1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. مسئلہ ٔ یروشلم :کیا عرب عربی بھول گئے؟

مسئلہ ٔ یروشلم :کیا عرب عربی بھول گئے؟

وہ جو کسی نے کہا تھا ؎

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

بائبل کے یروشلم کا مسئلہ دراصل وہ مسئلہ نہیں، جسے ہم نے مسئلہ ٔ فلسطین کا نام دے کے طاقِ نسیاں کر دیا اور اب تو شاید ہم اس سے جان چھڑانے پر بھی اجماع فرما چکے۔ دراصل فقہ میں ایک اجماع سکوتی بھی ہوتا ہے۔ بولے بغیر، چپ رہ کر جس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے کہ ہم اسے اپنے مسئلہ ٔکشمیر جیسا یا عربوں کا کوئی علاقائی مسئلہ سمجھ کے سو رہیں۔ جو ہمیں بہت آتا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو اس سے زیادہ لاعلمی اور سادہ دلی کا کوئی اور ثبوت ہو ہی نہیں سکتا۔ پچھلے چند دنوں میں جتنا غور اور جتنا مطالعہ یہ عاجز کر سکا۔ وہ ہوش اڑا دینے کا پورا ساماں اور طلسمی تاثیر والا کوئی الگ ہی جہان ہے۔ چودہ کیا، مزید طبق بھی اس نے روشن کر ڈالے، اگر واقعی کچھ مزید طبق ہوتے ہیں تو۔ ویسے یہ باتیں آج نہیں کرنا ہیں، آج تو بس ذہنوں کو ذرا سا گد گدانا ہے۔ وہ آپ کھانے سے پہلے سٹارٹر منگواتے ہیں نا ؟ تو آج کی بات کو یہی سمجھئے۔

آپ اگر بیت المقدس نامی اس خطے پر ذرا سا بھی غور فرما سکیں تو بھائی صاحب! تین براعظموں کی بغل میں رب نے یہ جو ایک مبارک خطہ بٹھا اور بچھا رکھا ہے نا، یہ کوئی عجیب ہی خطہ ہے، بہت عجیب! دیکھئے، ایک تو یہاں ہر قابلِ ذکر شخصیت کو آنا ہی پڑا۔ مثلاً ابراہیم علیہ السلا م سے لے کر پیارے مصطفٰےؐ تک وہ کون سا پیغمبر ہے جو یہاں تشریف نہیں لایا؟ پہلے نہیں تو کم از کم معراج کی رات۔ یہ تو ہوئی فضیلت، اگرچہ فضائل کی یہاں اک دنیا آباد ہے، مادی بھی اور معنوی بھی۔ مثلاً قرآن نے اس سر زمیں کو بابرکت کہا اور اس کی قسم کھائی تو کیا اتنا بھی کافی نہیں؟ قدیم کتاب میں لکھا ہے کہ یہاں کے باسیوں کیلئے پانی کے کسی منظم نظام کی ضرورت نہ تھی، کہ کھیتیوں اور زیتونوں کو شب کی شبنم ہی شفا ہو جاتی۔ یاحیرت! تازہ کتاب میں بھی یہی لکھا ہے کہ آج بھی اقصیٰ کے نمازی بارش کے پانی سے بھرے حوضوں سے وضو کرتے ہیں اور وضو کو پانی کبھی کم نہیں پڑتا۔ لیکن آج مجھے دوسری بات کرنا ہے کہ جناب یہ بابرکت خطہ اور یہ سر زمینِ انبیائے بنی اسرائیل دراصل فرزندانِ اسمٰعیل کے لیے ایک اور طرح کا خدائی بندوبست بھی ہے۔ ایسا کہ تم قدس سے جان چھڑانا بھی چاہو تو چھڑا نہ سکو، بھولنا بھی چاہو تواسے بھلا نہ سکو۔ یہاں سے جا بھی چکو تو جا نہ سکو۔ جناب ! قدس تو تمھاری خواب گاہوں میں، تمھارے خوابوں میں اور تمھارے خیالوں میں جگماتی رہے گی۔

یہود کا مسئلہ؟ نہیں، نہ یہ محض یہود کا مسئلہ ہے، نہ یہ صرف صلیب کا مسئلہ ہے اور نہ یہ کسی نسل پرستی کی انا اور عناد کا مسئلہ ہے۔ بھائی صاحب! کہا نا کہ یہ مسئلہ توخدا کے کسی دوسرے ہی بندوبست کی اک کڑی ہے، وہی بندوبست جو بدر میں خدا نے برپا کر دکھایا تھا۔ بدر میں مسلمان ابوجہل سے ٹکرانے کب نکلے تھے، قرآن صاف بتاتا ہے، مسلمان تو ان کی معاش کا گلا کاٹنے، ان کے تجارتی قافلے پر یلغار کرنے نکلے تھے۔ مگر جناب! خدا یہ چاہتا تھا کہ اب جو جیئے دلیل پر جیئے اورجو مر رہے، وہ بھی دلیل پر۔ سنو! فلسطین بھی تمھارے لئے کچھ ایسا ہی بندوبست ہے۔

دیکھئے، تمھیں بیت اللہ مل گیا، رسولِ اقدس نے خدا سے مانگ کے مدینہ بھی حرم کروا لیا۔ تو گویا تم خوش تھے کہ دور عرب کے صحرا میں حج وعمرہ کرو گے، روضے پر حاضریاں بھرو گے اور عالمی معاملات سے کٹ کے موج مستی کرو گے اور فرزندانِ صلیب و یہود تم سے کوئی تعرض نہ کریں گے؟ تو دیکھ لو کہ رب نے عین معراج کی رات براق کا رخ بیت المقدس کی طرف پھیر دیا کہ لو بھاگ کے دکھاؤ، اگر بھاگ سکو؟چھڑاؤ جان، اگر چھڑا سکو؟ یہ جدھر براق مڑ گیا، معلوم ہے نا، یہاں کس کس کا میدان جمے گا؟ تین تین دعوے داروں کے قوی ہیکل دعوے یہاں ٹکرائیں گے۔ اجی !سمجھ میں آیا کچھ یہ بندوبست؟ جی ہاں! اب کوئی کسی کونے میں عزلت اور عزت کی زندگی نہیں جی سکتا۔ عزت اور سیادت سے جینے کی نوید اور کلید اب اسی میدان سے ابلے گی۔ پھر کوئی بھلا کیسے یہاں سے نظر چرا سکے گا؟ یہود کا یہ تعلق تو خیر ٹھیک تھا کہ یہ ان کے انبیا کی سر زمین ہے، جو ان سے زیادہ ہمارے بھی ہیں، وہ باؤلے مگر اب یہاں کوئی ہیکلِ سلیمانی بھی ڈھونڈتے ہیں، جو قیامت تک انھیں نہیں ملنے والا، کہ یہاں کبھی کوئی ہیکل تھا ہی نہیں، ہاں خود تراش لیں تو اور بات۔ عیسائیوں کو اس سر زمیں سے یہ نسبت کہ جنابِ عیسیٰ یہیں کی ایک بستی ناصرہ میں بیت اللحم کے مقام پر پیدا ہوئے اور یہود کی سازشوں سے رومیوں کے ہاتھوں یہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچے اور تمھارا تو خیر یہ قبلہ اول بھی ہے۔ ویسے کیا خیال ہے کہ ایوبی کے مقابل یہ جو پورا یورپ مل کے چڑھ دوڑتا تھا تو انھیں جرمنی، فرانس، انگلینڈ میں رہنے کو کوئی جگہ نہ ملتی تھی؟ کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ ان جنگوں نے پورے یورپ کے انسان بانجھ اور وسائل بنجر کر ڈالے؟ پھر بھی وہ کیوں آ دھمکتے؟ تو کیا اب یہود کو زمانے میں جینے کی کوئی جگہ نہیں ملتی ؟ نہیں جناب! وہ لائے جاتے تھے، یہ بھی لائے جاتے رہیں گے۔

اور دیکھو، تم نے کس لاپروائی اور سنگ دلی سے خدا کی ارضِ مقدس کے باسیوں کو چھوڑ دیا، سنو، خدا مگر انھیں نہ چھوڑے گا، اور بخدا ! خدا تمھیں بھی نہ چھوڑے گا۔ یہ جو تم نے ڈھونگ رچا رکھا ہے نا کہ اول تو نماز پڑھتے ہی کہاں ہو، پھر اگر پڑھتے بھی ہو تو نری خد اسے آنکھ مچولی کھیلنے کی کوشش۔ دہراتے ہو، ’ غیرالمغضوب ِ علیہم والضالین‘ یعنی، خدایا! ہمیں یہودِ مغضوب اورگمراہ نصاریٰ کی راہ پر نہ چلانا، عملاً مگر تم ہر معاملے میں انھی کے قبلہ نما حضرت ٹرمپ کی تراشی راہوں پر چلتے نہیں، دوڑتے ہو، اچھا چلو تم تو ناظرہ خواں ہو، ترجمے اور تفہیم ِ قرآن سے نا بلد، مگر کیا عربوں کو بھی عربی بھول گئی؟ یا شاید یہی ہے شہزادے محمد بن سلطان کا معتدل اسلام! بہرحال، اے فرزندان ِ کعبہ کے برخود غلط حکمرانو! تم خوش ہو کہ لکیروں میں بٹی چند بے اثر ریاستوں کی جعلی سرداریاں اور اک معمولی عیش بچا گئے، تم مگر نہیں جانتے کہ اِدھر سے رخ پھیرنے والوں کا رب منہ ہی موڑ دیتا ہے۔ یہ حضرت موسیٰ تھے، جن کی قوم کو حکم ہوا، ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ۔ قوم نے کہا، حضرت! ہم تو معتدل اسلام والے ہیں، تم اور تمھارا خدا ہی جا کے ان سرکشوں سے لڑو۔ تب یہ ہوا کہ چالیس سال انھیں مصری کنارے آباد میدان ِسینا میں بھٹکتے پھرنا پڑا۔ جانتے ہو، چالیس سال کیوں؟ اس لئے کہ جن بالغ زبانوں سے انکار پھوٹا تھا، جب تک وہ پرلوک نہیں سدھار گئیں، ان کے بچوں کو بھی ارض ِ مقدس کی راہ نہ ملی۔ تو ارضِ مقدس سے انکار کی سزا یوں ملا کرتی ہے۔ سو اے رخ موڑنے والو! جانو کہ ارضِ مقدس کی راہ ہی دراصل زندگی کی راہ ہے۔ یہی تفوق کی، ترقی کی اور بقا کی راہ ہے۔ خدا کے برگزیدہ بندوں اور پیغمبروں کی راہ ہے۔ مجاہدوں کی راہ ہے۔ اے شاہانِ عرب اور اے مریدانِ عجم ! کیا تم بھول گئے کہ یہی راہ معراج کی اور محمدِ مصطفے ؐ کی راہ ہے۔

بہرحال آج اتنا ہی کہ جو ہم آپ سلجھانے نکلے، وہ نہیں، یہ مسئلہ کوئی اور ہے۔ وہ جو کسی نے کہا تھا؎

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے