بارے میں اہم پریس کانفرنس کے درپے تھے۔ باوجود علالت کے وہ آئے تھے مگر اس خونی سانحہ کی خبر سن کر بولے بغیر لوٹ گئے۔ اس صورتحال میں دو باتیں یہاں ہمیں مزید پریشان کرتی ہیں۔ نمبرایک وجوہات کچھ بھی ہوں، جس لمحے اچانک یہاں درجنوں انسان بے رحم موت کے سفر پرروانہ ہوگئے، عین اس وقت ہمارے وزیر داخلہ اپنی قومی ذمے داریوں کے بارے میں قطعی کنفیوزاورغیرمتعلق کیفیت میںمبتلا تھے۔ ظاہر ہے ایسے میں کوئی اس طرح کے حالات سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کیسے لڑ سکتاہے؟ یقینا ایسے میں جنگ جیتنااورزندگیاں بچاناکچھ اور مشکل ہو جاتاہے۔ نمبردو، اہم ترین ملکی و سیاسی حالات میں بھی میاں صاحب کااپنے اہم ساتھیوں کو مطمئن کرنے میںناکام رہنا، ان کے اسلوبِ حکمرانی پر ہمارے اطمینان کو بھی متاثر کر دیتاہے۔ چودھری نثار میاں صاحب کے بعد سینئر ترین مسلم لیگی ہیں۔ دیانت دار، بے دھڑک، خوشامد سے نفور اور مسلم لیگ کے پالیسی میکر ز میں ان کا شمارہوتاہے۔ میاں صاحب سے انھیں دو طرح کی ناراضی ہے۔ اولاًا ن کے ناپسندیدہ اور جونیئر لوگوں کو ان پر ترجیح دی گئی اور ثانیا بچوں اور نوواردوں کے نرغے میں آکر پانامہ کیس پر ان کے تمام مشوروں کوقطعی نظرانداز کر دیاگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج میاں نواز شریف ہی نہیں، پوری مسلم لیگ دیوار سے لگی مخالفوں کی ہنسی کا ہدف بن چکی ہے۔ جب حالات یہ ہوں توپھر ادھرادھر بکھری لاشیں خود پکار اٹھتی ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ افسوس معاملے کو اس کی اپنی بنت میں دیکھے بغیر محض یہ کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت، جمہور یعنی عوام کے جان و مال کے تحفظ، ان کی شخصی آزادی اور آزادیٔ اظہار کا نام ہوتاہے، ایک ایسا نظامِ حکمرانی جہاں حکمران عوام اور عوامی اداروں کے

ہاں جواب دہ ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران کتنے جواب دہ ہیں ؟ آپ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو کچھ دیر کے لئے بھول بھی جائیے توکوئی حرج نہیں کہ سندھ اسمبلی نے اس حوالے سے جو تازہ ترین حرکت فرمائی ہے، اس سورج کے سامنے تویہ رپورٹ ویسے ہی گہنا جاتی ہے۔ قومیں اپنے معاملات کے بخوبی حساب اورذمہ دارانہ احتساب سے آگے بڑھتی ہیں اورپارلیمنٹ انھی چیزوں کے تحفظ کا ادارہ ہوتاہے۔ اس پر مگر آپ کا جو جی چاہے کر لیجئے، جتنا چاہے سر پیٹ لیجئے کہ سندھ اسمبلی نے تازہ ترین بل یہ پاس کر لیا ہے کہ اب قومی محتسب ادارہ نیب ان کے سابقہ یا آئندہ کرپشن کے مقدمات کی تحقیق ہی نہیں کر سکے گا۔ پھر یہ کہ سندھ پولیس بھی ان کے معاملات میں بے بس کی جارہی ہے۔ دکھ سے آدمی سوچتا ہے یا خدایہ انسان ہیں یا لٹیرے؟ یہ خیرکے نمائندے ہیںیا شر کے؟ یہ عوامی ترجمان ہیں یا سندھ کے جنگلوں میں پھیلے ڈاکوؤں کے؟ کیا اب پارلیمنٹ جیسے معتبراور محترم ادارے عدل و انصاف کے قتل، احتساب کی دشمنی اورلٹیروں کے تحفظ پر مبنی قوانین تراشنے ہی کے لئے باقی رہ گئے ہیں؟کیا اب عوامی روپے کا یہی بہترین استعمال ہے کہ اسے لوٹ کر بے نامی جائیدادیں بنالی جائیں اور قانون بنا دئیے جائیں کہ لوٹنے والوں پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی؟ یعنی قانون صرف اسمبلی سے باہر اور چھوٹے ڈاکوؤں کے لئے ہونا چاہئے ؟ اس عظیم کارنامے کی انجام دہی میں آپ سندھ اسمبلی کی یکسوئی، کمٹمنٹ اورپھرتی بھی ذرا دیکھئے کہ جب سندھ کے گورنر زبیرنے قومی غیرت اور انسانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ مسودہ ٔ قانون واپس بھیج دیاتوپیارے عوامی نمائندگان نے اسے دوبارہ سے پاس فرمالیا۔ اب اگرکسی طرح سے عالمی سطح کے اس سب سے بڑے منظم اور قانونی ڈاکے کو روکا نہیں جاتا تو دس سال کے لئے یہ مسودہ قانون بن جائے گااورآئندہ بھی یہ محض ایک نوٹس کے ذریعے سے دوبارہ کارآمد ہو جایا کرے گا۔ تو جناب یہ ہیں آپ کے وہ نمائندے جو جمہوریت خطرے میں بتاتے ہیں۔ یہ شاطر کبھی سچ نہیں بتاتے کہ دراصل جمہوریت کو ان سے خطرہ ہے۔ آپ حکمرانوں سے پوچھئے کہ کیا احتساب کے بغیر بھی جمہوریت کے کچھ معنی ہوتے ہیں؟ پھرآپ حکمرانوں کی احتساب پسندی کا اندازہ ان کے اُن بیانات سے لگا لیجئے، جو پانامہ کیس کی جواب دہی کے بعد یہ لوگ دیتے رہے ہیں۔ میاں صاحب ہی نہیں، احتساب یہاں جمہورکے کسی بھی نمائندے کو پسند نہیں۔ عمران کا معاملہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ پوری منی ٹریل دینے میں وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس پر ذمے دار ی مگر کم ہے کہ اس نے عوامی عہدے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور نواز شریف تیسری دفعہ اقتدار میں ہیں۔ بات بڑی واضح ہے، احتساب کا بے لاگ نظام جب تک لاگونہیںہو جاتا، جمہوریت کوکسی اورسے نہیں خود جمہور کے نمائندوں سے خطرہ ہے۔ یہ طے ہے البتہ جب تک یہ لوگ اجتماعی احتساب پر آمادہ نہیں ہو جاتے، کیا’’جمہوریت خطرے میں ہے‘‘جیسے بے معنی بیانات دے کر ہمیں بے وقوف بنانے سے احتراز نہیں فرما سکتے؟