خیرہ کن یہ عشقِ مصطفیٰؐ ہے، تا ابد جسے کائنات پر حکمراں رہنا ہے۔ دلوں پر بھی حکمران اور اہلِ محبت کے ہر رگ و ریشے پر بھی بلا شرکتِ غیرے سلطان!
صلح حدیبیہ کے ہنگام، قریشیوں کے مذاکرات کار، یہ عروہ بن مسعود ثقفی تھے، عرب عادت کے مطابق جنھوں نے دورانِ گفتگو رحمت اللعالمٰین کی ریش مبارک کو ہاتھ میں لینا چاہا تو تلوار کی نوک سے اس کا ہاتھ پرے جھٹک دیا گیا۔ ششدر عروہ نے یہ عمل گوارا کیا اور دنگ ہو کے پوچھا، مدینے کے یتیم پر ایسا وارفتہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا، بوڑھے ابو قحافہ کا بیٹا، ابو بکرصدیقؓ۔ وہ چپ ہو رہا۔ ابو قحافہ ایمان لائے تو ابو بکر ؓ انھیں دربار رسالت میں لائے، سرکار نے فرمایا، بزرگوں کو یہاں آنے کی تکلیف کیوں دی گئی، بتا دیا ہوتا، ہم خود ابو قحافہ کے پاس جاتے۔ ابو قحافہ کے بال سفید ہوگئے تھے اور سرکار نے انھیں رنگنے کا مشورہ دیا۔ دل ان کے بیٹے کا مدینہ کے درِیتیم پر کچھ ایسا ہی شیدا اور فریفتہ تھا۔ عروہ کوئی عام آدمی نہ تھا۔ عروہ کی آنکھوں نے وقت کی عظیم طاقتوں قیصر و کسریٰ کے کر و فر دیکھ رکھے تھے، مرعوب ہونا اسے نہ آتا تھا۔ مدینہ کے اہلِ محبت نے مگر اسے ہلا کے رکھ دیا۔ پلٹ کے قریشیوں کو اس نے بتایا، ایسی تعظیم کسی بادشاہ کی بھی نہیں دیکھی گئی۔ وضو کیا ہوا پانی تک اپنے نبی کاوہ زمیں پر گرنے نہیں دیتے، آنکھ بھر کے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔ پورا جسم وہ ان کی بات سننے پر لگا دیتے ہیں۔ ان کے کہے کی جان دے کر بھی وہ تعمیل کرتے ہیں۔
سیدنا خبیب ؓ پکڑ لیے گئے۔ کئی دن قید رکھا گیا۔ پھر ایک دن سولی پر چڑھانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ بدر کے زخم ابھی ان سورماؤں کے تازہ تھے۔ کوئی بزدلی سی بزدلی تھی۔ اس ایک شخص کے ذریعے سے وہ اپنی شکست کے سارے بدلے چکا دینے اور اپنی خفت کے سارے دھبے مٹا دینے کی راہ ڈھونڈتے تھے۔ اذیت میں جدت انھوں نے ایجاد کی۔ مظلومیت کا تماشا دیکھنے چھوٹے بڑے سبھی گھروں سے باہر امڈ پڑے۔ ایک مظلوم کی موت کو انھوں نے جشن میں بدل دیا۔ اجازت لے کر مختصر دو رکعت نماز سیدنا خبیبؓ نے پڑھی۔ مبادا وہ سمجھیں موت کے خوف اور زندگی کی چاہ میں محبت کے مجاہد نے نماز دراز کر دی۔ مقتل کو چومتی خبیبؓ کی یہی طرزِ دلربا، ایسے موقعوں کے لیے بعدا زاں اہلِ محبت کی ادا ٹھہری۔ پھانسی نہیں، سیدنا خبیبؓ کو سولی چڑھایا جانا تھا۔ پھانسی اور سولی میں اک فرق ہے۔ سولی کے مقابلے میں پھانسی تو گویا زندگی ہے۔ زندہ جسم کو کھجور کے تنے سے وہ کیل ٹھونک کے گاڑ دیتے۔ لہو بہتا اور پرندے زندہ جسم نوچ کھاتے۔ اذیت ایسی کہ سوائے محبت کے کوئی سہہ نہ سکے۔ اس پس منظر میں فدا امی و ابی محمدؐ عربی کے محب خبیبؓ کھڑے مسکراتے تھے۔ انھیں اچنبھا ہوا۔ کسی نے پوچھا، دل کے ساحل سے اب تو اس خیال کا طوفان ٹکراتا ہو گا کہ تمھاری جگہ تمھارے محبوب ہوتے۔ تڑپ کے محبت لہرائی اور پکار کے سیدنا خبیبؓ نے کہا، یہ خیال بھی تمھیں کیسے آیا، میرے دل کو تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ محبت کے پاؤں میں کانٹے کی نوک بھی چبھ جائے۔
محبت کے اس معجزے کو لوگ بھلا دیتے ہیں۔ بھلا دینے سے کوئی چیز مگر کبھی گم نہیں ہوتی۔
شامی لشکر نے کسریٰ کو شکست دی۔ ہرقلِ روم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اظہارِ تشکر کیلئے وہ پیدل چل کر خدا کے گھر ایلیا آیا۔ یہ صلح حدیبیہ کا پر امن دور تھا۔ ایلچی اللہ کے رسول کے مکتوباتِ گرامی تھامے شاہان ِ وقت کے درباروں کا رخ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی خدا قبر منور فرمائے۔ مکتوباتِ نبوی کے مسودے انھوں نے کھوج نکالے۔ ایسا ہی ایک ایلچی ہرقل کے دربار میں پہنچا۔ ہرقل محض سلطنتِ روما کا فہیم شاہ ہی نہ تھا، انجیلِ مقدس کا وہ شاندار عالم بھی تھا۔ اپنے نام مکتوب ِ گرامی اس نے پڑھا۔ رگ و ریشے میں اس کے تجسس کا طوفان کروٹیں لینے لگا۔ احوال جاننے کیلئے مکتوب نگار کو ذاتی طور پر جاننے والے کسی شخص کی تلاش ہوئی۔ اتفاق یہ کہ ابو سفیان کی قیادت میں قریشی سردار وں کے تجارتی قافلے نے یہیں پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔ ابو سفیان کو دربار میں لایا گیا۔ طویل مکالمہ ہوا۔ بادشاہ پوچھتا، ابوسفیان بتاتے اور ترجمان ہرقل کے لیے عبرانی اور ابو سفیان کے لئے عربی میں ترجمہ کر دیتا۔ ہر بات پر ہرقل ایک جچا تلا تبصرہ بھی کرتا جاتا۔ قصہ کچھ طویل۔ القصہ، سوال جواب ہو چکے تو بھرے دربار میں ہرقل نے کہا، جو تم نے بتایا ابو سفیان! اگر وہ سچ ہے تو میرے قدموں تلے بچھی زمیں بھی اس کی ہو کے رہے گی۔ یہ ہوا بھی۔ 16 ہجری، دورِ فاروقی میں شام کا وہی دارالخلافہ حمص محمدِ عربی ؐ کے نام لیواؤ ں کے قدموں تلے مفتوح پڑا تھا۔ تاریخ کے اس اہم ترین لمحے، ہرقل نے یہ بھی کہا، اگر اپنے دربار سے اس دربار تک پہنچ پاؤں تو میں اس نبی کے پاؤں دھویا کروں۔
یہ تین مناظر آشکار کرتے ہیں کہ محبتِ رسول خدا کا رسولِ رحمت کو عطا کردہ اک لازوال معجزہ ہے۔ انسان بدل گئے اور زمانے گزر گئے، اس محبت کی تابندگی مگر آج بھی خیرہ کن ہے۔ اس کی درخشندگی میں کوئی ماندگی نہیں آئی، آج نہ کل۔ اس پر کچھ اثر انداز نہیں ہو سکا، ماضی نہ مستقبل۔ یہ کسی ایک مسلک کی میراث بھی نہیں۔ دنیا کی کوئی سائنس، کوئی منطق اسے ثابت نہیں کر سکی، عرب کے یتیم کی محبت مگر ہر آن جلوہ گر ہو کر اپنا ظہور کرتی ہے۔ سچ جھوٹ، جذباتیت، سطحی فہم کی باتیں بھی ٹھیک ہی ہوں گی۔ اس اکیلے نام ہی میں مگر کوئی طلسم اور تاثیر جدا بھی ہے۔ ختم ِ نبوت کے حوالے سے ایک خبر آئی۔ بات ہوئی اور ہوتی رہی۔ کسی نے کہا، غلط، کسی نے کہا، فہم کا قصور۔ کسی نے کہا لفظ بدلے تو مطلب بھی بدل گیا، کسی نے کہا، نہیں۔ میں ٹھہرا خوش فہم، سبھی نیک نیت میرے نزدیک محترم۔ بظاہر جب سب تمام ہو چکا تو پھر مگر ایک شخص اٹھا۔ اسکے متعلق غلط صحیح کی باتیں بھی درست۔ کسی کے آگے پیچھے ہونے کی گفتگوئیں بھی موجود۔ اس کی گالیاں بھی قابلِ گرفت۔ اس کے ارادے بھی خد ا معلوم۔ ایک بات مگر اس نے ثابت کر دی۔ یہ جو نام ہے نا، اسم ِ محمد ؐ! اس میں تاثیر اور کشش بہت ہے۔ کوئی لبرل اسے گھٹا سکا، نہ مغرب اس کی طغیانی پر قابو پا سکا۔ لہلہاتی یہ کھیتی کسی سے کاٹی نہ جا سکی۔ کسی دستِ قاتل سے یہ چراغ بجھایا نہ جا سکا۔ چہروں پر انسانیت کے نقاب چڑھائے سب سے بڑے انسان کی عظمت سے لرزاں ایجنڈے پر کاربند لوگ کیا دیکھ نہیں لیتے کہ سارے مسلک الگ تھے اور خود اس گالی نوا ز کا اپنا مسلک بھی گریزاں، اس ایک نام پر مگر پھر بھی کتنے لوگ نکل آئے۔ باقی سب بھی بجا مگر، میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ مغرب کے کروڑوں ضائع گئے، مدینے والے کی محبت کا بال بھی بیکا کیا نہ جا سکا۔
خیرہ کن یہ عشقِ مصطفیٰؐ ہے، تا ابد جسے کائنات پر حکمراں رہناہے۔ دلوں پر بھی حکمران اور اہلِ محبت کے ہر رگ و ریشے پر بھی بلا شرکتِ غیرے سلطان!
صلی اللہ علیہ وسلم !