1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. قرآن، چند یورپی سائنسی واقعات کے تناظرمیں

قرآن، چند یورپی سائنسی واقعات کے تناظرمیں

یورپ کی کسی یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کا ٹرپ سپین جا رہا تھا۔ سپین جو کبھی اندلس ہوتاتھا۔ طارق بن زیاد کا فتح کیا اورمسلمانوں کابسایایورپ کا پہلا متمدن و مہذب ملک اندلس۔ جہاں یورپ کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہی سپین دیکھنے کیلئے وہ لڑکی بھی اس ٹرپ میں شامل ہوگئی۔ سپین میں اس نے سیر کے دوران وہ سارا کچھ دیکھا، جو مسلمانوں نے کبھی اپنے دورِ حکومت میں یورپ کو دیا تھا۔ گو زمانے بیت گئے اور گو مسلمانوں کو یہاں سے گئے صدیاں گزر گئیں، ان کے زندہ نشاں یہاں مگر آج بھی ہیں۔ اس طالبہ نے یہاں وہ مسجد قرطبہ بھی دیکھی، جس پر اقبال نے اپنی شاہکار نظم تخلیق کی ؎

تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

الحمرا ور دوسری جگہوں پر اسلامی خطاطی کے نادر اور دل آویز نمونے دیکھ کے وہ دنگ رہ گئی۔ یہ عمارتیں او ریہاں کی عربی خطاطی بتاتی تھی کہ یہاں ہزار سال حکمرانی کرگئی قوم کس قدر نفیس ذوق کی مالک اور کس قدراعلیٰ اطوار کی حامل قوم تھی۔ وہ ان کی سب یاد گاریں دیکھتی پھری۔ گئے لوگوں کے حسین ماضی کی آثارِ قدیمہ ہو گئی یادگاریں۔ خطاطی میں تو وہ کھب کے رہ گئی۔ ایسی لکھائی اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ پہلی ہی نظرمیں وہ اس خطاطی کی گولائیوں، کششوں اور زاویوں کو دل دے بیٹھی۔ اسی وارفتگی میں وہ اک عجیب کام کرنے لگی۔ یہاں مسافروں کو سیر و تفریح کی رہنمائی کے جو کتابچے ملتے تھے۔ وہ مختلف یورپی زبانوں میں بھی تھے اور عربی میں بھی تھے۔ عربی اسے آتی نہ تھی مگر محض اس لئے کہ یہ اسے اچھی لگی تھی، اس نے سارے کتابچے عربی والے لینے شروع کر دئیے۔ پھر ایک دن اس پریہ کھلا کہ اب وہ اتنے عربی کتابچے جمع کر چکی ہے کہ یا تو وہ اپنے بیگ میںاپناضروری سامان رکھ سکتی ہے یا یہ کتابچے۔ اس نے مزید عجیب حرکت کرڈالی۔ اپنا سارا سفری سامان اس نے پھینک دیااور بیگ کو ان عربی کتابچوں سے بھر لیا۔ لگن بھی کیا چیز ہوتی ہے اور محبت بھی کس طور دیوانہ کر دیتی ہے۔ خیرٹرپ ختم ہوا۔ وہ واپس یونیورسٹی پہنچی۔ ا س نے یونیورسٹی کا عربی ڈیپارٹمنٹ تلاش کیا۔ ا س نے عربی میں داخلہ لے لیا۔ ایک دن اس نے اپنے استاد سے کہا کہ اسے مسلمانوں کے متعلق لٹریچر کی رہنمائی کر دی جائے۔ عربی سکھانے والے استاد مسلمان تھے۔ انھوں نے اسے قرآن ِ مجید کا انگلش ترجمہ دے دیا۔ دیوانی تو یہ ہو ہی چکی تھی۔ چندہی دنوں میں اس نے جی لگاکے سارا قرآن پڑھ ڈالا۔ اس ترجمے نے اس کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ زندگی اور انسان کے بارے اس کا سارا فلسفہ صفرہو گیا اور وہ اس قرآنی فلسفے کے سامنے اپنا سب کچھ ہار بیٹھی۔ وہ حیران تھی کہ اتنی شاندار کتاب پر کتاب کے مصنف کانام کیوں موجودنہیں؟وہ دوبارہ استاد کے پاس پہنچی۔ اس نے کہا، مجھے اس کتاب کے آتھر(مصنف)کا نام بتادیاجائے۔ کیونکہ یہ مصنف اتنا اچھا لکھتاہے کہ وہ اس کی دیگر کتابیں بھی خرید کے پڑھنا چاہتی ہے۔ استاد نے اسے بتایاکہ یہ کتاب ضرور ہے، مگر اس کا کوئی مصنف نہیں ہے، نہ اب اس کی کوئی دوسری کتاب ہے۔ یہ رب کا کلام ہے اور یہ دنیا والوں سے رب کا آخری کلام ہے۔ لڑکی کوشاید اسی منزل تک پہنچنا تھا۔ وہ مان گئی۔ وہ مسلمان ہوگئی۔ یہ واقعہ انصر صدیقی کی کتاب from ashes to light نامی کتاب میں موجودہے۔

The Amazing Quran ایسی ہی ایک اور کتاب ہے۔ اس کتاب میں بھی یورپی لوگوں کے قرآن کے حضور ششدر رہ جانے کے کئی واقعات ہیں۔ یہ کتاب گوگل ایپ پر بھی دستیاب ہے۔ اس میں ایک ملاح کابھی واقعہ درج ہے۔ یہ ملاح وہ تھاکہ جس کی ساری زندگی سمندر کے کھارے پانیوں میں گزر گئی تھی۔ سمندر کو وہ اب اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح جانتاتھا۔ پھر اسے قرآن مجید کا ترجمہ مل گیا۔ اسے نے اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھتے پڑھتے وہ سورۂ نور کی آیت نمبر 40 پر پہنچا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے شرک کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے۔ یہ تمثیل سمندر کی ہے۔ فرمایا،

’’ ان کے اعمال ان اندھیروں کی مانند ہیں، جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں۔ ایسااندھیرے کہ جنھیں اوپرسے موج در موج نے ڈھانپ رکھا ہو، پھر اس کے اوپربادل بھی چھائے ہوئے ہوں۔ ‘‘

اس تمثیل نے ملاح کو ششدر کردیا۔ اپنی سمندری زندگی میںایسے مناظر وہ کئی بار دیکھ چکاتھا۔ یہ مناظر صرف ایسا ہی ایک شخص جان سکتاتھا کہ جس نے اس کی طرح ساری زندگی سمندر کی نذر کر دی ہو۔ یہ وہ را زاایسے نہ تھے جو سمندر اپنے چند دنوں کے مسافروں پر کھول دیتا ہو۔ چنانچہ، جیساکہ مغرب سمجھتاہے، نعوذ باللہ قرآن نبی مکرم کا اپنا کلام ہے، جسے انھوں نے، نعوذ باللہ خداکے نام لگادیاہے۔ چنانچہ اس نے سوچا کہ ضرور میری طرح اس کتاب کے مصنف محمد ﷺ کی ساری زندگی بھی سمندر ہی میں گزرگئی ہوگئی، تبھی تو سمندر کی ایسی گہری اورحقیقی منظرکشی کرنا اس کے لئے ممکن ہوا۔ جب اسے پتاچلاکہ، ساری زندگی کیا محمدﷺنے توپوری زندگی میں سمندر کا ایک بھی سفر نہیں کیا، تووہ دنگ رہ گیا۔ وہ پکار اٹھاکہ اگر ایساہے تو پھرضرور یہ بندے کانہیں، رب کا کلام ہے۔

اسی کتاب میں ایک اور واقعہ علم الجنین (Embryology) کے دنیا کے سب سے بڑے ڈاکٹر کیتھ مور کا ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورانٹومیں ڈیپارٹمنٹ آف اٹانومی کے سربراہ اور جینیات کے پروفیسر ہیں۔ اپنے موضوع پر وہ دنیا بھر میں اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ 1981 میں انھوں نے اسی موضوع پر دمام میں منعقدہ ساتویں عالمی طبی کانفرنس میں شرکت کی۔ یہاں کسی نے انھیں جنین یعنی ماں کے رحم میںبچے کی کیفیات کے متعلق قرآنی آیات مطالعہ کے لئے دے دیں۔ بالخصوص سورۂ مومنون کی آیت بارہ تاچودہ نے اس ڈاکٹر کی آج تک کی تحقیقات اور علم کو صفر کر کے رکھ دیا۔ ڈاکٹر نے ماں کے پیٹ میں طے پاتے ایک بچے کے وہ سارے مراحل، جو قرآن نے بیان کیے تھے، ان کو سائنس کے عین مطابق پایا، کیتھ مور نے اعتراف کیاکہ اس موضوع پر اسکے بعض اشکالات بھی ان آیات کو پڑھ کے دور ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ قرآن مجید نے جو کچھ کہا، سائنس جہاں تک پہنچ سکی وہ سب اس کے مطابق ہے، البتہ قرآن مجید نے اس سلسلے میں سائنس سے آگے بھی کچھ کہہ رکھا ہے، جہاں تک ابھی سائنس نہیں پہنچ سکی۔ چنانچہ اس کے بارے کچھ کہناابھی سائنس کے بس کی بات نہیں۔ کسی نے اعتراض کیا، ہو سکتاہے، محمد (ﷺ) نے اپنے دور میں ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش کے سارے مراحل کا مشاہدہ کیا ہو اور پھر اسے قرآن میں بیان کر دیاہو۔ ڈاکٹر نے کہا، یہ ماننے کا مطلب ہے یہ تسلیم کرنا ہے کہ اس دور میں عرب کے بدو سائنس کی ایجادات میں ہمارے دور جتنے ہی ترقی یافتہ تھے۔ انھوں نے الٹرا ساؤنڈ کی ٹیکنالوجی بھی بنالی تھی اور صرف اسی ایک مشاہدے کے لئے اسے استعمال کیاتھا، اورانھوں نے یہ مشاہدہ کرکے پھرساری ٹیکنالوجی دفن کر دی تھی۔ چنانچہ آج کی دنیا کو وہ دوبارہ ایجادکرنا پڑی۔ یہ ناممکن ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور نے اس پر کتاب بھی لکھی۔

قارئین! یہ ہے ہمارا قرآن، غیر مسلموں کے نظر میں، پورا قرآن نہیں، اس کی چند آیتوں کے حضور ان کی ایجادات، ا ن کی سائنس اوران کے تجربات و مشاہدات کا عجز اور ان کی درماندگی کاعالم۔ اس سب کا مگر ہمیں شعور نہیں۔ یہ قرآن اسی رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔